سپریم کورٹ میں بطخ پر بحث ہو گی


امریکہ بہادر میں صدیوں سے دو جماعتی نظام ہے۔ صدر یا تو ریپبلکن ہو گا یا پھر ڈیموکریٹ۔ ایک کا انتخابی نشان گدھا ہے اور ایک کا ہاتھی۔ رائے دہندہ کو ہاتھی یا گھوڑے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ چھوٹی موٹی کچھ اور پارٹیاں اور آزاد امیدوار بھی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں لیکن صدارتی انتخاب تو دور کی بات، ایوان نمائندگان کی بھی کوئی نشست کم ہی ان کے حصے میں آتی ہے۔ تاریخی تسلسل کا نتیجہ یہ نکلا کہ امیدوار خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، اگر وہ ہاتھی ہے یا گدھا ہے تو اس کا انتخاب یقینی ہے۔ کئی دفعہ انتخاب میں دونوں امیدوار اس قابل نظر نہیں آتے کہ ان پر اعتماد کیا جاسکے پر چونکہ آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے اس لیے کسی ایک پر ٹھپا لگا دیا جاتا ہے۔ بعد میں ہاتھی زیادہ نکلیں تو ریپبلیکن امیدوار جشن مناتے ہے، گدھے زیادہ برآمد ہو جائیں تو ڈیموکریٹس کی چاندی ہو جاتی ہے۔ انگریزی کے ایک مشہور محاورے کے بقول آپ دو برائیوں میں سے اپنے تئیں چھوٹی برائی کو چن لیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے موازنے کے لیے بھی یہ محاورہ بار بار استعمال ہوا۔

امریکہ کے ایک مشہور کالمسٹ میکس لرنر نے اس سے ملتی جلتی صورتحال پر 1949 میں ایک انتہائی لازوال تبصرہ کیا۔ انہوں نے لکھا کہ جب آپ دو برائیوں میں سے کمتر برائی کو چن رہے ہوتے ہیں تو یہ یاد رکھیں کہ آپ ابھی بھی برائی ہی کو چن رہے ہیں۔

میرے بھائیوں جیسے دوست ظفر اللہ خان نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا

”کیا میں نواز شریف کو بدعنوانی اور ٹیکس چوری میں ملوث سمجھتا ہوں؟ جی بالکل سمجھتا ہوں۔ کیا مجھے ادنی درجے میں بھی یقین ہے کہ نواز شریف خاندان نے اپنا کاروبار قانونی اور شفاف طریقے سے کیا ہے؟ نہیں جناب میں ادنی درجے میں یہ شک بھی نہیں کرتا کہ انہوں نے قانونی اور شفاف جیسی چیزوں کا تکلف بھی برتا ہو گا۔ کیا شریف خاندان نے ٹیکس چوری کر کے یہ پیسے باہر نہیں بجھوائے؟ جی بالکل ٹیکس چوری کیا ہے کم ازکم مجھے کوئی شک نہیں ہے۔ کیا شریف خاندان کا منی ٹریل درست تھا یا فیک؟ جناب والا فیک ہی لگتا ہے۔ کہانی پر کہانی بنائی پر گرہ ہاتھ نہ آئی۔ تھا۔ سادہ الفاظ میں ماموں بنانے کی کہانی تھی۔ جدہ کی ٹوپی قطری شہزادے کے سر۔ شہزادے کی ٹوپی قوم کے سر“

اب یہاں حجت تمام ہونی تھی پر ہوئی نہیں کہ ظفراللہ خان کی نظر افق کے پار بھی دیکھتی ہے اور ان کا قلم آنے والے زمانوں کی داستان بھی لکھتا ہے اور میں ان کے لفظ لفظ کی حرمت کی قسم کھا سکتا ہوں۔ ظفر نے کچھ آگے چل کر لکھا

”طاقت کے کھیل ہیں۔ صفیں بچھتی سمٹتی رہتی ہیں۔ صفوں کی ترتیب میں ہم غریب مجبوراَ ان چوروں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کم ازکم ووٹ کی دھمکی دے سکتے ہیں۔ کم ازکم اپنے ایم این اے کے گریبان میں جھانک سکتے ہیں۔ ایک قلم دستیاب ہے اس کا حرف انکار ان پر تو آزما سکتے ہیں۔ ایک موہوم امید ہوتی ہے کہ اگلی مرتبہ جب حق رائے دہی کا موقع آئے گا تو کسی کم تر چور کا انتخاب کریں گے۔ کیا کریں اب دستیاب یہی ہیں۔ آپ کے پاس کوئی متبادل نظام دستیاب ہے تو آگاہ کیجیے۔ آپ شوکت عزیز یا مشرف کے گریبان میں جھانک سکتے ہیں تو آپ کو وہ صف مبارک“

آپ ظفراللہ خان کے استدلال پر تنقید کر سکتے ہیں۔ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن تنقید اور اختلاف سے پرے ظفر جیسے صاحب کردار کو درپیش المیے کو تو دیکھیے۔ یہ کیسا کربناک وقت ہے کہ اچھائی اور برائی، غلط اور صحیح، نیکی اور بدی کے درمیان کھنچی ہر لکیر مٹ گئی ہے۔ کل شاید ادھر سفید تھا، ادھر سیاہ تھا اب سب سرمئی ہے۔ داغ داغ اجالے والی سحر بھی کب کی ڈھل چکی۔ تپتی دوپہروں میں چلتے چلتے پاوں کی جگہ اب صرف آبلے ہیں۔ شام کا جھٹپٹا ہے، آگے کالی رات کھڑی ہے۔ زوال کے اس وقت بڑی مشکل سے آنکھوں پر زور ڈال کر گہرے سرمئی دھاگے کو ہلکے سرمئی دھاگے سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں پر کیا پتہ کہ جو ہلکا لگے وہ گہرا ہو اور جو گہرا لگے وہ ہلکا ہو۔ بے شک اس وقت کا انسان خسارے ہی میں ہے۔ ایک برائی کو دوسری پر ترجیح دینے والے آخری میزانیے میں برائی کو ہی اپنے پلڑے میں پائیں گے۔

جیمز وٹکومب رائلی ایک امریکی شاعر تھے ان کی ایک نظم کے ایک بند سے اخذ کردہ ایک مزاحیہ منطقی استدلال بہت معروف ہے اسے بطخی امتحان کہہ لیجیے۔ اس کے مطابق اگر ایک شے بطخ کی طرح لگتی ہے، بطخ کی طرح تیرتی ہے، اسی کی طرح قیں قیں کرتی ہے تو غالب امکان ہے کہ یہ شے بطخ ہی ہو گی۔ پاکستان میں آجکل سب اسی اصول پر اپنی اپنی بطخ لیے پھر رہے ہیں۔

ایک طرف وہ گروہ ہے جو سازش کی بو سونگھ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر یہ طرز وہی ہے جو ماضی میں رہی۔ اگر ٹویٹ ویسے ہی ہیں جیسے نہیں ہونے چاہیے تھے۔ اگر خارجہ پالیسی کے اشاریے ایک خاص سمت میں چل نکلے ہیں۔ اگر جے آئی ٹی میں واٹس ایپ ہو گیا ہے۔ اگر جنرل صاحب کو سر کہا گیا ہے۔ اگر تصویر لیک ہو گئی ہے۔ اگر ایران کا ڈرون مار گرایا گیا ہے۔ اگر ہندوستان سے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ اگر آئی ایس پی آر کھل کر تردید نہیں کر رہی۔ اگر چوہدری نثار منظر سے غائب ہو رہے ہیں اور اگر خانصاحب گرجنا شروع ہو گئے ہیں تو پھر یہ بطخ، معاف کیجیے گا سازش ہی ہے۔

پھر ایک گروہ وہ ہے جسے تفتیش کرنی ہے، فیصلے سنانے ہیں، جرح کرنی ہے۔ ان کے نزدیک ماریو پزو کے بقول اگر ملزم پاک نہ لگتا ہو، ہر عمل بادی النظر میں پیش نظر ہو، فونٹ پر ایک سے زیادہ آراء ہوں، اخباری تراشوں پر اعتبار کرنا ممکن ہو، بیانات کا تضاد خلیج عدن جیسا ہو، ابہام کی دھند دسمبر کے لاہور کی یاد دلاتی ہو، سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوں، وزیراعظم مارکیٹنگ مینیجر بھی ہو، اسلام آباد سے قطر، قطر سے دوبئی، دوبئی سے جدہ اور جدہ سے لندن کا کھرا گم پایا جائے تو بطخ کو بطخ اور چور کو چور ہی تو کہیں گے۔

کس کی بطخ آخری تجزیے میں بطخ نکلے گی اور کس کی مرغابی، اس پر رائے محفوظ رکھتے ہیں پر جن پر نشانہ بندھا ہے انہیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ شکاری اگر آج بھی میدان میں ہے تو اسے ہمیشہ کھلا میدان کون دیتا ہے۔ کیا وزیراعظم کا منصب ایک خاندانی نام کا محتاج رکھنا اتنا ہی ضروری ہے کہ کچھ رہنماؤں کو شوہر سے زیادہ باپ کی نسبت اور کچھ کو باپ سے زیادہ نانا کی نسبت قائم رکھنا زندگی موت کے سوال سے زیادہ اہم ہو۔ نرسنگ ہوم کے مینیجر کو سب سے بڑے قومی بینک کا سربراہ لگانا یا ایک طبیب کو پیٹرولیم کی وزارت دے دینا کون سے صحیفے کے احکامات کی تعمیل کے واسطے فرض ہے۔ بچوں کے اور بچوں کے بچوں کے لیے عہدے کون سے منشور میں لکھے گئے ہیں۔ دوبئی کے ولا، جدہ کے محل، اور لندن کے فلیٹ ٹیڑھے میڑھے گنجلک مبہم راستوں سے ہی کیوں خریدنا ضروری ہے۔ ملک کے رہنماؤں کا ہی ٹیکس ریکارڈ کیوں گم جاتا ہے۔ مخیر اور گمنام دوست صرف آپ ہی کے نصیب میں کیوں لکھ دیے گئے ہیں۔ ٹی وی انٹرویو ہو یا پارلیمان سے خطاب، وہ نسیان کی کیفیت میں کیوں دیے جاتے ہیں۔ اپنے ہی لفظ، اپنے ہی رشتہ دار، اپنی ہی تحریریں کیوں بھول جاتی ہیں۔ اداروں کے سربراہان سے دستاویزات کا چال چلن سیدھا کرائے بغیر ادارے چلانا کیوں ممکن نہیں ہے۔ ریڈ پاسپورٹ کے ساتھ اقامہ ڈھونڈنا کیوں لازم ہے۔ جرم ضعیفی کی سزا معلوم ہو تو پھر اپنے ہی گھر کو دیمک لگا کر آندھی کے مقابلے کی کوشش میں کون سی عقلمندی ہے۔

ایک دفعہ پھر مطلع صاف ہونے کا انتظار کیجیے۔ محشر بدایونی سے معزرت کے ساتھ ۔ جس بطخ میں جان ہو گی وہ بطخ رہ جائے گی۔ جو نہ رہے وہ سوچ لے کہ اگلے امتحان کے لیے تیاری کیونکر کرنی ہے۔

 

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad