لڑکی سانولی ہو تو رشتہ نہیں آتا


عفت نوید صاحبہ کی خوبصورت تحریر ” لڑکے کا کرائے کا مکان ہو تو استخارہ نہیں آتا” نے مجھ میں ایسا جوش و ولولہ پیدا کیا کہ میں سوچا کیوں نہ ان کی تحریر میں ایک ننھا منھا چاند سا اضافہ کردوں اور ہمارے معاشرے میں اولاد نرینہ کا تاج سر پر رکھے جینے والی بہت سی خواتین اور “ہونے والی بہوؤں کی ہونے والی ساسوں” کے لیے ایک تحریر لکھوں جو ان کے دماغ کا چراغ جلانے میں مدد دے سکے۔ بات دراصل یہ ہے کہ سورج چاند ستارہ ہو، چاندی جیسا جسم اور سونے جیسے بال اور ہونٹوں میں گلاب کی پنکھڑی تلاش کرنے والی خواتین یہ بھول جاتی ہیں کہ وہ کسی انسان کے گھر رشتہ لے کر جا رہی ہوتی ہیں، بازار نہیں، جہاں ہر چیز میچنگ کی مل جائے، لڑکی کوئی دکان پر رکھا ہوا سامان نہیں ہوتی جسے ناک موٹی، رنگ کالا اور اسٹیٹس کی بنیاد پر رد کر دیا جاتا ہے۔ ایک المیہ ہو تو انسان دل کا درد بیان کرے، لڑکی کو تماشا بنایا ہوا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاتون ڈگڈ گی بجائیں گی اور چاند جیسی دلہن حاضر ہوجائےگی ۔

جو رشتہ لا رہی ہوتی ہیں وہ بھی خواتین ہی ہوتی ہیں اور جو ٹھکرا رہی ہوتی ہیں وہ بھی خواتین ہی ہوتی ہیں، یقینا کرائے کے مکان کو بنیاد بنا کر استخارہ نہ آنے کا بہانہ بھی عام ہے مگر استخارہ تو دو دن بعد میں آئے گا، فون پر ہی معلومات حاصل کرکے خاص کر لڑکی کی رنگت کا سوال تو ضرور کیا جاتا ہے جیسے امتحان میں کمپلسری سوالنامہ حل کرنے کو دیا جاتا ہے اور آپ پر اس کا حل کرنا لازم ہوتا ہے، ضرور کریں گی اور فوراً انکار نامہ تھما دیا جاتا ہے کہ رنگ گورا چاہیے اور اب تو انٹرنیشنل انکل آنٹیاں بھی میدان میں آگئے خیر سے۔

لڑکا ہو یا لڑکی، دونوں ہی اپنے گھر اور آنے والی گھر والی۔ گھر والے کی ڈور ماں باپ یا ان انکل آنٹیوں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں جیسے کوئے کمپنی سامان تیار کروانے کے لئے دوسری کمپنی کو آرڈر دیتی ہے کہ اتنے وقت میں اتنا اور اس مالیت کا مال چاہیئے، کرائے کا مکان لڑکی لڑکے دونوں کے لئے ہی مسئلہ بنتا ہے۔ اگر مسئلہ بنانے والوں کو موقع فراہم کیا جائے، لڑکے معاشی بوجھ کے تلے ہی دبے جا رہے ہوتے ہیں، کماؤ، بس کماؤ، شادی کرنی ہے، اور بیٹیوں کو جم اور سلونز کی نذر کر دیا جاتا ہے، وزن کم کرو اور اب تو وائیٹننگ ٹریٹمنٹ بھی ہے اللہ کے کرم سے، صرف منہ گورا کرنے والی کریموں سے لڑکیوں کو نجات ملی ہے اور اب وہ سر تا پیر “گوری گوری” ہو سکتی ہیں لیکن یہ نہیں کہی سکتیں” امی یہ کالا کالا کیا ہے” یعنی کیا بیٹی کو وائیٹننگ انجیکشن لگوانے والے ماں باپ اس بات کی یقین دہانی کرواسکتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو بھی گورا اور اچھا لڑکا ملے گا، ماں باپ بیٹی کی سانولی رنگت سے پریشان ہو کر ڈاکڑوں سے رجوع کر رہے ہوتے ہیں تاکہ لڑکی کا رشتہ اچھا آ جائے اور مسلسل آنے والی رنگ کی شکایت سے ماں باپ اور بیٹی کو ہونے والی اذیت سے نجات مل سکے۔

گوری رنگت کے حصول نے انسانی جذبات، احساسات اور اخلاقیات کا خون کردیا ہو جیسے، نہ جانے کتنی لڑکیاں روز اس کرب سے گزرتی ہیں اور انکار ہو جاتا ہے، لڑکیوں کا تو رشتہ آنے سے پہلے ہی انکار ہوجاتا ہے، استخارہ کیا آئے گا۔

لڑکے دائیں جانب ہیں تو لڑکیاں بائیں جانب۔ دونوں دوڑ میں ہیں مگر ایک دوسرے کو مل ہی نہیں پا رہے؟ کیا وجوہات ہیں کہ بیٹیاں بوڑھی ہورہی ہیں اور بیٹے کما کما کر کرائے کے مکان سے جان نہیں چھڑا پا رہے، ساری بات ہے توقعات کی، انسان کو انسان سمجھئے، مشین نہیں۔ اچھی تعلیم، اچھا خاندان اور اچھا کردار تلاش کریں، اور آخر میں شکل صورت، دوسرے کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھئے اور دوسرے کا خاندان تلاش کرنے سے پہلے اپنا خاندان دیکھئے اور ہم پلہ لوگوں میں رشتہ تلاش کریں انشاءاللہ استخارہ ضرور آ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).