عدل سے نہیں صاحب! عدلیہ سے ڈر لگتا ہے


زیادہ پرانی بات نہیں ہے، کہ پاکستان کی عدلیہ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم پر خط نہ لکھنے کی پاداش میں پچیس سیکنڈ کی سزا سنائی تھی؛ اور وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نا اہل قرار دے دیا تھا؛ یہ عین انصاف تھا۔ ہم تو یہ سنتے تھے کہ اس خط لکھنے کے بعد اتنی دولت پاکستان آئے گی، کہ بچے بچے کا قرض ادا  ہو جائے گا۔ اگلے وزیر اعظم نے عدلیہ کی ہدایت کے مطابق خط لکھا، اور بقول غالب ہم جانتے ہیں وہ کیا لکھیں گے جواب میں، والا معاملہ ہوا۔ خیر! عدلیہ نے اپنے حکم کی تعمیل کروا کے چھوڑی، جو کہ خوش آیند امر ہے؛ اس لیے کہ یہاں سب کو قانون کا پابند ہو کے رہنا ہے۔ پاکستان کوئی بنانا اسٹیٹ نہیں، جس کے جو جی میں آئے، وہ کرتا پھرے۔ یہاں‌ قانون کی حکم رانی ہے۔ (حکمرانی کو ”حکم رانی“ لکھنا ہی مناسب ہے، یوں توڑ کے لکھنے سے کوئی اور معنی لیے جائیں، تو ادارہ اور ہیچ مدان اس کے ذمہ دار نہیں)

یہ بھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے، کہ ہماری عدلیہ نے اصغر خان کیس کا فیصلہ سنایا تھا؛ چوں کہ ہم قانونی موشگافیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اس لیے بار بار ایک ہی سوال ذہن میں آتا ہے، پھر ہمارا کوئی ایسا دوست بھی نہیں جو اس ضمن میں ہمیں تسلی بخش جواب دے سکے، تا کہ دل کی بے کلی جاتی رہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ اصغر خان کیس میں معزز منصفین نے کہا تھا، ایسے اشارے ملے ہیں، کہ یونس حبیب سے رقم لے کر سیاست دانوں میں تقسیم کی گئی۔ اس وقت آئی ایس آئی سے رشوت لینے والوں سیاست دانوں میں ایک نام موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کا بھی تھا۔ عدلیہ نے متعلقہ اداروں کو کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔ پھر اس کیس کی کوئی خبر نہ آئی؛ نا ہی عدالت نے خط لکھنے والے معاملے کی طرح اگلے وزرائے اعظم سے پوچھ گچھ کی، کہ عدالتی فیصلے کی تعمیل کیوں نہ ہوئی۔

پاناما اسکینڈل کے سامنے آتے ہی ایک بار پھر شور و غل مچا، کہ وزیر اعظم کے بچوں کا نام اس اسکینڈل میں ہے، تو وزیر اعظم بھی قصور وار ہیں۔ پونے دو سال ہونے کو آئے، نیوز پیپر اور چینل کی سب سے بڑی اسٹوری یہی بنی ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کو سزا دی جائے تا کہ ملک سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کرپشن کا  خاتمہ ہو جائے۔ پاناما میں کتنے پاکستانی تاجروں، ججوں، سیاست دانوں کے نام آئے، نیوز چینل پر اس کا ذکر ہی نہیں ہوتا، بس ‘وزیر اعظم چور ہیں’ یہ واویلا ہے۔

اگر پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی، تو شاید نواز شریف کا نام بھی نہ لیا جاتا، بل کہ رحمان ملک، اور زرداری صاحبان کا احتساب ہو رہا ہوتا، کہ بے نظیر کا نام پاناما پیپر میں ہے، تو زرداری صاحب حساب دیں، کیوں‌ کہ وہ ان کے شوہر ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ ایسا کیوں! صاحب، یہی تو انصاف ہے کہ سب سے طاقت ور سے سوال کیا  جائے، ایک شخص جو برسراقتدار ہی نہیں اس کو تو کوئی بھی کٹہرے میں لے آئے گا۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع کیا جا رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ وزیرا عظم کے احتساب کے بعد ان لوگوں کا بھی احتساب ہوگا، جن کے نام پاناما پیپر میں ہیں، یا وزیر اعظم کے بعد ”راوی“ چین ہی چین لکھے گا، کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو گیا؟

اسی کو لے کر کے ایک سوال یہ بھی ہے، کہ عدلیہ نے اصغر خان کیس پر جو فیصلہ سنایا تھا، کیا وزیر اعظم نواز شریف کی کرپشن ثابت کرنے کے لیے وہی کافی نہ تھا؟ تو پھر جے آئی ٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ جان کی امان پاوں تو عرض کروں، کیا جے آئی ٹی بنا کے ٹیکس دینے والی قوم کا قیمتی وقت اور پیسا ضائع نہیں کیا گیا؟ جب کہ عدلیہ کا فیصلہ موجود ہے جس کے مطابق شواہد ہیں، کہ آئی ایس آئی نے رشوت دی، اور نوازشریف سمیت دیگر سیاست دانوں نے رشوت وصول کی۔ کیا رشوت لینا اور رشوت دینا کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا؟

عدالتی فیصلے کوئی کاغذ کا ٹکڑا تو ہوتے نہیں، کہ کسی فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے، اور کسی فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے۔ اصول ہے کہ قانون ہی ایک سا نہیں ہوتا، بلکہ فیصلے بھی سب کے لیے یکساں ہوتے ہیں؛ اور ہمیں کامل یقین ہے کہ ایسا ہی ہے، کیوں کہ یہ جنگل نہیں جہاں طاقت ور کم زور کو چیر پھاڑ دے۔

سوال تو اور بھی بہت سے ہیں؛ لیکن ہمیں لفظوں کی توڑ پھوڑ ہی آتی ہے، قانون کی الف بے سے واقف نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ جہاں ہمیں غیر جمہوری قوتوں سے ڈر لگتا ہے، وہیں معزز عدلیہ سے بھی خوف آتا ہے، اس لیے نہیں کہ یہ عدل نہیں کرتی، اس لیے کہ ہم قانونی نکتوں کو نہ سمجھنے کے باعث کہیں لاعلمی ہی میں معزز عدلیہ کی توہین نہ کر بیٹھیں۔

خدائے یکتا جانتا ہے، کہ ہم دل سے عدل اور عدلیہ کا کتنا احترام کرتے ہیں، اور ہمارا پختہ ایمان ہے کہ پاک فوج، پاک سرزمین کی محافظ ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran