کیا ایک منتخب حکومت کا گرایا جانا ہی تبدیلی ہے


تبدیلی کا نعرہ معاشرے کے غیر مراعات یافتہ اور پِسے ہوئے طبقات کے لیے ہمیشہ سے نہایت کشش کا حامل ثابت ہوتا ہے۔ ان کے لیے تبدیلی ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر مسائل کے حل اور بہتر میعارِزندگی کے حصول کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ خصوصاً ہم جیسے تیسری دنیاکے ممالک، جہاں عوام کی اکثریت مسائل کے انبار تلے دبی ہو اور بنیادی سہولیاتِ زندگی بھی باآسانی میّسر نہ ہوں۔ عوام کی اسی کمزوری کو بعض طبقات اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہوئے تبدیلی کے نام پر اپنا الّو سیدھا کرتےچلے آئے ہیں۔

ایسے تبدیلی کے دعوءوں کی تاریخ ملکِ عزیز میں بہت طویل ہے۔ اسی تبدیلی کی آڑ میں بہت سے طالعِ آزما مسندِ اقدار پر جلوہ افروز ہوتے رہے ہیں، مگر حالات میں بہتری لانے اور تبدیلی کے دعوے ہمیشہ ریت کی دیوار ہی ثابت ہوئے۔ پرانے قصّے تو کتابوں میں پڑھے اور بزرگوں کی زبانی سنے، مگر ہم نے جنرل پرویز مشرف کے ٹیک اوور پر مٹھائیاں بٹتے اور لوگوں کو آنکھوں میں تبدیلی کے سپنے سجاتے خود ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کالج کا زمانہ تھا، ٹیلی ویژن پر کوئی پروگرام دیکھتے اچانک نشریات معطل ہو گئیں۔ کچھ وقت بعد معلوم پڑا کہ کرپٹ اور نااہل حکومت کی جانب سے سپہ سالار کے خلاف کی گئی سازش ناکام بنا دی گئی ہے اور بہ امرِ مجبوری ملک کو اس نازک صورتحال سے نکالنے کی ذمّہ داری ہمارے کمانڈو آرمی چیف کے کاندھوں پر آپڑی ہے۔

سیاست کی اتنی سمجھ بوجھ تو تب بھی نہ تھی، مگر ہمیشہ ذہن میں یہ سوال گونجتا رہا کہ عوام کے حقِ رائے دہی کے ذریعے منتخب کردہ حکومت کا تختہ ایسے شب خون مار کرالٹنا کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ آج بھی ہر طرف تبدیلی کے نعرے گونج رہے ہیں۔ تبدیلی کا جشن منانے کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں۔ پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرونک اور سوشل میڈیا تک، ہر جگہ تبدیلی کا شوروغوغا ہے۔ حکمران خاندان کی کرپشن کی داستانیں زبان زدعام ہیں۔ کہیں فتح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں تو کہیں نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔

ہمارے دانشوروں کا سارا زور وزیرِ اعظم کو استعفیٰ دینے پر قائل کرنے پر ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا جس تبدیلی کا خواب یہ قوم کئی دہائیوں آنکھوں میں سجائے بیٹھی ہے، کیا ایک حکومت کی تبدیلی سے وہ سپنا سچ ہو جائے گا۔ جب اپوزیشن کے رہنما جوشِ خطابت میں یہ کہتے ہیں کہ تبدیلی آ رہی ہے، تو ہم جیسے سادہ لوح خیالوں ہی خیالوں میں امید کے محل تعمیر کرنے لگتے ہیں۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا کرپشن ہی ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایک ملک جو عالمی اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق کرپشن میں ایک سو سولہویں نمبر پر ہے، مگر دہشت گردی کے ضمن میں دنیا بھر کے ممالک میں چوتھے نمبر کھڑا ہے، اس کے اداروں، سیاستدانوں اور میڈیا نے عوام کو گزشتہ کئی ماہ سے ایک ہی ایشو کے پیچھے لگا رکھا ہے۔

بلاشبہ کرپشن ایک ناسور ہے، مگر کیا ہمارے ملک کے موجودہ حالات کے تحت صرف کرپشن کا کرپشن خاتمہ ہی ہماری اوّلین ترجیح ہونا چاہئے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کا معاملہ کہیں پیچھے چلا گیا ہے، لوگوں کی ساری توجّہ ایک تماشے پر مرتکز کر دی گئی ہے۔

کیا کسی فورم پر یہ چیز زیرِبحث ہے کہ نیشل ایکشن پلان پر کس حد تک سنجیدگی سے عمل درامد کیا جا رہا ہے۔ کیا معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور جارحانہ رویّوں کا سدّباب ہماری قومی ترجیحات میں کہیں شامل ہے۔ کیا بنیادی ضروریات زندگی تک عمومی رسائی، تعلیم کے شعبے میں بہتری، صحت کی سہولیات اور معاشی استحکام کے متعلق بھی رائے سازی کی جا رہی ہے۔ کیا حکومت کی تبدیلی ہی سب مسائل کا حل ہے۔ کیا ایک منتخب حکومت کا گرایا جانا ہی تبدیلی ہے؟

 

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).