کیا میاں صاحب سودے کی قیمت چکانے کو تیار ہیں؟


یادش بخیر۔ آئی بی اے کے دن اور فضل حسن صاحب کا شفیق چہرہ آنکھوں میں پھرتا ہے۔ اکاؤنٹنگ پڑھاتے پڑھاتے اچانک کسی بات پر ٹھٹکتے، چہرہ بورڈ سے موڑ کر جماعت کی جانب کر لیا جاتا۔ عینک پھسلتی ہوئی پھننگ پر ٹھہرتی اور ایک شریر سی مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھر جاتی۔ تھوڑی دیر آنکھیں گول گول گھومتی رہتیں پھر استاد من کوئی قصہ چھیڑ دیتے۔ دس میں سے سات قصوں کا اختتام ایک ہی سبق پر ہوتا۔ فضل حسن صاحب نے پڑھائی کی غرض سے امریکا میں کافی وقت گزارا تھا اور ان کو امریکیوں کی ساری کہاوتوں میں سے دو بے حد پسند تھیں۔ ہمارے لیے یہی دو کہاوتیں بار بار دہرائی جاتیں۔  کہا کرتے

“ دیکھو۔ امریکی دو باتیں بڑی زبردست کرتے ہیں۔ پہلی تو یہ کہ

There is no such thing as a free lunch

اور دوسری یہ کہ

If you can’t beat them; join them”

اس کا سلیس ترجمہ یہ بنتا ہے کہ کوئی شے مفت نہیں ملتی۔ ہر ایک کی کوئی نہ کوئی قیمت چکانی پڑتی ہے اور یہ کہ جس کو شکست دینا ممکن نہ ہو اس کے ساتھ اتحاد کر لینا عقلمندی ہے ۔

ضیاء صاحب کو فیصل مسجد کے باہر مستقل ٹھکانہ ملے زیادہ دن نہیں گزرے تھے ۔ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی۔ فضل حسن صاحب بھٹو کے پرستار اور ضیائیت کے ناقد اول تھے۔ سیاسی قصے نوک زبان پر دھرے رہتے۔ جماعت کی اکثریت ان طلباء کی تھی جو ضیاء دور میں پروان چڑھے تھے اور ان میں بہت سے اب بھی مرد مومن کے پرستار تھے۔ اکثر اوقات شدید بحث چھڑ جاتی۔ پیریڈ ختم ہونے کو ہوتا اور بحث کا نتیجہ ابھی دور است ہوتا تو فضل حسن صاحب پھر انہی امریکی کہاوتوں پر بات سمیٹ دیتے۔ انکا کہنا تھا کہ جو آمروں نے کیا، اس کی قیمت ہم برسوں دیتے رہیں گے اور جو سیاست دان کر رہے ہیں اس کی قیمت شاید انہیں خود چکانی پڑے۔ وہ اس بات کے بھی شاکی رہتے کہ سیاسی اشرافیہ بہت پہلے یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ عسکری اشرافیہ کو شکست دینا ممکن نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ قیام کی ہر پکار پر سیاسی اشرافیہ سجدہ ریز ملتی ہے۔

پانامہ کی زمین پر بوئی گئی فصل کٹنے کا وقت ہو چلا ہے۔ کچھ دیر میں دانے اور بھوسہ الگ ہونے کو ہے۔ صف بندی واضح ہے۔ اب مراجعت کا وقت ہے۔ موسم جوں جوں بدلتا جائے گا، پرندے نئی جھیلوں پر اترنا شروع کر دیں گے۔ یہ منظر نئے نہیں ہیں یہ سب جانتے ہیں پر ہزار بار کے اس deja’vu   سے کوئی اب بھی سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ شکاریوں کے چلن تو وہی ہیں پر شکار اب بھی چند دانوں کے لیے جال کی طرف خود لپکنے کو تلا رہتا ہے۔ ارتقائی عمل میں ایک نسل آہستہ آہستہ اپنی بقا کے موافق حالات کے مطابق خود کو ڈھالتی ہے اور خطرات کے خلاف ایک دفاعی نظام تشکیل دیتی ہے۔ جو نسل یہ کرنے میں ناکام رہتی ہے وہ ایک دن معدوم ہو جاتی ہے کہ قدرت کے کارخانے میں survival of the fittest   سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے گزرتے موسموں میں بدلا کیا ہے۔ جنہیں آپ معصوم عن الخطا کے مرتبے سے ذرا ہی نیچے رکھتے ہیں کیا وہ اپنی ہی غلطیوں سے سیکھ پائے ہیں۔

ہمارے استاد یہ بھی کہا کرتے تھے کہ سیکھنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھو۔ اس کے لیے تاریخ پڑھنی پڑتی ہے۔ ماضی کے شہر مدفون کو کدالوں اور بیلچوں سے کھدیڑنے کے بعد ہاتھ میں نازک برش لے کر اپنے وقت کے دیو قامت ڈائنوسارز کی معدومیت کے اسباب ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ تجزیہ خون جگر مانگتا ہے۔ پر اس میں آسانی یہ ہے کہ اپنا جسم داغ داغ نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ اپنی غلطیوں سے سیکھو۔ جنہیں راستے کی پرکھ نہیں ہوتی وہ ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ بھٹکتے ہیں۔ کبھی گول دائروں میں گھومتے ہیں۔ کبھی راہ کھو بیٹھتے ہیں۔  پھر رفتہ رفتہ بھول بھلیوں کے پیچ کھلتے ہیں۔ اس موڑ سے اس موڑ تک آشنائی آنکھوں میں ڈیرے بناتی ہے اور منزل کا سراغ مل ہی جاتا ہے۔ لیکن یہ سعی جسم و جان کے زخموں سے عبارت ہے۔ زمانہ بہت لگتا ہے۔ قیمت بہت بڑی ہوتی ہے۔ کہیں وقت کا سودا ہے تو کہیں صبر کے دام ہیں پر طریقے یہی دو ہیں۔ اب ان کو کیا کہیے جو نہ اس طریق سیکھتے ہیں نہ اس طریق۔ وہی چال بے ڈھنگی جو چلی آ رہی ہے ، چلی جاتی ہے تو کس کوچے جا نکلے، کس کو خبر ہے۔

اصول خوشنما ہیں پر زمین پر ننگے خاردار حقائق بچھے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے اس سے حساب مانگنے کے لیے آسمان کے برابر قد کرنا ضروری ہے۔ جو روز وشب پاتال کے مسافر ہوں وہ نظر اٹھانے کا حوصلہ کہاں سے لائیں۔ سیاسی اور عسکری اشرافیہ دونوں کے ہاتھ صاف نہیں  ہیں پر عوام کے انتخاب کا بار ایک ہی پر ہے تو ذمہ داری بھی اس کی بڑی ہے۔ سیاسی اشرافیہ کو جب اقتدار ملا ہے اس نے مال مفت دل بے رحم کے فلسفے سے اجتناب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ شاید عالم دوبارہ نیست کا خوف بھی دامن گیر تھا پر یہ ناامیدی دامن سے بندھی ہو تو قدم آگے کی سمت اٹھ ہی کیوں پائیں گے یوں سفر تیز تر رہا پر حرکت عنقا رہی۔ کاش فضل حسن صاحب کا ایک لیکچر یہ بھی سن لیتے تو جانتے کہ جسے مفت سمجھے ہیں اس کی کسی دن بھاری قیمت دینی پڑے گی۔ اخلاقی برتری گوہر نایاب نہیں، جنس بیکار سمجھی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر آفت پر جمہوریت کی ردا اوڑھ کر پناہ مانگنی پڑی کہ جسم پر جھولتے زربفت کا حساب تھا نہیں۔

اس پر بس ہوتی تو شاید خیر کا کوئی راستہ نکل آتا، چارہ گری کی کوئی نوید مل ہی جاتی کہ جب حق پاوں تلے روندا جاتا تو حقدار یک جان نہ سہی، یک آواز تو رہتے پر ستم یہ ہوا کہ  فصیل میں شگاف بعد میں پڑا، قلعے کا دروازہ کھولنے والے پہلے قطار بند ہو گئے۔ سیاسی حرکیات سے واقف وہ مانے گئے جو زمانے کی ہوا کے ساتھ اپنا رخ بدل سکے۔ کنونشن لیگ، نظام مصطفی، مجلس شوری،مسلم لیگ در مسلم لیگ در مسلم لیگ، پیٹریاٹس، این آر او، ایم ایم اے سب کندھے اسی سیاسی اشرافیہ کے ہی تو تھے۔ فاسٹ بولر کو لاکھ الزام دیجیے پر کیا ابھی کل کے آمر کے ساتھ یہ اتنا ہی شیر وشکر تھا جتنے آج کے مسلم لیگ کے فرنٹ لائن بیٹسمین ۔ کسی کا نام کیا لینا کہ کون واقف نہیں ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ہر شے کی ایک قیمت ہے۔ کردہ گناہوں کی بھی، ناکردہ ارادوں کی بھی۔ سانپ کو گلے کا ہار بنانے کی بھی اور ڈگڈگی بجا کر ہاتھ کی صفائی دکھانے کی بھی۔ بات کرنے کی بھی اور چپ ہو جانے کی بھی۔ کونچکائے گا ، کب چکائے گ، یہ ابھی طے ہو رہا ہے۔

کہنے کو سوال بہت سادہ ہیں پر جواب بہت پیچیدہ ۔ صف بندی واضح ہوتی تو میں بھی ایک پلڑے میں وزن ڈالتا پر کیا کروں جو چہرے ادھر نظر آتے ہیں ادھر بھی ہو بہو ان کا عکس ہے۔ میں بیچ میں کھڑا ہوں اور حیرت سے اپنے دوستوں کو تکتا ہوں جو چہروں کے پیچھے دیکھ لینے کی قدرت رکھتے ہیں۔ مجھے تو تحریر ٹھیک سے سمجھ نہیں آ رہی، بین السطور کہاں سے پڑھوں۔ سو تماشہ دیکھتا ہوں کہ مجھے نہ کل کسی نے دیکھا تھا نہ آج کوئی دیکھتا ہے۔ میں کہ ایک مشت خاک ہوں، میں کہ عوام ہوں ۔۔۔۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad