سرکس کی ایک سادہ سی کہانی


ایک بزرگ بہت صاحب کرامات تھے ، دور دور تک ان کا شہرہ تھا۔ مشہور تھا کہ وہ جو بات منہ سے نکال دیں پوری ہوتی ہے ۔ بہت جلالی آدمی تھے ۔ ایک بار کسی بدبخت نے ان کی جملہ کرامات پر شک و شبہ کا اظہار کیا تو اسی رات اس کی بھینس چوری ہو گئی، وہ پیر صاحب کے قدموں میں آ کے گر گیا۔ انہیں رحم آیا تو انہوں نے بتا دیا کہ فلاں سکول کے ساتھ جو میدان خالی ہے ادھر جا کر دیکھ، بھینس مل جائے گی۔ بھینس واقعی اسی جگہ سے مل گئی۔ اب تو وہ شخص بھی قائل تھا کہ واقعی پیر صاحب کو کشف ہوتا ہے ۔

وہ چلے بھی کاٹتے تھے ، سائلوں کے لیے وظیفے بھی پڑھتے تھے ، پیسے کو ہاتھ کا میل سمجھتے تھے ، ہاں اگر کوئی مرید جوش عقیدت میں انہیں مرغی، بکری، بھینس یا کوئی بڑی چیز گفٹ کر دیتا جو ان کے سفر و حضر میں کام آتی تو وہ اسے روکتے نہیں تھے ۔ فرمایا کرتے اس سے ان لوگوں کا دل دکھتا ہے ۔ مخلوق کو دکھ دینا انہیں کبھی پسند نہ تھا۔ اگر کوئی پوچھتا کہ پیر صاحب ہم خود ہی چلہ کاٹ لیتے ہیں تو اسے کہہ دیتے کہ جاؤ سفید دھاریوں والی کالی بلی کا مغز لے کر آؤ یا آتشی گلابی گھوڑے کے کھر لے آؤ، مرید بے چارے تھک ہار کر واپس آتے اور ناکامی کی اطلاع دیتے ۔ پیر صاحب ترنت بتا دیتے کہ بھئی وہ فلاں گاؤں میں فلاں سلوتری (ڈنگر ڈاکٹر) ہے ، اس کے پاس جاؤ اور اسے پیسے دے دو، وہ خود ہی ڈھونڈ ڈھانڈ کر ہم تک پہنچا دے گا۔ تو بس سلوتری تک پیسے پہنچ جاتے اور دو تین ہفتے بعد پیر صاحب فون کر دیتے کہ بھئی کام ہو گیا ہے ۔

ایک ناہنجار نے بہت ہی ضد کی تو اسے ایک وظیفہ بتا دیا لیکن ساتھ وارننگ دی کہ اسے پڑھتے ہوئے تمہارے ذہن میں بن مانس کا خیال نہ آئے ۔ جہاں تم نے بن مانس کے مارے میں سوچا، وہیں اس وظیفے کا اثر ضائع ہو جائے گا، پھر نئے سرے سے پڑھنا شروع کر دینا۔ اب مرید بے چارہ جیسے ہی وظیفہ لے کر بیٹھتا ساتھ بن مانس کا خیال بھی آ جاتا۔ انسانی فطرت ہے ، جس چیز کی ممانعت ہو گی دماغ وہیں جائے گا۔ دو تین ہفتے بعد مرید روتا پیٹتا واپس آ گیا اور پیر صاحب نے کمال شفقت سے اسے بھی سلوتری کا راستہ دکھا دیا۔

ہاؤ-وا ۔۔۔۔ اسے ٹھیک سے لکھیے تو “ہوّا” کہلاتا ہے ۔ یہ وہ بھئو ٹائپ بلا ہوتی ہے جس سے مائیں بچوں کو ڈراتی ہیں۔ یہ نہیں کرنا ہوّا آ جائے گا، وہ نہیں کرنا میں سٹور میں بند کر دوں گی، وہاں ہوّا آ جائے گا ۔۔۔ ہوّئے نے ہر جگہ آنا ہی آنا ہوتا ہے ۔ ہمارے بدقسمتی میں اہم شریک پہلے دن سے چند بزرگان ملت اور تھوڑے بہت ہوّے رہے ہیں۔ یہ ہوّے ہمارے دماغوں پر اس طرح مسلط کر دئیے گئے ہیں کہ ان سے چھٹکارا ہو ہی نہیں پاتا۔ مثلاً فنون لطیفہ سے شغف اچھے بچوں میں نہیں پایا جا سکتا، عورت ایک دوسرے درجے کی مخلوق ہے ، وطن میں بستے دیگر مذاہبب والوں کے ساتھ ان کے تیوہار منا لینا قابل معافی فعل نہیں ہے ، ایٹمی جنگ کے خلاف بات کرنے والے ڈرپوک ہوتے ہیں، زندگی سے محبت کرنے والے سگ دنیا ہوتے ہیں، منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے فرضی دشمنوں سے جنگ کرنا اور ان کی “پشتوں کے کشتے ” لگا دینا ہر محب وطن کا فرض ہے ۔ اب جو بھی ان ہوّوں سے چھیڑ خانی کرے گا وہ ریوٹارک مفروضات توڑے گا اور وہ اچھا انسان نہیں سمجھا جائے گا۔ اگر وہ کسی کلیدی عہدے پر ہو گا تو ان میں سے کوئی بھی ایک چیز اس کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہے اور یوں پیر صاحب کے بن مانس کی طرح وہ ہوّا بار بار عوام کے دماغ میں اینٹری ڈالے گا جس کا انجام بالاخر سلوتری سے ملاقات ہو گی۔

چند سیاست دانوں کی زندگی کا واحد مقصد دوسروں کو بار بار سلوتری کے پاس بھیجنا بھی ہوتا ہے ۔ وہ اپنے فہم کے مطابق ترکش کے سارے تیر اکٹھے پھینکنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس سے ان کا سارا گیم پلان آؤٹ ہو جائے گا۔ منتخب وزیر اعظم پہ ایک تیر یہ پھینکا گیا کہ بھارت نواز شریف کے جانے سے خوف میں مبتلا ہے ، اور اس کے مفادات ان کے مستعفی ہونے سے شدید متاثر ہوں گے ۔ وہیں سے ایک بات یہ بھی آ گئی کہ ہم اگلا وزیر اعظم نہیں چاہتے ، اگلا الیکشن چاہتے ہیں۔ بیچ بجریا ڈھول بج گیا اور پیر صاحب کا بن مانس پھر ایک ہاتھ سے لٹکتا ہوا سامنے آ گیا۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کا خوف، یا بھارت کے خوف کا ہوّا؟ وزیر اعظم سے دشمنی یا سسٹم کا کمبل چرانے کی خواہش؟ اور اگر ان دو سوالوں کے جواب ملتے ہیں تو ساری کڑیاں خود ملا لیجیے ، بچتا کیا ہے ۔

بھارت ڈر نہیں رہا مرشدو، بھارت تشویش میں مبتلا ہے ، بھارت کی بات چھوڑئیے چین کو بھی یہ سب بالکل سمجھ نہیں آ رہا، وہ بے چارہ نیا نیا انویسٹر ہے اور خوف کی آنکھیں انگریزی محاورے کے مطابق بہت بڑی ہوتی ہیں۔ انویسٹر سے یاد آیا کہ سٹاک ایکسچینج کا ریکارڈ بھٹا بیٹھ چکا ہے ، ڈالر ماشاللہ وہیں ہے جہاں یار لوگ دیکھنا چاہتے ہیں، تیل کی تلاش کرنے والی کچھ کمپنیاں پہلے رفو چکر ہو گئیں، دو تین ابھی پھر پر تول رہی ہیں۔ پوری دنیا اس وقت پاکستان میں پیش آنے والی صورت حال کو بہت مزے لے لے کر دیکھ رہی ہے ۔ کہیں کیلیبری فونٹ پر باقاعدہ معتبر اخباروں میں چیزے لیے جا رہے ہیں، کہیں یہ ریویوز آ رہے ہیں کہ اگلا ممکنہ سیٹ اپ کیا ہو گا، وہ سیٹ اپ ہو گا بھی یا بہت بڑا سیٹ بیک ہو گا؟ اگر سیٹ بیک ہو گا تو اس سے باقی ملکوں کا اپ سیٹ نہ ہونا کس قدر ممکن ہے ؟ ان تمام امکانات پر غور و فکر شروع ہو چکا ہے ۔ تو سارا سیناریو عین ویسا ہے جیسا چاہنے والے چاہتے ہیں۔

کچھ سوال کرنے والے معتبر لوگ ایک ساتھ سوال کرتے ہیں کہ اتنا چیغہ کرنے والے بول دیں یار کس نے سازش کی ہے ، کون ہے جو اس سب گورکھ دھندے کے پیچھے ہے ، کوئی ادارہ ہے ، کوئی ایک شخص ہے ، کوئی پارٹی ہے ، کون ہے ؟ سازش سازش کا راگ گاتے رہنا اور سازش کرنے والے کا نام نہ بتانا، یہ کیا بات ہوئی؟ کسی کا نام تو لیں، کس چیز کی آخر کتنی پردہ داری ہے ؟ تو یہ سوال ایسا ہے جس کا جواب خود کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے ۔

قائد اعظم نے کن حالات میں جان کی بازی ہاری؟ حسین شہید سہروردی کے ساتھ بیروت میں کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ لیاقت علی خان کو مارنے والے سید اکبر پر گولی چلانے میں کیا مصلحت تھی؟ محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر کے دوران نشریاتی رابطے کیسے منقطع ہوئے ؟ بھٹو کیس اتنا کمزور ہونے کے باوجود ایسی تاریخ سوز سزا کیوں کر نکال پایا؟ جنرل ضیا الحق مرحوم کے طیارے میں اصل مسئلہ کیا تھا اور کیوں تھا؟ مرتضی بھٹو کیس کی رپورٹ کا نتیجہ کیا نکلا؟ بے نظیر قتل ہوئیں تو سارا میدان دھو دھا کر ایکدم شیشے کی طرح کیوں چمکا دیا گیا؟ مشال خان کی جے آئی ٹی رپورٹ کہاں تک پہنچی؟ ریمینڈ ڈیوس کی کتاب اتنی جلدی کیوں دفن ہو گئی؟

اگر ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے لجا آتی ہے تو صاحب کچھ جوابات ریزرو رکھنے کا حق فریق مخالف کو بھی دیجیے ورنہ صاحب طرز نثر نگار اسد محمد خان صاحب کا افسانہ “سرکس کی ایک سادہ سی کہانی” پڑھ لیجیے ۔

بشکریہ: روز نامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain