سیاستدانوں کا پتہ نہیں، فوج چوکنا ہے!


قیاس آرائیوں اور سوالات کے ماحول میں جبکہ مبصر اور سیاستدان صرف اندازے قائم کر رہے ہیں، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے سوالوں کے براہ راست اور ٹھوس جوابات فراہم کئے ہیں۔ آج میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاک فوج نے وادی راجگال میں خیبر۔4 کے نام سے دہشت گردوں کے خلاف ایک آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ اس فوجی کارروائی کا بنیادی مقصد افغان علاقوں میں طاقت پکڑنے والے داعش سے وابستہ گروہوں اور عناصر کا پاکستانی علاقہ میں خاتمہ کرنا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات کو مسترد کیا کہ پاکستان میں داعش بطور تنظیم موجود ہے۔ البتہ انہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ جماعت الاحرار اور تحریک طالبان پاکستان کے بعض عناصر نے داعش کے ساتھ وابستہ ہونے کی کوشش کی ہے لیکن پاک فوج ان سے مناسب طریقے سے نمٹ رہی ہے۔ گو کہ یہ فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس تھی لیکن اس میں خارجہ، سلامتی اور داخلی سیاسی امور پر بات بھی کی گئی اور سوالوں کے جواب بھی دیئے گئے۔ تاہم میجر جنرل آصف غفور نے یہ واضح کیا کہ سیاسی امور پر غور کرنا سیاستدانوں کا کام ہے۔ اس پریس کانفرنس کے دوران آئی ایس پی آر کے سربراہ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ایک پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔ اس مختصر پیغام میں جنرل باجوہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان استحکام سے مکمل امن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ فوج اس مقصد کےلئے دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر کارروائی کر رہی ہے اور اس میں کامیابی حاصل کی جائے گی۔

خیبر۔4 آپریشن واشنگٹن سے مسلسل ان بیانات کے بعد شروع ہوا ہے جن میں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کر رہا ہے اور افغانستان میں امن قائم نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کا رویہ ہے۔ یہ پیغام گزشتہ دنوں سینیٹر جان مکین کے دورہ پاکستان اور افغانستان کے دوران بھی سامنے آیا تھا۔ جان مکین اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان میں دیگر لوگوں کے علاوہ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی لیکن کابل پہنچ کر انہوں نے یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مراسم ہیں۔ اگر پاکستان اس حوالے سے اپنا رویہ تبدیل نہیں کرے گا تو امریکہ کو پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ اس کا زیادہ ٹھوس اشارہ کل ایوان نمائندگان میں امریکہ کا دفاعی بجٹ منظور کرتے ہوئے دیا گیا ہے۔ اس بجٹ تجویز میں بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات و تعاون بڑھانے کے لئے ایک قرارداد شامل کی گئی ہے جبکہ پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امریکی سینیٹرز کے دورہ کے دوران افغانستان میں دہشت گرد حملوں کی روک تھام کےلئے پاک افغان سرحدی علاقوں میں دونوں ملکوں کی فوجوں کی مشترکہ کارروائی کی تجویز بھی سامنے آئی تھی۔ البتہ پاک فوج کے ترجمان نے خیبر ایجنسی میں شروع ہونے والے آپریشن کو اس تجویز پر عملدرآمد تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں فوجوں کے درمیان تعاون و اشتراک سے آپریشن کا مطلب یہ ہے کہ دونوں افواج اپنے اپنے علاقے میں کارروائی کریں گی۔ دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں بیک وقت کارروائی ہونے سے دہشت گردوں کےلئے پناہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مقصد نہیں ہے کہ کسی غیر ملکی فوج کو پاکستان میں کارروائی کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ البتہ اس حوالے سے کابل کو مطلع کیا جائے گا تاکہ وہ بھی اپنے علاقوں میں کنٹرول اور نگرانی سخت کر دیں۔

اس بحث سے قطع نظر کہ موجودہ آپریشن مشترکہ ہے یا صرف پاکستانی فوج کر رہی ہے۔ اسے فوج نے خود قومی سلامتی کی ضرورتوں کے پیش نظر شروع کیا ہے یا امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے یہ دکھانے کےلئے اب ایک نیا آپریشن شروع کیا جا رہا ہے کہ پاک فوج ہر طرح کے انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، اس لئے اس کی فوجی امداد بند نہ کی جائے۔ لیکن اس اعلان سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان، امریکہ کی طرف سے آنے والے منفی اشاروں اور سخت سیاسی بیانات کے باوجود اپنی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کا محور بدستور امریکہ کو ہی رکھنا چاہتا ہے۔ اس حکمت عملی میں تبدیلی کا کوئی اشارہ نہ تو اسلام آباد کے سیاسی حلقوں کی طرف سے سامنے آیا ہے اور نہ ہی فوج کے ترجمان نے اس حوالے سے کسی نئے اشتراک یا رویہ میں تبدیلی کا اشارہ دیا ہے۔ اسلام آباد کے سیاستدانوں کی مجبوری تو نظر بھی آتی ہے اور سمجھی بھی جا سکتی ہے۔ پاناما کیس، جے آئی ٹی رپورٹ اور اپوزیشن کے الزامات اور مطالبات میں دبا وزیراعظم قومی اہمیت کے کسی معاملہ پر کوئی غیر روایتی فیصلہ کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس موقع پر فوج کو چیلنج کرنے اور اسے اپنی عسکری حکمت عملی میں تبدیلی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ دباؤ میں آیا ہوا سیاسی لیڈر جو بدستور اقتدار میں رہنا چاہتا ہو، اپنی مرضی اور حکمت عملی کے برعکس بہرصورت ان تمام شعبوں میں فوج کا استحقاق قبول کرنے پر مجبور ہوگا جو دراصل پارلیمنٹ کا حق ہیں اور جن پر پالیسی بنانا منتخب سیاسی حکومت کا اختیار ہے۔ لیکن ایک ایسے وقت میں جب کابینہ کے ارکان یا تو پاناما کیس میں وزیراعظم کا دفاع کرنے میں مصروف ہوں یا اس بات پر آپس میں دست و گریباں ہوں کہ کس کا مشورہ صائب اور کون سی رائے غیر متعلقہ ہے ۔۔۔۔۔ کون وفادار اور کون بدنیت ہے۔ کون کابینہ میں نواز شریف کا نمک خوار اور کون نادیدہ قوتوں کا ایجنٹ ہے ۔۔۔۔۔ تو فوج کا ترجمان اگر اہم قومی امور پر رائے دینے اور میڈیا کے علاوہ اہل پاکستان کی رہنمائی کرتا ہے تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔

میجر جنرل آصف غفور نے اسی لئے اس پریس کانفرنس میں جے آئی ٹی سے لے کر پاک افغان تعلقات ، افغانستان کے علاوہ ایران کی سرحد پر باڑ لگانے اور فوجی چوکیاں قائم کرنے کے معاملہ ، داعش کے وجود اور اس کے خاتمہ اور سی پیک کی ضرورت اور اس کے تحفظ کےلئے ہر ممکن اقدام کرنے جیسے امور پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ یہ سارے معاملات ایسے ہیں جن پر ملک کے وزیر دفاع، وزیر (مشیر) خارجہ امور یا وزیراعظم کو پالیسی بھی بنانی چاہئے اور صورتحال سے قوم کو آگاہ بھی کرنا چاہئے۔ لیکن جب وزیراعظم ذاتی مالی معاملات میں الزامات کا شکار ہونے کے باوجود اقتدار سے چمٹا رہنے پر اصرار کرتا ہے تو اول تو اس کے پاس قانونی پیچیدگیوں سے نمٹتے ہوئے قومی امور پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ استحقاق از خود سلب ہو جاتا ہے۔ فوج کے نمائندے ایسی صورت میں خواہ سیاست میں مداخلت سے گریز کرنے کا اعلان کر رہے ہوں لیکن وہ اہم قومی امور پر کنٹرول اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری سمجھ کر حاصل کرنا ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔ دو روز قبل جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح کیا تھا کہ پاک فوج عوام کی تائید و حمایت سے ملک کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرتی ہے۔ انہوں نے آج کے پیغام میں بتایا ہے کہ فوج ملک میں امن کی بحالی کےلئے مستعد ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے جس تفصیل سے خارجہ و دفاعی اور اقتصادی امور پر سوالوں کے جواب دیئے اور اظہار خیال کیا، وہ اہل پاکستان کےلئے دوٹوک پیغام ہے کہ ان کی حفاظت محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ فوج چوکنا اور مستعد ہے۔ اس لئے انہیں پریشان ہونے یا فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوالوں کے غیر واضح جوابات اور قیاس آرائیوں کے موسم میں یہ بیان سیدھا اور صاف ہے۔ سوچنے کی بات تو صرف یہ ہے کہ عام شہری کو مخاطب کرکے دیئے گئے اس پیغام میں کیا سیاستدانوں کےلئے بھی کوئی اشارہ ہے یا وہ اشاروں کی زبان سمجھنے اور صورتحال کو قومی تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت سے بدستور محروم ہیں۔ ذاتی جاہ اور مفاد پرستی کے حصار میں گھرے سیاستدانوں سے اس سے زیادہ توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali