قائد اعظم کی جعلی ڈائری اور صدارتی نظام


پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر عطاء الرحمان وفاقی وزیر رہے۔ ہائیرایجوکیشن کمیشن کے بانی چئیرمین بنے ۔ دونوں حیثیتوں میں انھوں نے یقیناً اچھا کام کیا۔ وہ جنگ اخبار میں باقاعدگی سے خامہ فرسائی کرتے ہیں، متنوع موضوعات پر لکھتے لکھتے اچانک ان کو سیاست پر لکھنے کی ہڑک اٹھتی ہے،جس میں ان کا سارا زور جمہوریت کو کوسنے دینے اور وہ دلائل پیش کرنے میں صرف ہوتا ہے جن کا سہارا لے کر فوجی ڈکٹیٹر اس ملک پر چاند ماری کرتے رہے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ جمہوری نظام پرتنقید کرتے ہیں لیکن خود پرویز مشرف کے قریبی ساتھی رہے جن کے ہاتھوں جمہوریت کی آبروریزی ہوئی، دودفعہ انھوں نے آئین توڑا،بہتر ہوتا ڈاکٹر صاحب حقیقی جمہوریت کا مفروضہ ماڈل اپنے عظیم لیڈر کو پیش کرتے ۔ پرویز مشرف کے رفیق کار کو جمہوریت کے نقائص بیان کرنا جچتا نہیں۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے پرویز مشرف کے حکم پر ایم ایم اے کے وابستگان کو رکن اسمبلی کے لیے بی اے کی شرط عائد ہونے کے بعد جس طرح فائدہ پہنچایا، اس کے بارے میں فرنود عالم نے کل ہی اپنے مضمون میں لکھا ہے: ’’ وفاق المدارس کی شہادت عالمیہ کی سند ایم اے کے مساوی ہوتی ہے ۔۔۔ شہادت عالمیہ کی سند کو سرکاری محکموں میں کارآمد بنانے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مساوی تصدیق نامہ لینا پڑتا ہے۔ جنرل مشرف کے دوست ڈاکٹر عطاء الرحمان ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین تھے۔ وہی ڈاکٹر عطاء الرحمان جو ان دنوں پاکستان میں صدارتی نظام کے لیے بے چین ہیں۔ ذاتی طور پر میں ڈاکٹر صاحب کی قابلیت، اہلیت اور انسان دوستی کا معترف ہوں۔ مگر عرض ہے کہ پاکستان ایک غیر نصابی علاقے کا نام ہے۔ وہاں ڈاکٹر عطاء الرحمان جیسے پیشہ ور لوگ بھی کہاں جمع تفریق کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ اوپر سے حکم تھا۔ فاضل درس نظامی کو جس مساوی تصدیق نامہ کے حصول میں آٹھ ماہ لگ جاتے ہیں، وہ تصدیق نامہ سیاسی علمائے کرام کو دوہزار ایک میں دوگھنٹوں میں مل رہا تھا ۔ اکثر علمائے کرام کو تو ان کے گھر جاکر دیا گیا کہ یا شیخ! یہ بہت اہم رقعہ ہے۔ سنبھال کر رکھیے کام آئے گا۔ کچھ شخصیات ایسی تھیں جن کا علم تو کامل تھا مگر ان کے پاس وفاق المدارس کی سند نہیں تھی۔ ان شخصیات کے پاس ہائیرایجوکیشن کمیشن کا تصدیق نامہ پہلے پہنچا، وفاق المدارس کی اسناد بعد میں جاری ہوئیں۔‘‘

ہمارے ہاں چند سیاست دان ایسے ہیں کہ ایک دفعہ کسی بڑے منصب پر رہ لیے تو پھر اس کے سحر سے نکلے نہیں اوردوبارہ سے اسے پا لینے کے لیے بھٹکتے رہے، یہی معاملہ ڈکٹیٹروں کے دورمیں بڑا منصب حاصل کرنے والے بعض ٹیکنو کریٹس کا ہے، اس لیے وہ جمہوریت کے تسلسل پر بے چین ہوجاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پھر سے کوئی غارت گر آئین آئے اوران کے دن پھر جائیں، اس سے فوج کے امیج کو کیا نقصان ہوتا ہے، ملکی سالمیت کس قدر خطرے میں پڑتی ہے، فیڈریشن کتنی کمزور ہوتی ہے، اس سب کی ان کوتاہ بینوں کو پروا نہیں ہوتی۔

جمہوریت کش ٹولے کے مختلف کرداروں کی پہچان کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ یہ حضرات صدارتی نظام کے حامی ہوں گے۔ اس کے محاسن بیان کریں گے۔ بلاشبہ صدارتی نظام بھی جمہوری ہے اور دنیاکے کئی ممالک میں اس کا تجربہ کامیاب رہا ہے لیکن پاکستان کے حالات میں اس کی گنجائش نہیں۔ اس سے چھوٹے صوبوں میں سیاسی عمل میں شمولیت کا احساس اور بھی کم ہوگا ۔

چار فوجی حکمران آخر صدارتی نظام کے تحت ہی ملک چلاتے رہے۔ سب سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان نے صدارتی طرز حکومت متعارف کرایا، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں احساس محرومی بڑھا، اسے بھی صدارتی نظام کا کارنامہ شمار کرنا چاہیے کہ ہم ملک کے اکثریتی حصے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پارلیمانی نظام میں بہت سی خامیاں ہیں جنھیں دور کرنے کے بجائے پارلیمانی نظام ہی کو ختم کرنا مسئلہ کا حل نہیں۔ صدارتی نظام کا کیڑا ایک حلقے کے دماغ میں بہت عرصہ سے کلبلا رہا ہے اور اتنا عزیز ہے کہ خطرناک نتائج برآمد ہونے کے باوجود وہ اسے تیاگ دینے کو تیار نہیں اور اپنے سیاسی اور صحافتی دوستوں کے ذریعے اسے مارکیٹ کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان کی سیاسی فکراتنی اہم نہیں کہ اس پر قلم اٹھا کر وقت ضائع کیا جائے لیکن انھوں نے گذشتہ دنوں اپنے کالم میں صدارتی نظام کے حق میں ضیاء دور میں سامنے آنے والی قائد اعظم کی جعلی ڈائری کا حوالہ پیش کیا تو خیال ہوا کہ لوگوں کو اس ڈائری کی اصل سے آگاہ کیاجائے مبادا وہ ڈاکٹر صاحب کے لکھے کو سچ مان لیں۔ یہ ڈائری مرد مؤمن مرد حق کے زمانے میں سامنے آئی، میڈیا میں اسے عظیم دریافت کے طور پر پیش کیا گیا، اس پر گریٹ ڈبیٹ کرائی گئی،جھوٹ کے پاؤں تو ہوتے نہیں، اس لیے یہ ڈائری اپنی موت آپ مرگئی ۔ کیسے؟ یہ جاننے کے لیے معروف براڈ کاسٹر برہان الدین کی کتاب ’’ پس پردہ ‘‘ سے رجوع کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ جنرل ضیاء اسلامائزیشن کے ایجنڈے کے حق میں اور پارلیمانی جمہوریت کے خلاف قائداعظم کی تقریروں اور تحریروں میں من مانی ترمیم و تحریف کرنے سے بھی نہیں چوکے۔ اپنی بنائی ہوئی مجلس شوریٰ کے ساتویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے 12؍ اگست 1983ء کو انہوں نے ایک عجیب و غریب سراسر جھوٹا دعویٰ کیا کہ نیشنل آرکائیوز (National Archives) میں محفوظ قائداعظم کی ایک ذاتی ڈائری ملی ہے، جواب تک شائع نہیں ہوئی۔ اس میں ان کی ایک تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’قائداعظم سربراہِ ریاست کے منصب کو انتہائی مؤثر اور مضبوط دیکھنا چاہتے تھے اور جمہوری نظام کے خلاف تھے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ پارلیمانی نظام حکومت صرف برطانیہ میں اب تک کامیابی سے چل رہا ہے اور کہیں نہیں۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ صدارتی نظام حکومت پاکستان کے لئے زیادہ مناسب ہے چنانچہ اس دستاویزی شہادت کے پیش نظر جو دراصل قائداعظم کے حکم کا درجہ رکھتی ہے نظام حکومت کی بابت تنازع ختم ہو جانا چاہئے کیونکہ ان کی پسند کا صدارتی نظام حکومت نہ صرف جدید دور کے تقاضے پورے کرتا ہے بلکہ وہ اسلام کے بھی انتہائی قریب ہے۔

جنرل ضیاء کی اس دریافت کا قومی میڈیا پر زبردست چرچا رہا اور خوب تشہیر کی گئی اور اخبارات نے ڈائری کے متعلقہ صفحہ کو پہلے صفحہ پر شائع کیا۔ پی ٹی وی نے محض ڈائری دکھانے اور اس کی بابت خبر نشر کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس موضوع پر بحث و مباحثہ کے کئی پروگرام بھی ٹیلی کاسٹ کئے جن میں ضیاء کے پسندیدہ اور منظور نظر دانشوروں، علمائے کرام اور صحافیوں نے حصہ لیا۔ انہوں نے صدر کی عظیم دریافت کو اس صدی کا اہم واقعہ قرار دیا اور ضیاء کے اس دعویٰ کی مکمل حمایت کی کہ قائداعظم کے واضح اور دو ٹوک فرمان کے پیش نظر پاکستان کے لئے صرف صدارتی نظام حکومت ہی موزوں ہے کوئی اور نہیں۔

یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ جنرل ضیاء کے اپنے دماغ کا کمال تھا یا ان کے مشیر اس انوکھی اختراع کے ذمہ دار تھے تاہم یہ بات اس قدر مضحکہ خیز تھی کہ کسی نے اسے درست نہیں سمجھا۔ بالآخر جب ممتاز دولتانہ اور کے ایچ خورشید نے کسی ایسی ڈائری کے موجود ہونے کی پرزور تردید کی تو یہ افسانہ اپنی موت آپ مر گیا۔ اس کے بعد ضیاء الحق یا ان کے رفقائے کار میں سے کسی نے اس فرضی ڈائری کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قومی پریس نے بھی اس بات میں چپ سادھ لی اور بابائے قوم کے خلاف اس قسم کی مہمل الزام تراشی کو بے نقاب نہیں کیا۔‘‘

صدارتی نظام کی تائید کہاں کہاں سے ہوتی رہی ہے، اس بارے میں معروف صحافی حامد میر نے آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا کی ریٹائرمنٹ پر اپنے کالم ’’ الوداع جنرل پاشا ‘‘ میں بارہ مارچ 2012 کو لکھا:

’’ اس کا خیال تھا کہ پاکستان کو پارلیمانی جمہوریت نہیں بلکہ صرف اور صرف صدارتی جمہوریت بچا سکتی ہے حالانکہ پاکستان کو دولخت کرنے کی بنیادیں ایوب خان کی صدارتی جمہوریت نے فراہم کی تھیں لیکن وہ جنرل ایوب کا پرستار تھا۔ ایوب خانی جمہوریت کے حق میں اس نے کئی صحافیوں کے سامنے دلائل دیئے اور اپنا یہ مشہور جملہ بار بار دہرایا۔۔۔کیا آپ کے اور ہمارے بچوں پر بلاول، حمزہ اور مونس الہیٰ حکومت کریں گے،کیا ہمارے بچوں کو بھی وہی حکمران ملیں گے جو ہمیں ملے؟‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).