حاجی صاحب! اللہ آپ کا حج قبول فرمائے


حاجی صاحب! آپ خوش نصیب ہوکہ خدا کے گھر کی زیارت پہ جارہے ہو۔ بےشک، آپ کا یہ چند لاکھ روپے کا خرچہ، سیاحت و من موجی کے لئے نہیں بلکہ خدا کی مغفرت اور نبیؐ کی شفاعت کے حصول کی خاطر ہے۔ خدا آپ کا حج قبول فرمائے۔

حاجی صاحب، دل کی بات اسی سے کی جاتی ہے جس پہ کوئی امید ہو اورجس میں کوئی صلاحیت ہو۔ بات تو بہت چھوٹی سی ہے مگر مجھے چار سال اپنے آپ سے لڑتے ہوگئے کہ اسے شیئر کروں یا نہیں؟ عجب، ریا، حب جاہ وغیرہ جیسے کئی سانپ ڈسنے کوپھرتے رہتے ہیں مگر آج، ہر چہ بادا باد، وہ بوجھ آپ سے بانٹنے جارہاہوں۔

حاجی صاحب! خاکسار نے اپنے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں فاطمیہ گرلز کالج کے نام سے، لڑکیوں کے لئے ایک اقامتی عصری ادارہ قائم کررکھا ہے۔ ہاسٹل کی صفائی وخدمت کے لئے، قریبی بستی سے چند عورتیں ملازم رکھی ہیں، عرفِ عام میں جنہیں ”کام والی ماسی“ کہا جاتا ہے۔ چار سال پہلے کے اکتوبرکی بات ہے۔ پاکستان گیا تو ایک ماسی کی شکایت ملی۔ بتایا گیا کہ اوپر والی منزل کی صفائی ٹھیک نہیں کرتی کیونکہ دل کی مریضہ ہے اور سیڑھیاں چڑھنا اس کے لئے دشوار ہے۔ ہم اس کو دوہزار روپے ماہانانہ تنخواہ دیتے تھے۔ اس کے ہارٹ پرابلم کا سن کر میں نے سوچا کہیں بعد میں مصیبت نہ بنے لہذا ہدایت کی کہ اس کو دس ہزار روپیہ نقد دے کر فوراً فارغ کرلیا جائے۔ میں ابھی دفتر میں بیٹھا تھا کہ وہ ماسی مجھ سے ملنے آئی۔ نام بھول گیا ہوں، سمجھ لیں زرینہ ماسی نام تھا۔ لفافہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کے چھ بچے ہیں، خاوند نشہ کا عادی و بےروزگار ہے۔ کہنے لگی“بھائی! یہ پیسے تو شوہرمجھ سے چھین لے گا۔ دوسری کوئی مزدوری مجھ سےہوتی نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بیمار ہوں مگر آپ یہ پیسے واپس رکھ لیں اور مجھے نوکری پہ رہنے دیں تاکہ میرا چولہا جلتا رہے۔ کوشش کروں گی کہ کام اچھا کرسکوں“۔

حاجی صاحب! میں نےحاتم طائی کی قبر پہ لات مارتے ہوئے، اس کی دوہزار کی نوکری برقرار رکھی۔ چھ ماہ بعد، مارچ میں واپس گیا تومعلوم ہوا کہ ہفتہ بھر سے ماسی زرینہ چھٹی پر ہے کیونکہ اس کے خاوند نے اسے پیٹا ہے تو بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ کالج کے قریب ہی اس کی کٹیا تھی۔ اس کو میرے آنے کی خبر ہوگئی تھی۔ سرشام، اس کی سات سالہ بیٹی نے آکر میری بیوی کو پیغام دیا کہ حاجی صاحب سے کہیں، خدا کے لئے کسی اور کو نوکری پر نہ رکھ لے۔ اماں دو دن تک کام پہ آجائے گی۔

بس حاجی صاحب! اتنا ہی عرض کرنا تھا کہ آپ جس کا گھر دیکھنے بہت دور جارہے ہیں، وہ خود، ماسی زرینہ کے دل میں رہتا ہے۔ آمنہ کے لال نے خبر دی ہے کہ ٹوٹے ہوئے دل، عرشِ عظیم کی کھڑکیاں ہیں۔ (اس کھڑکی سے جھانکو تو وہ سامنے بیٹھا نظر آتا ہے)۔

محترم حاجی صاحب، دربارِ خدا کے بعد آپ دیارِ مصطفی کو جائیں گے تو ہم گنہگاروں کا سلام بھی عرض کردیجئے گا۔ ویسے خاکسار کی رہائش جدہ میں ہے۔ مہینہ میں ایک آدھ بار وہاں حاضری کا موقع مل جایا کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں مکہ میں جلال ہے تو مدینہ میں جمال ہے۔ مگر خدا جانتا ہے کہ مدینہ حاضری پر زیادہ ڈرتا ہوں۔ جس دربار میں ”وہ“ تینوں ہی اکٹھے نشست رکھتے ہیں، وہاں جب بھی ان کے روپروجاتا ہوں تو“تیسرے“ سے ڈر لگتا ہے۔ اس لئے کہ پہلے دونوں بڑے حلیم اور لحاظ والے تھے مگر وہ تیسرا بڑا جلالی تھا، بات بات پہ کوڑا اٹھا لیا کرتا تھا۔ 22 لاکھ مربع میل کا حکمران ہوتے ہوئے، مسجد نبوی کے فرش پہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا۔ ابن عوفؓ نے تسلی کے لئے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ “بس کر دیجئے امیرالمومنین“۔ اشک بار آنکھوں سے فرمایا کہ اگر فرات کے کنارے بھوک سے مرنے والا کتا بھی روز محشر استغاثہ کردے، تو ابن خطابؓ کا کیا بنے گا؟

حاجی صاحب، دربار نبی پر سلام پڑھنے جاتا ہوں۔ اپنے لباس، گھڑی وغیرہ کو دیکھ کر شرما تا ہوں اور ڈرتا ہوں کہ عمر فاروق، روضے سے نکل کر کوڑے برسانا نہ شروع کردے۔

خدا آپ کا حج قبول کرے۔ بس یہ عرض بھی ہے کہ مدینہ سے واپسی پر عجوہ کھجورکی بوری مت لانا۔ کھجور لانا حج کی شرائط میں نہیں ہے اور پاکستان میں خوب ملتی ہے۔ یہ گذارش اس لئے کی ہے کہ عجوہ کھجور، 80 ریال فی کلو پڑتی ہے جو ماسی زرینہ کے پورے مہینے کی دال روٹی کا بجٹ ہے۔

قارئین کرام!

ماسی زرینہ کو میں نے ایک بار ہی دیکھا ہے۔ ہمارے علاقے میں پردے کا سخت رواج ہے۔ تن کے کپڑے نہ ہوں تو بھی سفید ٹوپی والا برقعہ لینا لازم ہے۔ ماسی نے برقعہ کا نقاب الٹ رکھا تھا۔ ایک ہاتھ سے اس کا پلو ناک پہ دھرا ہوا۔ ان آنکھوں میں صدیوں کی بھوک منجمد تھی۔ چہرے کی جھریوں میں عسرت وحسرت بہہ رہی تھی مگر آواز میں خودی قائم تھی۔ اس کے بیمار اور کمزور جسم پہ لپٹا، پھٹا پرانا اور میلا کچیلا برقعہ دیکھ کر، صادق و مصدوق نبیؐ کی حدیث یاد آئی۔ فرمایا کچھ لوگوں کودنیا میں مسلسل تکالیف میں رکھا جاتا ہے۔ ایسوں کو خدا حشر کے دن، اپنے پاس بلائے گا۔ جب یہ خدا سے ”ون ٹو ون“ ہوجائیں گے تو خدا ان کے گرد اپنی رحمت کا پردہ برقعہ کی طرح لپیٹ کر، خاص ان کو مخاطب کرےگا کہ“ اے میرے بندے، میں نے دنیا میں تجھے محروم رکھا تھا۔ اس لئے نہیں کہ تجھ سے نفرت تھی بلکہ آج کےدن کی عزت عطا کرنے واسطے ایسا کیا تھا۔ اب لوگوں کے مجمع میں چلے جاؤ۔ جس کسی نے دنیا میں تمہیں کھانا کھلایا ہو، کپڑا پہنایا ہو، اس کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے ساتھ جنت میں لے جاؤ۔ آج میں نے تمہیں شفاعت کا حق عطا کردیا ہے“۔

میری بے شرمی دیکھئے کہ ماسی زرینہ کی صرف ایک بار اپنے بچوں کے جیب خرچ برابر مالی مدد کی تھی، پھر اس کا نام تک بھول گیا مگر پھر بھی یہ اعتماد رکھتا ہوں کہ ماسی، مجھے اس سخت دن ضرور پہچان لے گی۔

اس لئے کہ غریب کا دل بڑا ہوتا ہے اور وہ اس لئے کہ اس دل میں خدا رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).