مصطفےٰ کمال ۔۔ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ واپسی؟


\"razi آپ بے شک ہمیں ’را ‘ کا ایجنٹ کہہ لیجئے لیکن ہم یہ بات کبھی تسلیم نہیں کریں گے کہ مصطفےٰ کمال پورے فوجی اعزاز کے ساتھ وطن واپس آئے ہیں ۔ جس طرح ممتاز قادری نے اپنی مرضی اور اپنی خواہش پر موت کا راستہ اختیار کیا اور اب اس کے حامی بلا وجہ اس کی عظیم شہادت کا رتبہ زائل کرنے کے لئے اس کی پھانسی پراحتجاج کر رہے ہیں بالکل اسی طرح مصطفےٰ کمال بھی اپنی مرضی سے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے الطاف بھائی سے الگ ہوئے اور تین سال کی سوچ بچار کے بعد انہوںنے گزشتہ روز کراچی میں دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی اور اب کم فہم لوگ اس میں سے خاکی رنگ تلاش کر رہے ہیں۔ آپ جو مرضی سوچیںلیکن حقیقت تو یہی ہے کہ حقیقت اور حقیقی اب کچھ بھی نہیں ۔ سب کچھ غیر حقیقی اور غیر مرئی انداز میں ہو رہا ہے ۔ ضمیر کا کیا ہے یہ تو بیس برس بعد بھی جاگ سکتا ہے ۔ ہم جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں کہ مسصطفےٰ کمال بیس سال تک الطاف بھائی کے پیاروں میں شامل رہے ۔ اس دوران عظیم طارق سمیت ایم کیو ایم کے کئی رہنماﺅں اور کارکنوں کو قتل بھی کیا گیا ۔ لیکن اس وقت حالات کا تقاضا یہی تھا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں خاموشی اختیار کی جائے ۔ مصطفےٰ کمال کو چونکہ ملکی مفاد عزیز تھا اس لئے وہ چپ رہے ۔ کراچی کی سڑکوں پر جب بھی خون کی ہولی کھیلی جاتی تھی مصطفےٰ کمال خون کے گھونٹ بھر کے خاموش ہو جاتے تھے ۔ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ کراچی کی ترقی پر مرکوز رکھی کراچی کی لہو رنگ سڑکیں دیکھ کر کبھی ان کا ضمیر جاگتا بھی تھا تو وہ شہر قائد کے میئر کی حیثیت فوری طور پر ان سڑکوں کو دھلوا دیتے تھے اور سوچتے تھے کہ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد ۔ لیکن دوستو ضبط کی بھی تو ایک حد ہوتی ہے ۔ الطاف حسین شہر میں بھتہ وصول کرتے رہے مصطفےٰ کمال خاموش رہے ۔ الطاف بھائی نشے میں دھت ہو کر کارکنوں اور پارٹی لیڈروں کو بے عزت کرتے رہے مصطفےٰ کمال ہر گز نہ بولے ۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی جانب سے فنڈز آئے لیکن کشتہ ستم کی غیرت دھنیا پی کر سوئی رہی ۔ پھر ایک روزالطاف بھائی نے حسب معمول نشے میں دھت ہو کر ٹیلی فونک خطاب کیا اور اس میں پاک فوج کے جرنیلوں کو بھی برا بھلا کہہ دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کراچی کے فرزند نے ایک خواب دیکھا ۔خواب میں ایک مردِ کامل نے مصطفےٰ کمال کے ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم تھما دیا اور کہا اس ملک کو رکھنا مرے بچے سنبھال کے ۔ یہی وہ لمحہ تھا جس نے مصطفےٰ کمال کی دنیا ہی بدل ڈالی ۔ لوگ جو بھی کہیں لیکن ہم تو اسی بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مصطفےٰ کمال نے ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ضمیر کی آواز پر کہا ہے ۔ آپ نے ان کے ہاتھ میں جو پاکستانی پرچم دیکھا وہی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ اپنے ضمیر کی آواز پر کیا ہے ۔ یہ سبز ہلالی پرچم ہی تو ہمارے ضمیر کی آواز ہے اور یہی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہوا کا رخ کس جانب ہے ۔ یہ پرچم ہمیں عمران خان کے سٹیج پر بھی نظر آتا تھا اور یہی پرچم پورے فوجی اعزاز کے ساتھ شہدا کی میتوں پر بھی ڈالا جاتا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments