شریف‘ کون ہوتا ہے!


’شریف‘ اردو زبان کا لفظ ہے اور فیروز اللغات میں اس کے معنی’مہذب’، ‘عالی خاندان’، ‘بھلا مانس’ ،’کلمۂ تعظیم جو مقدس مقامات کے ساتھ بولا جاتا ہے’، وغیرہ لکھے ہوئے ہیں۔ یہی معنی سنتے، پڑھتے، بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں’شریف آدمی’ کے اصطلاحی معنی بدل چکے ہیں۔

ایک ایسا آدمی جو معاشرتی طور پہ ناکام تصور کیا جاتا ہے، یعنی جو اپنے بچوں کی عمر دو سال کم نہیں لکھواتا، بچوں کے داخلے کے وقت میرٹ پہ یقین رکھتا ہے، نوکری کرتے ہوئے ایمانداری سے کام لیتا ہے، کھلم کھلا رشوت لینے اور دینے سے کتراتا ہے، معمولی جھگڑوں میں ماں بہن کی گالیاں دینے سے احتراز کرتا ہے، ٹیکس جمع کراتا ہے، سگنل نہیں توڑتا، غیر قانونی اسلحہ نہیں رکھتا، قطار میں کھڑے ہونے پہ یقین رکھتا ہے، اپنے دفتر میں کام کرنے والی عورتوں کی عزت کرتا ہے اور راہ چلتے سگریٹ کے ٹوٹے اور پان کی پیک نہیں اچھالتا، اصطلاحاً شریف آدمی لکھا اور پکارا جاتا ہے۔

اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک ہی بات کو دو طرح سے لکھ کے میں کالم کا پیٹ بھر رہی ہوں مگر مندرجہ بالا تمام حرکات کو ہمارے معاشرے میں بزدلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی، معنی کے اندر معنی یہ ہے کہ ‘شریف آدمی’ بزدل ہوتا ہے اور ایسے آدمی سے دوستی کرنے اور تعلق رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، فی زمانہ ایسے شخص کو گاؤدی سمجھا جاتا ہے۔

تین عشرے پہلے جب ‘شریف’ خاندان سیاست میں آیا تو سب دانشور خاموش بیٹھے رہے۔ ویسے ان کے خاموش رہنے کی بہت سی وجوہات تھیں۔ لیکن فرض کر لیتے ہیں کہ ہماری طرح وہ بھی دھوکا کھا گئے کہ یہ اسم بامسمی ٰ شریف ہیں۔ جو کسر تھی وہ ان کی وضع قطع سے پوری ہو جاتی تھی ۔ سب لوگ سمجھے ‘ شریف آدمی ‘ ہیں ۔

خیر زمانہ اپنے ہنگاموں کے ساتھ گزرتا گیا۔ سیاست کے آسمان پہ بڑے بڑے ‘چاند چڑھے’ اور دنیا نے دیکھے۔ ہوتے ہوتے یہ زمانہ آلگا کہ صحافت کے کوے، ایوانِ اقتدار کی منڈیروں پہ بیٹھ کر اتنا چلائے کہ احتساب کی نحوست اس خاندان پہ سایہ فگن ہو گئی۔ پاناما لیکس میں ‘شریف خاندان’ کی کچھ ایسی جائیدادیں سامنے آئیں، جن کے وسائلِ آمدن کچھ مشکوک تھے۔

ماہرینِ لسانیات چونکے کہ یا بارِ الہیٰ خیر ہو، گو زندہ زبانوں میں الفاظ کے معنی بدلتے رہتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوا کہ کسی لفظ کے معنی بالکل ہی اپنے متضاد سے جا ملیں۔ ان لوگوں نے گڑگڑا کے دعائیں کیں اور غیب سے کچھ ایسی دستاویزات برآمد ہوئیں جنہوں نے کچھ عرصے کے لیے اس لفظ کی حرمت کا بھرم رکھ لیا۔

منیر شامی کا اگر آپ نہ جانتے ہوں تو ‘آرائشِ محفل’ فوری پڑھ لیجئے۔ اسی منیر شامی کا خلیرا بھائی مملکتِ قطر کا شہزادہ ہے۔ حاشا و کلا، اس نے فقط زبان و ادب کی خدمت کی غرض سے یہ قبولا کہ یہ ‘شریف آدمی‘ ہیں اور تحفے تحائف کا تو شرفا میں لین دین چلتا ہی رہتا ہے۔
مگر فلکِ کج رفتار کو جانے کیا منظور تھا۔ بات کا بتنگڑ بنتا گیا، کھچڑی پھیل کر کھاچڑی بنی اور منہ سے نکل کر کوٹھوں چڑھی۔

ایسا اندھیر مچا کہ گھر کی بہو بیٹیوں کو عدالت کی تھڑی چڑھنا پڑی۔ ہائے ہائے، غدر سا غدر مچا، کلیجہ منہ کو آتا ہے اور لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں کہ کیسے موئے مردوں کے درمیان سے گزر کر گئی ہو ں گی۔ زمانہ کیسا بے حیا اور سخت جان ہے کہ نہ آسمان کانپا اور نہ ہی زمین کو توفیق ہوئی کہ پھٹ ہی جاتی، کوئی تو سماتا اس میں۔
مزید دکھ یہ کہ چلو بھر پانی بھی نہ ملا کہ ڈوب ہی مرتے۔ تحقیقی رپورٹ مکمل ہوئی اور وہ ہو گیا جس کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی

کبھی جان نکلتی تھی ۔شریف لفظ کے معنی ایک بار پھر بدل گئے۔
چند سال پہلے ہی ایک نئی لغت مرتب ہوئی ہے اب دوبارہ کون اتنی محنت کرے گا؟ چلیے ، ہم ایک جگاڑُو قوم ہیں، جب تک نئی لغت مرتب نہیں ہوتی ہم نئے معنی یہیں لکھ دیتے ہیں۔

‘شریف آدمی’ کا مطلب بالکل بھی بے وقوف شخص نہیں ہوتا ۔’شریف آدمی’ ایک جادوئی صفات رکھنے والا شخص ہوتا ہے۔ مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہے تو سونا بن جاتا ہے۔ ننھے ننھے بچے بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ دولت اس کے گھر کی باندی ہوتی ہے، میرٹ اس کے دروازے پہ سلام کرتا ہے اور اس پہ کسی بھی قسم کا الزام سچ ثابت بھی ہو جائے تو اسے کسی قیمت پہ نہیں مانتا و علیٰ ہٰذا القیاس۔
بس آج سے آپ کسی بھی شخص کو شریف آدمی ہونے کا طعنہ دینے سے پہلے سوچ لیجیےگا کہ شریف اصل میں ہوتا کون ہے۔
ایک بے موقع ڈائیلا گ یاد آگیا سن لیجیے، ‘ہم شریف کیا ہوئے، ساری دنیا بد معاش ہوگئی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).