سیاست کا کھیل اور جمہوریت کو مبینہ خطرہ


نوے کی دہائی میں ہم پیپلز پارٹی کے ویسے ہی جیالے ہوا کرتے تھے، جیسے آج پی ٹی آئی کے رنگ ریزے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ہو، تو ہم وارڈ کمیٹی کے معمولی عہدے دار ہونے کے ”با وصف“، سرکاری دفاتر کے دروازوں‌ کو ٹھوکر مار کے کھولتے، کمرے میں بیٹھے سرکاری اہل کار کو ”جیالا پن“ دکھاتے؛ ہمارے نزدیک یہ انقلاب کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ جب جب پیپلز پارٹی کی حکومت کو خطرہ ہوا، ہم نے بڑھ کے یہ نعرہ لگایا، کہ ”جمہوریت خطرے میں ہے۔ “ جمہوریت کو بے آب رو ہو کے دینا تھا، ہو کے دی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت گرائی جاتی، تو اگلے انتخاب میں مسلم لیگ جیت جاتی؛ مسلم لیگ دور میں ہم جمہوریت کی بحالی کے لیے سرگرم ہو جاتے۔ ہمارے نزدیک جمہوری دور وہی ہوتا، جب پیپلز پارٹی اقتدار میں ہوتی۔

اس میں کیا شبہہ ہے، کہ مسلم لیگ اسٹیبلش منٹ کی جماعت رہی ہے۔ اصغر خان کیس نے یہ بات سب پر عیاں کر دی کہ کیسے پیپلز پارٹی کا راستہ روکے جانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ پھر 1999ء آیا، اور اسٹیبلش منٹ نے اپنے پیادوں کو پٹوا دیا۔ اسٹیبلش منٹ کی کوئی بھی جماعت ہو، وہ پیادوں سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔ ”شاہ“ تو اسٹیبلش منٹ ہی ہے۔ اس کو ہر حال میں بچانا ہوتا ہے؛ ورنہ بازی مات ہو جاتی ہے۔ سیاست کے طالب علم کہتے آئے کہ کوئی سیاسی جماعت، نظام میں تبدیلی کا منشور لے کر بڑھے، پھر انھی قوتوں سے ڈیل کر کے اقتدار حاصل کرے، جن کے خلاف جدوجہد کی جاتی رہی، تو سمجھ لیجیے وہ تحریک اپنے انجام کو پہنچی۔ بے نظیر بھٹو نے جب تیسری بار ان قوتوں سے معاہدہ کیا، تو تھڑوں پر بیٹھنے والے ہمارے ایک کامریڈ نے کہ دیا تھا، اس بار بے نظیر نہیں بچیں گی؛ ایسا ہی ہوا۔

زرداری صاحب کا سنہرا دور آیا؛ میمو گیٹ اسکینڈل کی ہنڈیا چڑھائی گئی، اس کے بعد پیپلز پارٹی کے منتخب وزیر اعظم کو کیسے گھر بھیجا گیا، وہ پاکستان کی دمکتی تاریخ کا حصہ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ پیپلز پارٹی بدعنوان سیاست دانوں کی جماعت ہے۔ اسٹیبلش منٹ کی بد قسمتی کہ 2013ء کے انتخابات نواز شریف کی جماعت نے جیت لیے۔ سادہ اکثریت بھی مصیبت بن گئی۔ کیوں کہ یہ وہ نواز شریف نہیں تھے، جو آئی جے آئی بناتے ہوئے اسٹیبلش منٹ کا دست و بازو بنے تھے۔ نوے کی دہائی میں اسٹیبلش منٹ کی آنکھ کا تارا، اب نوے کی دہائی کی بے نظیر کے مانند تھا، جو کھٹکتا ہے دل یزداں میں کانٹے کی طرح۔

2013ء کے انتخابات سے پہلے ایک رائے یہ تھی، کہ پیپلز پارٹی کا ناراض ووٹر، کسی بھی حال میں نواز شریف کو ووٹ نہیں دے گا۔ ایسے میں اس کے پاس عمران خان کو ووٹ دینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ یوں کہ لیجیے عمران خان کو اینٹی نواز ووٹ پڑنے کی توقع کی جا رہی تھی۔ ایسا ہوا بھی، لیکن وہ جیالے جو اسٹیبلش منٹ کو جوڑ توڑ کے لیے مورد الزام ٹھیراتے ہیں، ایسے نظریاتی کارکنوں کے پاس ایک ہی آپشن تھی، وہ یہ کہ مسلم لیگ نون کو ووٹ دیا جائے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

اندر کی خبر لانے کے دعوے دار سراسر افترا باندھتے ہیں۔ انھی کا پھیلایا یہ کذب ہے، کہ نواز شریف نے وہی غلطی دہرائی، جو بے نظیر بھٹو کرتی آئیں۔ وہ غلطی تھی، انتخابات جیت کر بھی حلف لینے سے پہلے اسٹیبلش منٹ کو چند یقین دہانیاں کروانا، کہ پڑوسیوں سے تعلقات کیسے ہوں گے، خارجہ پالیسی کس کی مرضی سے بنے گی، اور اس طرح کے دیگر امور ”ان“ سے اجازت لے کر نپٹائے جائیں گے۔ نوے کی دہائی میں تو نواز شریف ہے ہی اسٹیبلش منٹ کے نمایندے تھے، بے نظیر کو ایسی یقین دہانیاں کرانا پڑتی تھیں، یہ الگ بات ہے کہ ایسی یقین دہانیاں کرانے کے باجود مرزا اسلم بیگ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث بتائے جاتے ہیں؛ آئی جے آئی بنا کے ان کا راستہ روکنے کے منصوبے بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ تیسری بار تو انھیں انتخابات سے پہلے ہی اجل نے آ لیا۔ آصف علی زرداری صاحب سنگھاسن پر بیٹھے تو انھیں اپنی ”مقبولیت“ کا خوب اندازہ تھا، وہ اسٹیبلش منٹ کے لیے کیا خطرہ بنتے، لیکن کچھ ان کی حکومت کی ناقص کارکردگی اور کچھ سازشیں ہوئیں کہ اگلے انتخابات میں عوام کو یہ بتانے کے لیے کچھ نہ تھا، کہ انھوں نے پانچ سال میں اٹھارویں ترمیم کے علاوہ کیا کارنامہ س انجام دیا۔ یوں پنجاب سے عروج حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی اندرون سندھ کی جماعت بن کے رہ گئی۔

نواز شریف جان چکے تھے، کہ عوامی مفادات کے پروگرام نہ شروع کیے گئے، تو اگلے انتخابات میں عمران خان کے لیے آسان ہدف ہوں گے۔ انھوں نے ان چار سالوں میں کیا کارکردگی دکھائی یہاں اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ صرف کراچی کے حالات ہی کا ذکر ہو، تو سکھ کا سانس لیا جاتا ہے، یہ وہی شہر تھا جہاں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مشترکہ حکومت تھی، لیکن امن ہو کے نہیں دیتا تھا۔

جھوٹ کا کاروبار کرنے والوں کی ایک جھوٹی کہانی یہ ہے کہ انتخابات جیتنے کے بعدم اسٹیبلش منٹ نے نواز شریف کو پیغام بھجوایا، کہ آپ نے انتخابی جلسوں میں کارگل پر کمیشن بٹھانے کا اعلان کیا تھا، اس کا کیا؟ اور مشرف کا ٹرایل کرنے کا عندیہ دیا، تو کیا حکم ہے؟ افواہ ساز کہتے ہیں، نواز شریف صاحب نے کارگل پر کمیشن بٹھانے سے پیچھے ہٹنے کی شرط مان لی، جب کہ مشرف کے ٹرایل کو عدالت پہ چھوڑ دیا، کہ عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے، وہ صابرین میں سے ہوں گے۔ مشرف صاحب ملک سے باہر تھے، وہ جب وطن لوٹنے کی تاریخ کا اعلان کرتے، اسے موخر کرنا پڑتا، کیوں کہ گرین سگنل نہ دینے والے جانتے تھے، کہ وہ ملک میں آئے تو ان پر آئین شکنی کا مقدمہ بنے گا۔ مشرف صاحب سمجھتے رہے کہ ان کی بے پناہ مقبولیت، اسٹیبلش منٹ کو ہضم نہیں ہو رہی، زچ آ کے باس کو آنے دیا گیا کہ اپنی مقبولیت خود آ کے دیکھ لیں۔ مقبولیت تو عیاں ہوئی سو ہوئی لیکن باس کو عدالت کے دھکے کھاتے دیکھ کر دل پسیج گیا، کہ یہ ہماری بدنامی ہے۔ عمران خان وہ سادہ لوح کہ نوے کی دہائی والے نواز شریف بن کر سامنے آئے۔ کذب بیانی کرنے والوں کے بقول، دھرنا جن کا شو تھا انھوں نے خوب کمائی کی، عمران خان نے دھرنے کی بساط کا ”پیادہ“ بن کے اپنی ساکھ کو دھچکا ہی پہنچایا۔

چار سال ہوئے، مسلم لیگ نون کی حکومت کا وزیر خارجہ نہیں۔ وزارت خارجہ کو کون دیکھتا ہے، یہ کہنے کی کیا ضرورت؛ سبھی جانتے ہیں۔ نواز شریف حکومت اگر اپنا وزیر خارجہ نہیں رکھ سکتی تو اس کا حکومت سے چمٹے رہنے کا ایک ہی مطلب ہے، وہ یہ کہ انھیں اقتدار میں رہنے کا شوق ہے، چاہے اس میں ان کو اقتدار میں اسٹیبلش منٹ کو شریک کرنا پڑے۔ بس انھیں وزیر اعظم رہنے دیا جائے۔ ایسی حکومتیں عوام کو سڑکوں اور پلوں کے علاوہ کچھ اور دینے سے معذور ہوتی ہیں۔ نہ وہ پڑوسیوں سے اچھے تعلقات بنانے میں کام یاب رہتی ہیں، تا کہ دفاعی بجٹ کم کر سکیں، نہ کسی اور طریقے سے دفاعی بجٹ سے کٹوتی کر سکتی ہیں۔ احوال تو یہ ہے کہ رٹایرڈ فوجیوں کی پینشن دفاعی بجٹ میں سے نہیں دی جاتی، تا کہ بجٹ کم دکھائی دے۔ اس طرح کی لیپا توپی کر کے کوئی سربراہ حکومت عوام کے بھلے کا نعرہ لگاتا ہو، تو اس کی آواز کم زور پڑنے لگتی ہے۔ وہ قوتیں جو اقتدار میں اپنا حصہ چاہتی ہیں، وہ کسی پاناما، کسی میمو گیٹ اسکینڈل کو قومی نعرہ بنا کے دم لیتی ہیں، تا کہ عوامی نمایندوں کی رہی سہی ساکھ کو بھی تباہ کیا جا سکے۔

ووٹر جانتے نہیں تھے، کہ نواز شریف اینڈ فیملی کا ماضی کیا ہے؟ ان کی فیکٹریاں، کاروبار، محل کہاں ہیں؟ 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے عوام کو عدالتی فیصلے کی خبر نہ تھی، کہ آئی جے آئی بنانے کے لیے نواز شریف کو کتنے پیسے دیے گئے؟ ووٹروں نے پھر بھی نواز شریف کو ووٹ دیا، اس نواز شریف نے اپنے ووٹر کو مایوس کیا، کہ ان قوتوں سے ساز باز کر کے اپنے اقتدار کو طول دیتے رہے، جو مبینہ طور پہ سیاست دانوں کو بدنام کرنے میں کسی طرح کم نہیں۔ ایسا وزیر اعظم جس نے عوام سے ووٹ لیا ہو، اور حلف لینے سے پہلے ان قوتوں سے ڈیل کرے، جن کے خلاف تحریک چلانے کی ضرورت ہے، اس وزیر اعظم سے بہت پہلے استعفا مانگنا چاہیے تھا، وہ وزیر اعظم جو آئین شکنوں کو کٹہرے میں اس لیے نہیں لاتا کہ ایسی صورت میں اس کا تخت چھن سکتا ہے، وہ بھلا مطالبے پر استعفا کیوں دے گا؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran