نواز شریف صاحب، میکیاولی پڑھیں اور اردگان بنیں مرسی نہیں


پاکستان میں تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں، داخلی سلامتی کی پالیسی ہو کہ خارجہ پالیسی سب میں واضح تغیر دیکھا اور محسوس کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف ہم چین کے ساتھ نئے عہد کا آغاز کرچکے ہیں اور ٹرمپ کے آنے کے بعد ہماری افغان پالیسی پر نظر ثانی جاری ہے تو دوسری طرف ہم دہشتگردی کے خلاف ایک جوابی بیانیے پہ کام جاری رکھے ہوے ہیں۔ پانامہ کے ہنگامے نے ایک سال سب کی توانائیوں کو اپنی طرف متوجہ رکھا اور سپریم کورٹ کی طرف سے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ نے اب حکمران خاندان کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

2013 کے انتخابات اور انتقال اقتدار کے ساتھ نواز لیگ نے اپنے تیسرے حکومتی دور کا آغاز کیا۔ سنجیدہ حلقوں کے لئے ملکی تاریخ کا یہ پہلا پرامن انتقال اقتدار باعث اطمینان تھا کہ اب جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر چڑھ گئی ہے اور جہاں سے پیپلز پارٹی کی حکومت نے چھوڑا تھا وہیں سے نئی حکومت آغاز کرے گی۔ لیکن آپ نے شاید اپنے پچھلے دو ادوار سے سبق نہیں سیکھا اور تصادم کی پرخطر راہ کو کار ثواب جانا۔

جناب بصد احترم! آپ کا مینڈیٹ آپ کو اپنی ’من مانی‘ کرنے کی قانونی آزادی دیتا ہے لیکن ہماری جمہوری کہانی زیادہ پرانی نہیں ہے۔ جمہوریت کی خام اور خستگی میں آپ کا بھی اتنا ہی حصّہ ہے جتنا طالع آزماؤں کا۔ ہم ابھی جنگل سے نہیں نکلے اور حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں!

میرے وزیر اعظم صاحب یہ بھی آپ ہی کی ذمے داری تھی جمہور دشمن قوتیں جب آپ کے بقول سازشیں کر رہیں تھیں آپ جمہوری زہد احتیار کرتے اور دامن بچا کر اقتصادی ترقی کی راہ لیتے اور نکل جاتے۔ لیکن چونکہ پڑھنا آپ کا وصف ہی نہیں۔ آپ کو کیا پتہ کہ یونانی ارسطو ریاست اور سیاست پہ کیا لکھتا ہے اور اطالوی میکیاولی اقتدار کی طوالت پہ حکمرانوں کو کیا مشورے دیتا ہے، اسی لئے آپ کے رفقا اپنے درباری کردار سے آپ کو تاجر اور بادشاہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ آپ کے ان کف مارتے ساتھیوں کو دیکھ کر بے ساختہ غالب یاد آتے ہیں ”ہوئے تم جو دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو“۔ ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ہو یا پانامہ آپ کو اس نہج تک پہنچانے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔

جناب آپ اپنے مربی اردگان کے نقش پا پہ ہی چلے ہوتے تو آپ کو جان جاتے کہ سول ملٹری تعلقات کی حرکیات کے رہنما اصول کیا ہیں اور coup cousins ترکی اور پاکستان میں تھوڑے سے استثنیٰ کے ساتھ ان کو کیسے چلایا جاتا ہے۔ لیکن آپ نے راہ لی الاخوان کے مرسی کی۔

جناب! اب جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد آپ حق حکومت کے قانونی جواز کے علاوہ سارے جواز آپ کھو چکے ہیں جن پہ آپ خود اپنے حریفوں کو پرکھا کرتے تھے اور ان کے خلاف تحریکیں چلایا کرتے تھے۔ اس وقت کچھ مفاد پرست آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا کرتے نظر آتے ہیں کہ آپ پاکستان کے لئے ناگزیر ہیں اور پاکستان میں جمہوریت کا استعارہ ہیں۔ خدارا بچیں اس اندھا کرتی خوش فہمی سے کہ ہماری جمہوری روایت اور خود جمہوریت اتنی مستحکم نہیں ہوئی ہے ابھی اور نا ہی جمہوری حکومتوں کی اوسط درجے کی کارکردگی ابھی عوام کو ”دوسرے آپشن“ سے محروم کر پائی ہے۔ سب جمہوری قوتوں کا فرض اول اور ترجیح معلی یہی ہونی چاہئیے کہ عوام کی معاشی حالت میں بہتری لائیں۔ کیونکہ جمہوریت ایک رویے اور ایک چوائس کا نام ہے، جن کا حصول بنیادی ضرورتوں کے پورا ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ مزید براں، معاشی استحکام دیگر کئی مسائل سے بھی چھٹکارہ دلا سکتا ہے لیکن اگر سیاسی لوگ اسی بنیادی مقصد میں ناکام ہوجائیں تو پاکستان جیسی ریاست میں قومی سلامتی ہی سب سے بڑا مسئلہ ’بتایا‘ اور ’باور‘ کروایا جاتا ہے جس کا تدارک سیاستدانوں کے ہاتھوں میں نہیں ہوتا۔ سیاست کی سائنس ہمیں سکھاتی ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں جو ادارہ سیکیورٹی کے معاملات کو دیکھتا ہے طاقت کا توازن بھی اسی کے حق میں چلا جاتا ہے۔

ہائی پولیٹکس والے خطوں کے ممالک میں قومی سلامتی ہی سب سے پہلی ترجیح ہوا کرتی ہے اور عملاً سیاست عالمگیر اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی، پاکستان اس سے مبرا نہیں ہے۔ آپ ایک سیکیورٹی ریاست میں عالمگیر اصولوں کے اطلاق کی بات کرتے ہوے دیوانے معلوم ہوتے ہیں۔ معاملات کو سمجھیں، حریفوں کی چالوں کو آپ اپنے سیاسی داؤ سے غیر مؤثر بنا دیں، اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں، اپنی پارٹی کا نیا وزیراعظم لائیں، اپنی مدت پوری کریں، پانامہ کی قانونی جنگ لڑیں، اپنے جاری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں، اور 2018 میں اپنے اور اپنے خاندان پہ لگے بدعنوانی کے داغ دھو کر سامنے آئیں۔ تصادم کا راستہ آپ کے، آپ کے خاندان، اور آپ کی پارٹی کے لئے اچھا نہیں صاحب۔ مزید یہ کہ ہماری جمہوریت پہلے ہی ایک تنی ہوئی رسی پہ چل رہی ہے یہ کہیں بین الاقوامی سیاست، خطے میں بدلتے ہوے اتحادوں، اور پاکستان کے لئے آتے ہوئے مشکل حالات کی نذر نہ ہو جائے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ قصر سفید میں ٹرمپ کی آمد کے ساتھ ہی دنیا میں جمہوریت کی بحالی کے لئے دباؤ ڈالنے والے بھی نہیں رہے۔

مجھے یہ ڈر ہے مقامر ہیں پختہ کار بہت
نہ رنگ لائے کہیں تیرے ہاتھ کی خامی

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).