عظیم شاعر، کالم نگار، افسانہ نویس، سفیر اور مخیر شخصیت سے خصوصی گفتگو


ملک کے معروف ترین شاعر، عظیم ترین کالم نگار، عہد ساز کہانی نویس، رجحان ساز صحافی، بے مثل سفیر اور مخیر سماجی کارکن تابش علی تاباں یوں تو کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن فیس بک کے زمانے میں پیدا ہونے والی نسل ان کے علمی، ادبی اور سماجی کارناموں سے چونکہ کماحقہ واقف نہیں ہے اس لیے ادارہ ہذا نے مناسب سمجھا کہ ان کا ایک تازہ انٹرویو شائع کر کے قارئین کے اس نوزائیدہ طبقے کو مسرور و مطمئن کر دیا جائے۔ (مدیر)

٭٭٭       ٭٭٭

س : تابش علی تاباں صاحب ، آپ ایک ہمہ صفت موصوف انسان ہیں۔آپ سے بات کرتے وقت سوچنا پڑتا ہے کہ ہم کسی شاعر اور ادیب سے ہم کلام ہیں یا ایک استاد اور سماجی کارکن سے۔ آج کل چونکہ آپ کے کلام بلاغت نظام پر ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھے جا رہے ہیں اور تنقیدی و تحقیقی حلقوں میں ہر کسی کی زبان پر آپ کا نام ہے۔ اس لیے ہم گفتگو کی ابتدا آپ کی شاعری ہی سے کریں گے۔ تو ذرا ہمارے قارئین کو بتائیے کہ آپ کی شاعری کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟

ج : پہلا شعر پانچ برس کی عمر میں کہا تھا لیکن عشقیہ شاعری سولہ برس کی پختہ عمر میں شروع کی۔ حضرت تاباں شرق پوری ہمارے محلے دار تھے۔ انہوں نے کلام دیکھا تو والد صاحب کو بتا دیا کہ یہ لڑکا کچھ کر کے دکھائے گا۔ بس اس روز سے میں نے زانوئے تلمند حضرت تاباں کے سامنے تہہ کر لیا اور دن رات خدمت استاد کو اپنا شعار بنا لیا۔ استاد کی بینائی جواب دے چکی تھی۔ جب ان پہ اشعار اترتے تو میں کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتا اور لکھتا چلا جاتا۔ استاد کی وفات حسرت آیات کے بعد میں نے عقیدتاً ان کا تخلص اختیار کیا اور انہی کے رنگ میں کہنا شروع کر دیا اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں اب تک میرے چھ مجموعہ ہائے کلام زیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں۔

س : جی ہاں وہ تو سب جانتے ہیں بلکہ سچ پوچھئے تو میر تقی میر کے چھ دو اوین کے بعد اگر اس تعداد میں کسی اور کے مجموعہ ہائے کلام کو شہرت ملی تو وہ آپ ہی کا کلام تھا لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کے استاد محترم جناب تاباں شرق پوری کا کلام آج تک کیوں شائع نہیں ہوا۔

ج : ان کی تحریری وصیت میرے پاس موجود ہے کہ حصول شہرت کے جھانسے میں آکر سگ دنیا بننا میرے مقام و مرتبے کے منافی ہے۔ میں نے جو شاعری کی وہ اطمینان ذات کے لیے تھی نہ کہ اشاعت ذات کے لیے۔ میری تمام شاعری میرے ساتھ ہی دفن کر دی جائے تاکہ روز قیامت میں اپنے اعمال کے بل بوتے پر آزمائش سے نکلوں نہ کہ اپنے ژولیدہ خیالات کے وسیلے سے۔

س : گویا استاد کا کلام تاقیامت دیکھنے کا موقع نہ ملے گا۔ خیر غنیمت ہے کہ ان کے شاگرد رشید تابش علی تاباں ہمارے درمیان موجود ہیں جن کے کلام میں استاد کے کمالات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے لیکن شاعری تو آپ کی ہشت پہلو شخصیت کا محض ایک رخ ہے۔ آپ کا سفرنامہ یورپ ’آفتاب نیم شب‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اور غالباً اس وقت مستنصر حسین تارڑ کا کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا۔

ج : بھئی تارڑ تو بہت بعد کی پیداوار ہے۔ تارڑ کا پیش رو سید وجاہت علی تھا جسے عام طور پر اردو میں جدید سفر نگاری کا باواآدم سمجھا جاتا ہے۔ تاہم میرا سفرنامہ وجاہت کی اولین کتاب سے تین ماہ پہلے چھپ چکا تھا۔

س : اس لحاظ سے تو جدید دور کے اولین سفر نگار آپ ہی ٹھہرے۔

ج : حقیقت تو یہی ہے لیکن محققین نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں فرمائی۔

س : آفتاب نیم شب میں سکینڈے نیویا کا ذکر تو بھرپور انداز میں ہے لیکن مغربی یورپ کے بارے میں لکھتے ہوئے آپ نے کچھ زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیا۔

ج : مثلاً ….؟

س : مثلاً آسٹریا کو آپ نے کئی جگہ آسٹریلیا لکھا ہوا ہے۔

ج : بھئی اب کتابت کی غلطیوں کا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ ولایت میں سارے ملک ایک ہی جیسے ہیں۔ نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

س : آپ کی شاعری اور سفر نگاری سے تو ساری قوم واقف ہے لیکن آپ کی سفارت کاری کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔

ج : (حیرت سے) سفارت کاری؟

س : جی ہاں۔ آپ نے شاید وکی پیڈیا پر اپنا پروفائیل نہیں دیکھا جس میں آپ کے لیے شاعر، فکشن رائٹر، سفرنامہ نگار اور کالم نویس کے ساتھ ساتھ ایمبیسڈر کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ تو آپ کس ملک میں سفیر رہے ہیں۔

ج : (ہنس کر) اچھا…. وہ ایمبیسڈر….!(پاﺅں کی طرف دیکھ کر) یہ سب اس بھاری بھر کم پاﺅں کی کرامات ہے۔ اصل میں میرا پاﺅں خاصا جسیم اور وزنی ہے۔

س : لیکن پاﺅں کے وزنی ہونے کا سفارت کاری سے کیا تعلق ہے؟

ج : بتاتا ہوں …. بتاتا ہوں …. مجھے عام جوتا پورا نہیں آتا اور تیرہ نمبر کا جوتا اس ملک میں کوئی کمپنی تیار نہیں کرتی چنانچہ مجھے خاص طور پر ناپ دے کر اپنا جوتا بنوانا پڑتا ہے۔

جب باٹا کمپنی کو میرے جناتی پاﺅں کے بارے میں خبر ملی تو ان کے نمائندے خاص طور پر زیارت کے لیے میرے گھر آئے اور پاﺅں کی تصویریں کھینچ کر لے گئے۔ چند روز بعد مجھے نہ صرف جناتی سائز کے دو جوڑے موصول ہوئے بلکہ جفت ساز کمپنی نے مجھے اپنا برینڈ ایمبیسڈر بھی مقرر کر دیا۔ ایک اردو اخبار نے خبر کا ترجمہ کرتے ہوئے کچھ بے احتیاطی برتی اور یوں میں بیٹھے بٹھائے ایک شو کمپنی کے نمائندے سے پاکستان کے سفیر میں تبدیل ہو گیا۔

س : تو آپ نے اس کی تردید نہیں کی؟

ج :بھئی ایسی خبر ایک دفعہ چھپ جائے تو اس کی تردید کون پڑھتا ہے۔ بس اگلے ہی روز مبارک سلامت کا تانتا بندھ گیا۔ اب اتنے خلوص بھرے پیغامات کا ٹکاسا جواب دے دینا مجھے اچھا نہ لگا اور یوں بطور سفیر کے میری شہرت ہر طرف پھیل گئی۔

س : جس طرح آپ کے سفر ناموں کی شہرت پھیلی تھی؟…. ویسے تاباں صاحب کچھ لوگوں نے مشہورکر رکھا ہے کہ آپ تو کبھی اپنے شہر سے باہر نہیں نکلے۔ ملک سے باہر آپ کہاں جاتے۔

ج : گویا میں نے سارے سفرنامے گھر بیٹھ کے لکھ ڈالے….؟ لوگوں کی بھی بھلی کہی آپ نے۔ میاں ان حاسدوں نے تو یہاں تک اڑا رکھی ہے کہ شاعری کے چھ دیوان بھی میرے اپنے نہیں بلکہ استاد کا کلام میں نے اپنے نام سے چھپوا دیا ہے۔

س : خیر چھوڑیئے شاعری کے قصے کو۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اگر آپ نے زندگی میں ایک شعر بھی نہ کہا ہوتا تو بھی آپ کا نام کالم نگاری کی بدولت تاقیامت زندہ رہتا۔

ج : لیکن آپ جیسے انصاف پسند اب اس دنیا میں کتنے رہ گئے ہیں؟

س : ذرہ نوازی کا شکریہ …. لیکن یہ بتائیے کہ کالموں کے جو پانچ مجموعے اب تک شائع ہوئے ان کا ماخذ کیا ہے….

ج : ماخذ؟…. کیا مطلب ہے آپ کا۔

س : میرا مطلب ہے کہ یہ کالم آج تک کسی اخبار یا رسالے میں تو دیکھے نہیں گئے، پھر یہ براہ راست مجموعوں کی شکل میں کیسے نمودار ہو گئے۔

ج : بہت اچھا سوال ہے۔ ماشااللہ۔ دیکھو میاں اخباری تحریریں ہوتی ہیں وقتی اور ہنگامی نوعیت کی۔ آج پڑھو۔ کل ردی میں پھینک دو۔ لیکن میرے کالموں کے موضوعات آفاقی اور دائمی قدروں کے غماز ہوتے ہیں۔ اس لیے اخبار کی ردی میں چھپنے کی بجائے وہ براہ راست کتابی لبادے میں نمودار ہوتے ہیں۔

س : تازہ کالموں میں آپ کا جھکاﺅ مسلم لیگ (ن) کی طرف دکھائی دیتا ہے جبکہ ماضی میں آپ….

ج : ماضی کی بات چھوڑو میاں …. اگر ماضی میں جاﺅ تو میرے دادا جان مرحوم پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے زبردست حامی تھے لیکن مرنے سے قبل انہوں نے مسلم لیگ جوائن کر لی تھی اور بیٹے کو بھی اس کا رکن بنوا دیا تھا۔

س : یعنی آپ کے والد کو….؟

ج : جی ہاں۔ میرے والد 1969 ءتک سرکاری مسلم لیگ کے سرگرم کارکن رہے لیکن انتخابات سے کچھ پہلے انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور مجھے بھی کروا دی۔ میں کچھ عرصہ تک پیپلز پارٹی کا زبردست حامی تھا لیکن عمران خان کی شکل میں مجھے ایک اصل نجات دہندہ نظر آیا چنانچہ میں نے اپنے خیالات اور قلم کا رخ تحریک انصاف کی طرف موڑ دیا۔

س : لیکن حالیہ ضمنی انتخابات کے بعد آپ کے جو کالم ویب سائیٹ پر نمودار ہوئے ہیں وہ تو عمران خان کی بجائے نواز شریف کے گن گا رہے ہیں۔

ج : دیکھو میاں ایک چیز ہوتی ہے فکری ارتقا…. جو شخص مہد سے لحد تک لکیر کا فقیر بنا رہے اس میں اور مٹی کے ڈھیلے میں کیا فرق ہے؟ اچھے لکھاری کا ہاتھ وقت کی نبض پر ہوتا ہے۔ (گھڑی دیکھ کر) مثلاً اب ظہرانے کا وقت ہو رہا ہے…. اور آج نہاری کے ساتھ بھنا ہوا قیمہ بھی ہے۔ تو آپ پہلے لنچ کیجئے۔ باقی باتیں بعد میں کرتے ہیں….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments