یہ بغض درحقیقت ملالہ، مختاراں یا اقبال سے نہیں ہے


پیش خدمت ہیں تین الگ الگ واقعات۔ تینوں میں جرم الگ ہے، مگر تینوں واقعات میں متاثرہ فریق ہی قابل نفرت، اجتماعی بغض یا سماج کی مجرمانہ خاموشی کا حقدار قرار پاتا ہے۔

نمبر 1: مختاراں مائی

مختاراں بی بی المعروف مختاراں مائی۔ دو قبیلوں میں سے ہمیشہ ایک با اثر ہوتا ہے اور ایک بے اثر۔ وہ بے اثر قبیلے کی تھی اس لیے بھائی پہ لگنے والے الزام کی سزا اس کو بھگتنی تھی۔ اس کے بھائی پر جنسی تشدد کرنے کے باوجود جرگہ کے فیصلے کے مطابق اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے کے بعد اسے برہنہ گاؤں میں پھرا کر اپنے زور اور طاقت کی مہر علاقے میں لگا لی گئی کہ ایک با اثر یہاں نہ صرف تمہاری جان کا فیصلہ کر سکتا ہے بلکہ وہ تم سب کی ان عزتوں کا خانہ خراب بھی کر سکتا ہے جو صرف عورت کے جسم سے منسوب ہیں۔ اس کیس کو قومی اور بین الاقوامی توجہ ملی اور پھر جوں جوں توجہ مختاراں مائی کو ملتی گئی ویسے ویسے وہ معاشرے کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی۔

عام افراد تو دور اپنے وقت کے طاقتور آمر نے یہ قبول کیا کہ ایک وقت میں اسے بھی مائی کی نقل و حرکت پہ سختی کرنی پڑی کیونکہ اس سے ملک کا ’امیج‘ خراب ہو رہا تھا۔ گذشتہ دنوں مختاراں مائی نے ایک بیان دیا ہے کہ پچھلے 14 سال سے وہ فطری طور پر سکون کی نیند سے محروم ہے کیونکہ وہ سانحہ اس کو آج بھی خوفزدہ کرتا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ایسے کسی واقعے کے بعد متاثرہ فرد کا غم غلط کرنا تو دور ہم اسے ہی غلط کہہ کر خود سے دور کر دیتے ہیں۔ کیا کوئی ایک فرد بھی کھڑا ہو کر ثابت کر سکتا ہے کہ مختاراں مائی کے ساتھ یہ شرمناک ظلم نہیں ہوا تھا؟ نہیں۔ تو پھر اس کے کردار سے پاکستان کیوں شرمندہ ہو گا۔ ’امیج‘ کو خراب تو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں نے کیا ہے۔ مگر ہم ایک ظالم معاشرے کا حصہ ہیں جو ظالم کے ساتھ کھڑا ہو کر مزید ظلم کرواتا رہے گا۔

نمبر 2: ملالہ یوسفزئی

ملالہ یوسفزئی ہمارے معاشرے کی پست ذہنیت کی عکاسی کرتے رویے کا شکار ہونے والی ایک طالبہ کا نام ہے جو اس وقت بھی قابل نفرت قرار پائی جب اسے نو عمری میں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ ڈائری کسی اور سے لکھوانے، والد کے مذہب بیزار ہونے، خود پہ کند ذہن ہونے سے لے کر مغربی جاسوس اور ایجنٹ ہونے کے الزامات ہمیشہ اس بچی کے اعزازات رہے۔ کسی کی ذات، ارادے، طریقے اور انداز سے اختلاف رکھنا کوئی غلط بات نہیں مگر کسی سے بلا وجہ نفرت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ اس کے طریقہ کار یا کسی کتاب یا تقریر پہ ہزار تنقید کریں مگر ایسا بھی کیا بغض کہ آپ بضد رہیں کہ جی گولی تو ماری ہی نہیں تھی وہ تو اس نے باہر جانے کے لئے ڈرامہ کیا تھا۔ کیا اس کے ڈرامے میں حکومت، فوج، میڈیا سب شامل تھے؟ کیا اس کے چہرے میں واضح تبدیلی بھی ڈرامہ ہے؟ آپ اس سے ہزار اختلاف رکھیں مگر جو گھٹیا الفاظ سوشل میڈیا پر اس کے لیے ہماری قوم کے عظیم فراغت کے مارے نابغے استعمال کرتے ہیں اس سے ان کی تربیت اور کردار کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

نمبر 3: اقبال مسیح

آپ میں سے اکثر نے اقبال مسیح سے متعلق وائرل پوسٹ دیکھے ہوں گے۔ وہ معصوم بچہ اس عمر میں جب آپ کے گھر کے بچے کینڈی کرش کھیلتے ہیں، ایک جبری مزدور کی زندگی گزار رہا تھا۔ وہ چار سال کی عمر سے جبری ملازم تھا اور یومیہ 1 روپے پہ کام کرتا تھا۔ اس کی آزادی کے وقت بھی اس پر تقریبا 13 ہزار روپے واجب الادا تھے۔ یعنی 13 ہزار دن۔ اس کی قلیل مزدوری ایک جانب، اس پہ کیا تشدد اور ظلم اوراس جیسے نجانے کتنے تھے جن کی وہ آواز بنا۔ اسے ملکی اور بین الاقوامی سطح پہ شہرت حاصل ہوئی۔ مگر ایک دن وہ خاموش کروا دیا گیا۔ وہ کھیلنے کودنے کی عمر میں جدوجہد کرنے چلا تھا۔ اس سےبغض رکھنے والوں کے پاس دلیل ہے کہ وہ غیر مسلم تھا اس لیے اسے مغرب کی خاص توجہ حاصل ہوئی۔ مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس کے قاتلوں کا مذہب کونسا ہے؟

کہتے ہیں کہ یہ تینوں پاکستان کو علمی سطح پہ بدنام کرتے ہیں۔ پاکستان کا اصل چہرہ یہ نہیں۔ چلیں پاکستان کے اصل چہرے کی کچھ جھلکیاں دیکھتے ہیں۔

اس قابل انجینیر نے عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایڈمیشن فارم بھرتے ہوئے سوچا بھی نہ ہوگا کہ وہ اپنی مقتل گاہ جا رہا ہے۔ اپنے گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے سوچا بھی نہ ہو گا کہ ایک دن یہیں سے اسے نماز جنازہ کے حق سے بھی محروم کر دیا جائے گا۔ اپنے کلاس فیلو کو پین دیتے یا اس سے پریزینٹیشن لیتے ہوئے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ ایک دن انہی میں سے کوئی گملا مارے گا تو کوئی گولی۔ دوسری جھلک ہے طیبہ جو جج صاحب کے گھر نا انصافی کا شکار ہوئی، تیسری جھلک ہے سنبل جو لاہور میں اجتماعی درندگی کے بعد اسپتال کے آگے پھینک دی گئی، ایک اور جھلک ہے ایبٹ آباد کی وہ لڑکی جسے دوست کی مدد کرنے کے جرم میں جلایا گیا، ایک ہے کوہاٹ کی حنا کہ وہ بے غیرتوں کی غیرت جگا کر خود مٹی تلے جا بسی، ایک جھلک ہے کراچی سے ملی زیادتی کا شکار وہ بچی جس کی کٹی نسیں ہمارے روشن چہرے پہ لہو ٹپکانے میں ناکام ہیں، ایک جھلک ہے گجرانوالہ میں حال ہی میں چوری کے شبے میں مجمع کے ہاتھوں مارا جانیوالا معصوم۔ ایک جھلک ہیں وہ سوختہ تین مسیحی جن میں سے ایک ماں کے بطن میں تھا۔ ایک جھلک ہے صفورا گوٹھ کی بس، ایک جھلک ہے سیالکوٹ میں ادھڑی ہوئی مغیث منیب کی لاشیں اور ایک جھلک ہے ہمارے انصاف انصاف کا نعرہ لگاتے تمام چہروں پہ لعنت دیتا شاہزیب قتل کیس جس کا باپ یہ کہتا ملک چھوڑ گیا کہ بیٹا کھو بیٹھا اب بیٹیوں کو بچا رہا ہوں۔

بس اتنی ہی جھلک کافی ہے۔ اسی سے انباکس پہ طوفان بد تمیزی آ جائے گا کیونکہ برداشت اور تحمل اگر ہوتا ہمارے لوگوں میں تو شعور کی منزلیں بھی طے ہو جاتیں مگر مسئلہ تو سارا برداشت کا ہی ہے نہ۔ برداشت نہ ہونے کی وجہ سے کبھی نوکر پہ ہاتھ اٹھتا ہے تو کبھی بیوی پہ۔

بغض کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اہل مغرب ایسے تمام لوگوں کو سہارا دے کر پاکستان کو بدنام کرتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ہم کن لوگوں کو پاکستان کی نیک نامی کے لئے ذمہ دار کہتے ہیں۔ ایدھی کو کہتے تھے یہ تو گردے اور مردے بیچتا ہے، محسن پاکستان حکیم سعید کو ہم نے مار ڈالا، قائداعظم کے فرقے پہ ہم متفق نہیں کیونکہ عزت دینے کے لئے ہر فرد کا ہمارے اپنے فرقے سے تعلق رکھنا ضروری جو ہے، علامہ اقبال پہ ہم متعدد فتوے لگاتے ہیں، سر سید کی تعلیم سے محبت نے انہیں کافر ٹھہرایا، آج شرمین عبید تیزاب پھینکنے والے سے زیادہ بری لگتی ہے، ہر خیراتی ادارے پہ ہمیں شک ہے۔ آخر کون باعث فخر ہے؟

ملک و ملت کے چہرے پہ داغ صرف آواز اٹھانے والے لگاتے ہیں اور وہ کیچڑ جو با اثر ظالم کی شکل میں موجود ہے اس پہ ہم اپنی کمال منافقت کی چمک پٹی لگا کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ بو کہاں سے اٹھتی ہے؟ اقبال آواز تھا، مختاراں آواز ہے، ملالہ آواز ہے، اب آپ کا فیصلہ ہے کہ آیا آواز میں آواز ملاتے ہیں یا پھر ایجنٹ، غدار، بدنامی اور کافر کی سند بانٹتے ہیں۔

پہلی تاریخ اشاعت:
Jul 15, 2017 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).