ابھرتی ہوئی سیاسی لیڈرشپ کا چیلنج


بلاول بھٹواور آصفہ زرداری کی شکل میں پیپلزپارٹی کا نیاسیاسی ’جانشیں‘ ہو یا قوم کی، بیٹی مریم نوازشریف، خادم اعلی کے فرزندارجمند حمزہ شہباز شریف ہوں یاچوہدری برادران کا ولی عہد، افسوس! پاکستان کی سیاست کامحور و مرکزیہی چند گھرانے بن چکے ہیں۔ پانامہ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اب اس کا اندازہ لگانہ زیادہ مشکل نہیں تاہم پاکستان کے سیاسی افق پہ اس کے ان مٹ نقوش واضح ہیں۔ دشنام درازی، بے ہنگم گفتگو، گالم گلوچ، سیاسی بلوغت سے عاری سیاسی قائدین، الزامات در الزامات، بے سرو پا گفتگو، منطق اور علم سے کوسوں دور دلائل، اورشاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری نے پاکستان کے سیاسی نظام اور اس کی بلوغت کی قلعی کھول دی۔ پانامہ کیس کی میراتھن میں شامل اکژ کھلاڑیوں کی انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویے نے قوم اوربالخصوص نوجوان نسل کے سامنے سیاسی نظام کی شفافیت، اور ساکھ کو برے طریقے سے مجروح کیا جو پاکستان کے جمہوری نظام کے لیے قطعاً نیک شگون نہیں۔ پانامہ کا انت جیسا بھی ہو بہر حال اس قضیے نے پاکستان کے سیاسی نظام، اور اس کے بنیادی ڈھانچے بارے چند اہم سوال مثلاً ، عوا می سیاسی جماعتوں اور نظام کی بقاہ کو چند خاندانوں اور شخصیات کے مستقبل سے متصل کر نا، غیر سیاسی قوتوں کا بظاہرسیاسی جماعتوں پہ اثرورسوخ، اور جمہوری اقدار سے انحراف، کھڑے کر دیے جن کا جواب دیے بغیر ایک جمہور ی ا ور مستحکم پاکستان کا حصول ناممکن ہے۔

جمہوری نظام، سیاسی جماعتوں کے ارتقا اور زوال کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے راقم کو یہ معلوم ہے کہ جمہوری اقدار کا پرچارک، اور ان اقدار کو جب تک معاشرہ کلی طور پر اپنے طور طریقوں اور رویوں میں سمو نہیں دیتا یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ مغرب کی شد و مد کے ساتھ تعریف و توصیف کرتے وقت شاید ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوری رویے اور اقدار معاشرے میں کلی طور پر پروان چڑھائے بغیر نظام کا حصہ بننا انتہائی مشکل کام ہے۔

ہمارے سیاسی نظام کے اندر بھی بڑے سیاسی راہنما سیاسی جماعت کے تعارف کا باعث بنتے ہیں۔ جس سے شخصیات مضبوط اور اداروں کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔ الیکشن کے وقت ایک سماں بندھ جاتا ہے لوگ الیکشن مہم کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں جبکہ باقی عرصہ اس عمل سے لا تعلق رہتے ہیں۔ حالانکہ جمہوری نظام کی اساس اور اقدار اجتماعیت اور تسلسل ہے۔ سیاستدان اور اشرافیہ سیاسی جماعتوں کو محض ایک انتخابی پلیٹ فارم سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ سیاسی جماعتوں کا منشور، جماعت کے اندر جمہوریت اور جوابدہی کا عنصر پارٹی میں شمولیت کے لئے بنیادی اکائی ہیں۔ لیکن سیاسی قائدین اور کارکنان کی ایک بہت بڑی تعداد اس سے نابلد ہے۔

دنیا کی کامیاب جمہوریتوں کے اندر سیاسی جماعتیں سیاسی نظام کے لیے انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ دفاتر سے لے کر پارٹی پالیسی، کارکنوں کی استعداد کاری اور کارکنان کی فیصلہ سازی میں دسترس اور مشاورت کا لامتناہی سلسلہ بنیادی عمل ہے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندر منصفانہ، شفاف اور لگاتار انتخابات کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ خاندانی قیادت کا تسلسل، پارٹی کے باقاعدہ اجلاس نہ ہونا، اور غیر مسابقانہ انتخابات نے سیاسی جماعتوں کو فیملی کلب بنا کر رکھ دیا ہے۔ جس کی بدولت موروثیت نے جڑیں پکڑ لی۔ جماعتوں کے اندر کارکنوں اور قیادت کا رابطہ برائے نام ہے اور مشاورت کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر جماعتوں کے مرکزی دفاتر کے علاوہ دیگر کسی قسم کے دفاتر یا تو موجود نہیں یا پھر ان کی حالت دگرگوں ہے۔ انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور دیگر جدید آلات سے کوسوں دور دفاتر کسی آثار قدیمہ کا منظر پیش کرتے ہیں۔

دنیا کے اکثر ممالک میں سیاسی جماعتوں کے دفاتر بہترین اور جدید آلات اور ٹیکنالوجی سے مزین ہیں۔ ان جماعتوں کے اندر اپنی تحقیقی شعبہ جات کام کرتے ہیں اور یہ جماعتیں مختلف اوقات میں دوسرے تھنک ٹینکس اور تحقیقی اداروں کی خدمات بھی حاصل کرتی رہتی ہیں۔ درجہ اول، دوم اور سوم کی قیادت کی کٹھن محنت اور مشقت سے استعداد کاری کرتی ہیں۔ پارٹی پالیسیوں کے اوپر اجتماعی مذاکرے منعقد کرتی ہیں اور باقاعدہ بحث ہوتی ہے۔ یہ جماعتیں اپنے پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لئے ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کرتی ہیں۔ سیاسی نظریات کی ترویج کے لئے جدید ذرائع ابلاغ کا سہارہ لیتی ہیں۔ پارٹی کارکنوں کا مکمل ڈیٹا بیس اور ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور عہدیداروں کی پروفائلنگ کی جاتی ہے۔ انہیں بحث مباحثہ، تنازعات کے حل، داخلی معاملات اور سیکورٹی کے اوپر سیر حاصل ورکشاپس اور ٹریننگ دی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر ملک کے اندر ایک سیاسی بیانیہ تشکیل دینے کے لئے یہ سیاسی جماعتیں بہترین کردار ادا کرتی ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان میں میں اکثر سیاسی جماعتوں میں پالیسی ایشوز پر بحث چند مخصوص لوگوں سے آگے نہیں بڑھ پاتی فیصلہ سازی میں مرکزیت اور بند دروازوں کے پیچھے خفیہ فیصلوں نے عام کارکن کو سیاسی جماعتوں سے دور کر دیا ہے۔ شاید پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت ہی اہم معاملات پر فیصلوں سے قبل کارکنوں سے مشاورت کرتی ہو یا ان فیصلوں پر کارکنوں کے رد عمل کو جاننے کی کوشش کرتی ہو۔ دنیا میں سیاسی جماعتیں الیکشن ہارنے کا باوجود ایک منظم ادارے کے طور پرمسلسل اپنے اہداف اور بنائی گئی سیاسی حکمت عملی پہ شبانہ روز کام کرتی رہتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں الیکشن کے بعد سیاسی جماعتیں اور کارکنان لمبی تان جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی ایڈہاک اپروچ ہے۔

چونکہ سیاسی جماعتیں دانستہ طور پر ایک منظم ادارے کی شکل اختیار کرنے سے قاصر رہیں جس کے نتیجے میں ان کی فنڈنگ یا مالی وسائل کی فراہمی کے ذرائع، ان کا مناسب ریکارڈ، اور شفافیت جاننا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان پارٹیوں کے بابت اثاثوں کی تفصیلات اور فنڈنگ ذرائع کو وقتاً فوقتاً عوامی دسترس میں لاتا تو ہے لیکن غیر فعال اور غیر منظم تنظیم کی وجہ سے حقیقی ذرائع کا اندازہ اور اصل اثاثے کبھی عوام کے سامنے پیش نہیں ہو سکے۔ دنیا کے بہتر جمہوری معاشروں میں جماعتوں کی مالی معاونت حکومتی وسائل سے بھی کی جاتی ہے جس سے جواب دہی کا عنصر مزید تقویت پاتا ہے۔ اس بات سے شاید ہی کوئی انکاری ہو کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اندرچھاتہ برداروں کے ظہورکی بڑی وجہ ان کی مالی طور پر مستحکم پوزیشن اور مال کا اندھا دھند استعمال ہے جس کی بدولت دیرینہ سیاسی کارکنان کی حق تلفی اور حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ ان کا اس نظام کی اوپر اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ کمزور، غیر فعال سیاسی جماعتی ڈھانچہ کی بدولت چھاتہ بردار اہم عہدوں پے براجمان ہو گئے اور جماعتیں نظریاتی سیاست سے دور ہوتی گئیں۔

سیاسی پنڈتوں کی یہ رائے بھی کافی وزن رکھتی ہے کہ ضیالحق کے دور کے غیر جماعتی الیکشن نے بھی جماعتوں کو کمزور اور انفرادی سیاست کو مضبوط اور تقویت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 1906 میں سلطان آغا خان کی قیادت میں ہوا جو پاکستان بننے اور قائداعظم کی وفات کے بعد غیر تربیت یافتہ سیاسی قائدین کے ہاتھوں چھوٹے چھوٹے قابل حل سیاسی جھگڑوں کی نذر ہو تی گئی اور کئی سیاسی دھڑوں میں بٹ گئی۔ حسین شہید سہروردی کی آل پاکستان مسلم لیگ، افتخار ممدوٹ کی جناح مسلم لیگ، میاں افتخار کی آزاد پاکستان پارٹی، کھوڑو کی سندھ مسلم لیگ، عوامی لیگ، ایوب خان کے زیرسایہ پاکستان مسلم لیگ۔ کنونشن، قیوم مسلم لیگ، فنکشنل مسلم لیگ، جونیجو لیگ، ق لیگ عوامی مسلم لیگ یہ وہ چند نام ہیں جو مسلم لیگ کے بطن سے وارد ہوئے اور نہ جانے کتنوں کے تڑپتے ہیں مچلتے ہیں ارمان سینے میں۔

پاکستان کے چند بڑے مسائل میں دہشت گردی ایک گھمبیر مسئلہ ہے جس نے پاکستان کو داخلی اور خارجی طور پر بہت کمزور کیا۔ یہ بات عیاں ہے کہ دہشت گردی طاقت کے ساتھ ساتھ ایک بیانیے کی جنگ بھی ہے جو خالصتاً مذہبی سیاسی بیانیہ ہے۔ اس بیانیےکی کاٹ کا موثر ذریعہ سیاسی جماعتوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا جو اب تک جوابی بیانیہ بنانے کے لئے موثر کردار ادا نہ کر سکیں۔

نظریاتی طور پر منتشر اور الجھن کا شکار سیاسی جماعتیں پاکستان کے دور رس سیاسی مستقبل اور اور ایک مستحکم پاکستان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتیں اور متشدد بیانیہ کی اس جنگ سے قوم کو اس وقت تک نکالا نہیں جا سکتا جب تک سیاسی جماعتیں بحثیت ادارہ اپنی نظریاتی جہت اور تنظیمی ڈھانچے کو اولین ترجیح نہیں دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).