تعمیری سیاست کی شروعات کی اہمیت


جمہوریت کی نشونما میں رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے، اصل مقصد انڈیا اور پاکستان کے شہریوں کو طاقت دینا ہونا چاہئیے تاکہ وہ حالیہ سیاسی و جغرافیائی حقائق میں اپنے کردار سے مطمئین ہو سکیں اور کمزور اور محروم آبادی کے طور پر تباہ کارانہ سیاسی نظریات کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔ جمہوریت کے سیاسی پہلو پر نگاہ ڈالنے کے علاوہ اس کے معیشت میں کردار کو سمجھنا بھی اہم ہے۔ ایک مضبوط اور خوشحال انڈیا ہمارے علاقے میں امن کی ضمانت ہے لیکن ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان اس ضمانت کو مزید مستحکم کرے گا۔ اس لئیے ان دونوں ملکوں میں عدم استحکامی سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا اور یہ ہمارے علاقے میں امن کے لئیے نقصان دہ ہے۔ مقصد یہ ہونا چاہئیے کہ اس ڈیڈ لاک کا عملی حل تلاش کیا جائے تاکہ تمام لوگوں کی تعظیم کی حفاظت کے ساتھ برصغیر پاک و ہند میں امن برقرار رہ سکے۔

ایک سیاسی اور سماجی وژن کو حقیقت میں بدلنے کے لئیے ایک افادی انتظامی ڈھانچے اور متحرک تعلیمی اداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو متحرک شہری پیدا کریں اور حال کے تقاضوں سے آگاہ ہوں۔ ایک ایسی سیاسی تحریک جو آبادی کی فلاح و بہبود، اچھی حکومت اور جمہوری اداروں کی تعمیر نو کو ناکافی توجہ دے، اپنے راستے میں ناقابل تلافی تباہی و بربادی چھوڑ جاتی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے نمائندوں کی بلاجھجھک جملہ بازی بیکار ہےاور اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہوگا جب تک سنجیدہ سیاسی گفت و شنید کا سلسلہ آگے نہیں بڑھتا۔ بر صغیر پاک و ہند کی غیر یقینی صورت حال کرپشن بڑھاتی ہے اور اس میں موقع پرست عناصر کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے جب کہ مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔

یہ صاف ظاہر ہے کہ کل بھی اور آج بھی سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ دونوں ممالک انڈیا اور پاکستان میں جمہوری پروسس کو بحال کیا جائے، سیکولرزم کی اہمیت کو سمجھا جائے جو کہ مختلف مذاہب اور شناختوں کو پہچانتا ہے تاکہ ان شناختوں کو سیکولر ڈھانچے میں اپنی جگہ مل سکے اور ایسے نظام کی تشکیل ہو جہاں عوام کے لئیے نئے راستے کھلیں، جہاں نوجوانوں کو عوامی مسائل کے بارے میں گفت و شنید میں شامل کیا جاسکے تاکہ وہ ایک متحرک شہری بن سکیں۔ اس پروسس کا مقصد نسلیاتی بنیادوں پر بٹے ہوئے انڈیا کی درستی ہے۔ ایک جمہوری ڈھانچے میں، چاہے وہ کتنا ہی خامیوں سے پر ہو، سیاست دان اگر اپنے چننے والوں کی مرضی کے خلاف جائیں تو اس میں ان کی اپنی تباہی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے نوجوانوں کا اپنے جمہوری حقوق، افادی حکومت، مستحکم بنیادی ڈھانچے اور بٹی ہوئی سیاست میں کمی کے لئیے آواز اٹھانا اہم ہے جس سے بر صغیر میں تکثیریت کو بحال کیا جاسکے۔

انتخاب کا اصول گفت و شنید ہے نہ کہ مطلق العنان فیصلے۔ یہ نہایت ضرور ی ہے کہ ایسے نظریاتی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی ڈھانچوں کی تشکیل کی جائے جس میں آج کے نوجوان متحرک ہوں اور حصہ لیں۔ یہ لازمی ہے کہ سول سوسائٹی کے کارکن ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں اور ایک بٹے ہوئے سماجی تانے بانے کی ناکافی سیاست میں بہتری لائیں، انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف انصاف پر زور دیں اور انڈیا اور پاکستان میں پیداواری کے بنیادی ڈھانچے کی تعیر نو میں حصہ لیں تاکہ بنیادی سماجی خدمات اور ان تک رسائی بحال ہو سکے۔ ہم عوام کس طرح اپنے اندر یہ قابلیت پیدا کرسکتے ہیں کہ سماجی تبدیلی کے لئیے منظم اور متحرک ہوں جس کے لئیے شعور ابھرنے کی نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ اجتماعی سطح پربھی ضرورت ہے؟ ہمیں ان بڑے مقاصد کے لئیے عمدہ تعلیم کی ضرورت ہے۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیں انڈیا اور پاکستان کی سول سوسائٹی کے درمیاں خلیج کو پاٹنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کی تعلیم کی راہ استوار ہوسکے۔ سول سوسائٹی اور سیاسی ادارے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی تخلیق کے لئیے سوسائٹی میں تکثیریت اور انفرادی طور پر حصہ لینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ایک مضبوط جمہوریت کو مختلف خیالات اور صحت مند مخالفت سے مدد ملتی ہے جو کہ ہر جمہوریت کا اہم حصہ ہیں۔لیکن بنیادی اصولوں پر سب کا متفق ہونا لازمی ہے۔ جمہوری، سماجی اور تعلیمی ادارے ایک ایسے ملک میں کام نہیں کرسکتے جہاں کے عوام اس میں حصہ نہ بٹائیں۔ ایک ایسی سول سوسائٹی کی نشونما جو علاقائی اور مذہبی تقسیم کو پاٹے، ایک افادی اور جائز تعلیمی نظام کے لئیے نہایت ضروری ہے۔ ایک ریاست یا قوم کی شناخت نہ بجھنے والی نفرت یا دوسرے لوگوں کے دکھ درد کی بنیاد پر کھڑی نہیں ہوسکتی ہے۔ آج کی عالمی معیشت میں سمجھداری، وجہ کے تصور اور سیاسی اور اخلاقی جہتوں کو ابھارنے کی ضرورت ہے۔

برصغیر کی رنگا رنگ تہذیب کے پس منظر میں ایک ایسی سیاست کی تخلیق یا اس کا بڑھاوا جو ثقافتی تنگ نظری اور ایک ہی شناخت کو آگے بڑھانے پر زور دے ہم سب کے وجود کا اختتام ہوگی۔ ایسی تباہ کارانہ اور سطحی سوچ عدم برداشت، صوابدیدی انصاف، ظلم اور جہالت کو جنم دیتی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں کی پالیسیوں سے اختلاف سے ان رد عمل کی سیاستوں کو ہوا نہیں دینی چاہئیے۔ برصغیر کو طالبانی سوچ کی قطعاً ضرورت نہیں بلاشک وہ کسی بھی خدوخال جیسے کہ سول، سیاسی یا فوجی میں ہو۔ ایسے شدت پسند نظریات یا ان کی نرم شکل بھی علاقائی، قومی اور بین الاقوامی مشاہدین کو الجھن میں ڈالتی ہے اور انڈیا اور پاکستان کی سیاست کی منفی تشریح کرتی ہے۔

بہت ساری ناامیدیوں کے باوجود، ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت کا ارتقاء ایک طویل عرصے کا کام ہے جس سے لمحاتی نتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس پروسس کو آگے بڑھانے کے لئیے بر صغیر کے تکثیری علاقائی، مذہبی، ثقافتی اور لسانی اقدار کو برقرار کھنا بھی اہم ہے۔ سچ یہ ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تعمیری سیاست کی شروعات کرنے کی ہمت کی جائے۔ اب ہم مربوط ریاستی پالیسیوں کے ساتھ ایک مضبوط سوسائٹی کی تعمیر شروع کرسکتے ہیں۔ ایک بکھری ہوئی سوسائٹی کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتی چاہے وہ سیاسی ہو یا سماجی و معاشرتی۔ جیسے کہ ابراہام لنکن نے 1858 میں کہا تھا کہ ” اپنے ہی خلاف ایک تقسیم شدہ گھر کبھی کھڑا نہیں رہ سکتا۔”

نہ صرف میری اپنی ریاست جموں و کشمیر میں بلکہ دنیا کے بہت سے حصوں میں خواتین ایک ساتھ میں لے کر چلنے والی جمہوریت میں اور شہریوں کے تعاون سے دیگر شعبوں میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

مشترکہ سوچ اور دلچسپی کے میدان تلاش کرنا معاشرے کی نشونما کے لئیے ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سیاسی،سماجی و معاشرتی اور جمہوری مسائل کے حل تلاش کرنے کے لئیے ریاستی اور غیر ریاست کھلاڑیوں اور ریاست اور عوام کے درمیان باہمی تعاون کی ضرورت ہے ۔

شائد یہی وقت ہے کہ سنجیدگی سے ایک نئے علاقائی نظام کی تشکیل کی جائے جس میں برصغیر کے عوام کے درمیان معاشی، سیاسی اور ثقافتی دلچسپی ابھرے۔ شہری اداروں اور حکومت میں کام کرنے والی خواتین ایک پرامن تکثیری جمہوریت کی قیادت کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر پائیدار علاقائی امن کے لئیے مذاکرات کو سپورٹ کرسکتی ہیں ۔

(مترجم: ڈاکٹر لبنیٰ مرزا۔ ایم ڈی)

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan