ریاست انکل کے تین بچے عظمیٰ، عالیہ اور وقار


پڑوس میں ایک نئی فیملی شفٹ ہوئی جن کے تین بچے تھے، اہل خانہ کے سربراہ کا نام ریاست تھا۔ ریاست انکل نے ابتدائی ایام میں اپنی شخصیت کے سحر میں لوگوں کو ایسا جکڑا کہ آج تک سب ان کی بات پر یقین کرتے ہیں۔

ماکان میں شفٹ ہوئے ابھی کچھ ماہ گزرے تھے کہ ریاست انکل نے محلے کے بچوں پر روک ٹوک شروع کردی، ایک وقت ایسا آیا کہ جب والدین بچوں کو ضروری چیز لینے بھیجتے تو ریاست انکل مارتے ہوئے گھر لے آتے اور شکایت کرتے کہ آپ کا بچہ باہر گھوم رہا تھا۔ محلے کی کوئی لڑکی دروازے پر کھڑی ہوتی یا اسکول کالج سے واپسی پر ہنستی ہوئی آتی تو ریاست انکل فوری طور پر گھر والوں کو آگاہ کرتے اور اپنے شکوک و شبہات کو یقین کے طور پر بیان کرتے تھے۔

ریاست انکل کا بے لوث محبت اور خصوصی نظر رکھنے کے رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے محلے والے اپنے بچوں کی طرف سے مطمئن ہوگئے مگر اپنے ہی بچوں سے پڑوسی انکل کی شکایتیں سن سن کر ذہنی کوفت کا شکار بھی ہوئے۔

اکثر بچے اپنے والدین کو بتاتے کہ ریاست انکل کا بیٹا وقار خود تو گندے لڑکوں کے ساتھ بیٹھتا ہے اور غلط حرکتیں بھی کرتا ہے بلکہ کچھ بچوں نے تو اسے رنگے ہاتھوں پکڑوایا بھی مگر یہاں صورتحال برعکس تھی کہ جب کو ریاست انکل کے پاس وقار کو اپنا بچہ سمجھ کر شکایت لے کر جاتا تو وہ اسے کچھ نہیں کہتے تھے۔

ایسا ہی کچھ حال بیٹیوں کے معاملے میں بھی تھا، محلے کی دوسری لڑکیاں عظمیٰ اور عالیہ کی شکایات اپنے والدین سے کرتیں اور ان کے بارے میں بتاتیں جب والدین ریاست انکل کے پاس جاتے تو اس پر بھی ان کا یہی ردعمل ہوتا اور وہ مسکراتے۔

ایک بار جب محلے کی اہم شخصیت جمہور انکل کے بیٹے کو ریاست انکل مارتے ہوئے لائے تو وہ شدید غصہ ہوگئے تاہم بچے سے سارے معمے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو رنگے ہاتھوں پکڑوایا اور اس کی برائی بتائی مگر انہوں نے اس کو مارنے کے بجائے مجھے ہی سزا دے ڈالی۔

عالیہ اور عظمیٰ کی سہلیاں بھی اپنے والدین سے اکثر کہتی تھیں کہ جب ہم ریاست انکل سے ان کی بیٹیوں کی شکایت کرتے ہیں تو وہ الٹا ہمیں ہی ڈانٹنے لگتے ہیں۔

جمہور انکل نے ایک روز ریاست انکل کو روک کر پوچھا کہ میاں تمھارے بچے بھی تو خراب اور معاشرتی برائیوں میں ملوث ہیں ان کا احتساب یا سختی کیوں نہیں کرتے؟ سوال سنتے ہی ریاست انکل مسکرائے اور کہاکہ ’’وہ میرے بچے ہیں انہیں مکمل آزادی ہے‘‘ ہاں مگر جمہور صاحب اگر آپ میں ہمت ہے تو پوچھ لیجیے۔

یہ الفاظ ادا کرتے ہی ریاست انکل چلے گئے اور جمہور انکل کے ارد گرد جمع ہونے والے سب ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے رہے۔ اس دن کے بعد سے محلے میں ’’عظمیٰ، عالیہ اور وقار‘‘ کچھ بھی کریں انہیں کوئی کچھ کہنے کی جرات نہیں رکھتا البتہ ریاست انکل کا رویہ ابھی بھی وہی ہے۔

نوٹ: اس تحریر کا کرپشن یا بجٹ کا حساب دینے سے کوئی تعلق نہیں البتہ یہ ڈرامائی انداز میں ضرور تحریر کیا گیا ہے۔

محمد عمیر دبیر شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور اے آر وائی (نجی ادارے) کی ویب پر سب ایڈیٹر کے طور پر امور سرانجام دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).