صداقت ڈاکٹر، امانت گلوکار


گورنمنٹ کالج لاہور میں میرا ایک ہم جماعت ہوا کرتا تھا۔ کالج سے فارغ ہو کر میں نشتر میڈیکل کالج ملتان چلا گیا۔ وہ ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی۔ زمانہ طالب علمی میں دو تین بار کراچی جانا ہوا تو اس سے ملاقات رہی۔ میں فوج میں چلا گیا پھر لاہور میں آ کر پریکٹس شروع کر دی۔ وہ جماعت سے وابستہ تھا میں آوارہ گرد۔ معلوم ہوا کہ اس نے شاد باغ میں کسی مرحوم میجر کا کلینک کرائے پر لے کر پریکٹس شروع کر دی ہے۔ سامنے والے خالی پلاٹ میں گوبر پھنکوا کر کھمبیاں اگا کر ذیابیطس کے مریضون کے لیے غذا تیار کرانا شروع کر دی ہے۔ کئی بار سوچا کہ اس نابغہ روزگار بن جانے والے ہم جماعت سے مل لوں مگر نہ مل پایا۔ پھر میں ایران چلا گیا۔ لوٹا تو پہلے کوٹ ادو اور بعد میں مریدکے پریکٹس کرتا رہا۔ لاہور بارہا جانا ہوتا تھا۔ تب اس کے نام کے بڑے بڑے بورڈ لگ چکے تھے۔ وہ منشیات خوروں کا بڑا معالج بن چکا تھا۔ اس کا نام صداقت علی ہے مگر میں اس سے آج تک نہیں مل پایا ہوں۔ مجھے اس سے دوستی کا دعوٰی آج بھی ہے وہ یقیناً مجھے بھول چکا ہوگا۔ میں اس کے صادق ہونے سے متعلق البتہ کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں۔

اسی طرح جس قصبے میں میں پیدا ہوا یعنی علی پور ضلع مظفرگڑھ میں۔ وہاں کے بگا شیر بازار میں مظفر علی خان صاحب کی دودھ دہی کی دکان ہوا کرتی تھی جو ہم بچوں کو اپنی دبنگ آواز میں تہذیب کا درس دیا کرتے تھے۔ وہ نامور اداکار محمد علی مرحوم کے سگے ماموں بھی تھے، ان کی دکان سے جو گلی اندر کو جاتی تھی، اس میں ایک بڑی اور شاندار حویلی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ یہ حویلی علی پور میں تعینات ہونے والی پہلی لیڈی ڈاکٹر کو الاٹ ہوئی تھی مگر اب ایسے لگتا تھا جیسے یہ حویلی ویران تھی مگر اس میں انتہائی اداس آنکھوں اور لمبے بالوں والا محمد علی اداکار کی طرح کا خوبرو اور باوقار گورا چٹا امانت علی رہا کرتا تھا۔ یہ انہیں لیڈی ڈاکٹر کا نواسا تھا۔ امانت علی کو موسیقی سے شغف تھا۔ اس کی نانی کے بعد اس کی ماں بھی مر چکی تھی۔ اس حویلی سے کبھی کبھار ہارمونیم یا سارنگی کی آواز آتی تھی۔

پھر ایک روز جب رمضان کی سحری کا وقت تھا کہ پہلی لیڈی ڈاکٹر کے نواسے اور بڑی حویلی کے مالک مگر بیروزگار، موسیقی کے شیدائی امانت علی کی آواز سنائی دی تھی جو گلے میں ہارمونیم لٹکائے نعت گاتے ہوئے لوگوں کو جگا کر خیرات لے رہا تھا۔ میری بہنیں اور ماں زاروقطار رو رہی تھیں کہ ہائے اس کی نانی لوگوں کی امین تھی مگر اس کی امانت کا یہ برا حال۔

ان دو افراد کا ذکر یونہی نہیں۔ ہمارے ہاں صداقت اور امانت محض نام ہوتے ہیں۔ صادق اور امین ہونا پیغمبرانہ صفت ہے اور وہ بھی خاص طور پر نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس سے منسوب جس کو عامی لوگوں پر منطبق کرنے کی خاطر آئین میں ترمیم کرکے باسٹھ تریسٹھ نام کی شقیں شام کی گئی تھیں۔

اسی طرح کی ایک شق 58 ٹو بی ہوا کرتی تھی جس کے تحت سربراہ مملکت جب چاہتا بدعنوانی کے الزام لگا کر نہ صرف سربراہ حکومت بلکہ پوری مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ کو چلتا کر سکتا تھا۔ بھلا ہو پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کا کہ وہ یہ شق ختم کرانے میں کامیاب رہی۔
باسٹھ تریسٹھ کی شق کو نہ کسی نے نہیں چھیڑا کیونکہ جو بھی اسے چھیڑنے کی کوشش کرتا یا اسے حذف کرائے جانے کی بات کرتا، اس کے بارے میں فوری قیاس یہی کیا جاتا کہ یہ شخص صادق اور امین نہیں۔

صادق کا مطلب ہے مطلق سچ بولنے والا جو پیغمبر کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ گناہگار انسانوں کی اس بستی میں کوئی بھی سچ مطلق سچ نہیں ہے۔ جتنے بھی سچ بولے جاتے ہیں چاہے انہیں عام لوگ بولیں یا عنان اقتدار سے وابستہ لوگ سارے ہی اضافی یا مطابقتی سچ ہیں۔ کسی بھی سچ کو کوئی دوسرا جھوٹ ثابت کر سکتا ہے۔

جہاں تک بات ہے کاروبار یا حصول دولت کے سلسلے میں سچ بولنے کی تو وہ سرمایہ دارانہ سماج میں ہے ہی نہیں۔ کیا کرنسی نوٹوں کی شکل میں جتنی دولت ملک میں ہوتی ہے اس کے مساوی سونا یا قیمتی اشیاء حکومتی خزانے میں ہوتی ہیں؟ نہیں ناں تو یہ سچ نہیں ہوتا کہ حامل ہذا کو اس کے مساوی فلاں شے دی جائے گی اس لیے یہ مطابقتی سچ ہے۔ کیا بینکوں کا پورا نظام سچ پر مبنی ہے؟ نہیں ناں، کیونکہ پیسے کے جتنے لین دین کا ذکر ہوتا ہے اتنی کرنسی یا اتنا زر مبادلہ کسی ملک میں نہیں ہوا کرتا۔ کیا جائیداد یا سفری سہولیات سچ کی بنیاد پر بیچی جاتی ہیں؟ کیسی بات کرتے ہیں جناب۔ نیویارک میں تو سونے کی سیل بھی لگتی ہے، اشتہار میں لکھا ہوتا ہے 100% رعایت، مطلب یہ کہ اتنی رعایت دینے سے پہلے بھی قیمت سے متعلق سچ بول رہے تھے اور اب بھی سچ کہہ رہے ہیں۔ اس بات پر ہنسا جائے کیا؟ نہیں ناں۔

کاروبار قوانین کے مطابق ہوتے ہیں۔ ہر ملک کے قوانین مختلف ہوتے ہیں۔ ایک ملک کے قوانین کا اطلاق دوسرے ملک کے شہری پر نہیں ہوتا۔ کچھ ملکوں مثال کے طور پر امریکہ میں تو ریاستوں کے قوانین بھی مختلف ہیں۔ ایک ریاست کا جرم دوسری ریاست میں جرم تصور نہیں کیا جاتا۔

جس ملک میں قانون کی عملداری ہی نہ ہو وہاں کسی سے کونسی باز پرس؟ بچنے کے دس ہزار دس سو دس طریقے ہیں۔ قوانین میں اسقام کس لیے ہوتے ہیں اور وکیل کس بات کا کھاتے ہیں؟ قوانین کے رخنوں یعنی لوپ ہولز کا ہی تو فائدہ اٹھا کر کچھ وکلاء کروڑ پتی بنتے ہیں۔ یوں صاحب اس ملک میں صادق ڈھونڈنا گھاس میں سوئی تلاشنے کے مترادف ہے۔ سچے نہ ہونے والے شخص کو سچے نہ ہونے کے سلسلے میں غیر ثابت شدہ شخص اگر قصور وار ٹھہرائے تو وہی معروف کہانی یاد آتی ہے کہ اس شخص کو پہلا پتھر وہ مارے جس نے زندگی بھر کوئی گناہ نہ کیا ہو۔

رہی بات امین ہونے کی کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ ہر شخص امین ہو مگر صاحب ملک کی ستر سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے نوے روز بعد انتخابات کرانے کا وعدہ کرکے عوام کے نمائندوں کی امانت کو غصب کیے رکھنے سے لے کر نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر ملک جو لوگوں کی امانت ہے کو قانوناً آمروں کی جھولی میں ڈال دینا کہاں کے امین ہونے کی نشانیاں ہیں؟

اس تحریر سے کوئی یہ اندازہ نہ لگائے کہ ملک کے موجودہ منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف کے حق میں بات کی جا رہی ہے بلکہ بات کی جا رہی ہے منافقت کے ویوہار کی۔ اگر صادق اور امین تلاش کرنے ہیں تو پہلے اللہ سے دعا کی جائے کہ وہ حقیقی فرشتوں کو زمین پر اتارے۔ اگر قوم کی نیت ان بیچاروں کے ساتھ ویسا برا سلوک کرنے کی نہ ہو جیسا حضرت لوط کی قوم کی تھی تو وہ یہاں صادق و امین افراد کی نشاندہی کریں۔

یقین کیجیے اگر موجود جیلوں کے علاوہ ملک کی تمام ڈیفنس کالونیوں اور پوش علاقوں کی رہائش گاہوں کو بھی جیلیں قرار دے دیا جائے گا تو بھی انشاّاللہ نہ صرف وہ ساری بھر جائیں گی بلکہ پر کمرے میں دو دو تین تین چار چار اور اسی طرح لاؤنج و ڈرائنگ روموں میں ”منجی بستر“ کی بنیاد پر قید لوگوں کے علاوہ بہت سے عاصی افراد کے لیےعمارتیں کم پڑ جائیں گی۔

احتساب ہونا چاہیے۔ ہر ایک کا ہونا چاہیے۔ نام کے فرشتوں کا بھی اور احتساب کرنے والوں کا بھی۔ عوامی عدالتیں بننی چاہییں جن کے اراکین عام لوگ دانشور، فن کار، استاد، بڑھئی، باورچی، ڈرائیور، قاصد ہونے چاہییں۔ حضور ایسی عدالتیں بھی دنیا میں لگ چکی ہیں۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس طرح اگلے جہاں پہنچایا جا چکا ہے مگر انصاف تب بھی نہیں ہو سکا تھا۔ بدعنوانی اور اقربا پروری کسی اور شکل میں پھر پھوٹ پڑی تھیں۔

اگر بدعنوانی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اگر صادق اور امین ہونے کو رواج دیا جا سکتا ہے تو جمہوریت مضبوط کرکے۔ بہتر قوانین بنا کے۔ ملک کی معیشت مضبوط کرکے۔ ان اداروں کے اہلکاروں کو جہاں سے بدعنوانی کرنے اور کرائے جانے کے منابع پھوٹتے ہیں، بہترین تنخواہوں کے ساتھ غلط روی پر بدترین سزائیں دے کر۔

اور یہ سب ”مختصر میعاد“ کی بنیاد پر نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کیا خوب کہا ہے، “ روس میں پہلے بادشاہت ہوا کرتی تھی۔ پھر طویل عرصے تک اشتراکیت رہی اگر آپ سمجھیں کہ یہان اتنے کم عرصے میں فرانس یا برطانیہ کی سی جمہوریت رائج ہو جائے تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہے“، ہمارے ہاں پہلے بادشاہت ہوتی تھی، پھر نوآبادیات، پھر آزادی اور پھر۔ اب کیا بار بار باور کرائیں اور کیا جمہوریت پر بار بار شبخون مارے جانے کے بین کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).