سر، عوام کی طاقت آئین کی بالادستی میں ہے


مجھے اپنے ہم عصر دوستوں پر بہت رشک آتا ہے، ان کے تخیل کی پرواز پر نظر کرتا ہوں تو سر دھنتا ہوں۔ بیان کی روانی پر توجہ کرتا ہوں تو بھونچکا رہ جاتا ہوں۔ خاص طور پر اعلیٰ عسکری مناصب پر فائز صاحبان پروقار کی خوبیاں بیان کرنے میں ہمارے منتخب ہائے روزگار مہربانوں نے ایسے ایسے مضامین نکالے ہیں کہ جرات اور ناسخ کو شرماتے ہیں۔ جن دنوں جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف (حال مقیم سعودی عرب) فوج کے کمان دار تھے تو ایک صحافی نے اپنے کالم میں جسڑ اور گجرات کی ہمسائیگی کو بنیاد ٹھہرا کر تعلق خاطر کی صورت نکالی تھے۔ جن دنوں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے لب لعلیں سے سگریٹ الگ نہ ہونے کے چرچے تھے، ہمارے ایک طوطی خوش بیان نے مردان کے گڑ والی چائے کو ابوالکلام آزاد کے فنجان سے لطیف تر ثابت کر دیا تھا۔ جن روزوں درویش ہوئے ہم ، پاس ہمارے دولت تھی….
سیانے کہتے ہیں کہ دوسروں کی خوبی تسلیم کرنے سے ظرف بڑھتا ہے اور اپنے گناہ دھل جاتے ہیں مگر صاحب، اپنی کم مائیگی پہ دل دکھنا کچھ ایسا غیر فطری تو نہیں۔ دیا ہے دل اگر اس کو، بشر ہے کیا کہیے…. اب دیکھیے ہماری فوج کے سربراہ اور چیف آف جنرل سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ کے شانوں پر چار ستارے رونق دیتے ہیں۔ جنرل قمر باجوہ کا آبائی تعلق گکھڑ منڈی سے ہے اور گوجرانوالہ کے اس قلم گھسیٹ صحافی کے لیے شاندار موقع تھا کہ دو پہیوں کی سائیکل پر بیٹھ کر راہوالی کے راستے گکھڑ جا نکلتا۔ نہ ہوا کہ ہم بدلتے یہ لباس سوگواراں….
پرویز مشرف سریرآرائے سلطنت تھے تو ان کا جلوس شاہی غیر آئینی تھا۔ کیانی صاحب سے شکوہ رہا کہ نہ تمباکو نوشی ترک کرتے ہیں اور نہ شمالی وزیرستان کا رخ کرتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے چاہنے والوں کا ایسا جم غفیر تھا کہ جب ہجوم عاشقاں دیکھیں تو شرمانے لگیں۔ تین برس پر محیط تحریک تشکر اسی دبدھا میں گزر گئی کہ عامر لیاقت حسین اور جنرل راحیل شریف کے رخ ہائے روشن کے سامنے شمع رکھ کے دریافت کیا جائے کہ ادھر جاتا ہے یا دیکھیں ادھر پروانہ آتا ہے۔ یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ تھی کسی درماندہ راہرو کی صدائے دردناک، جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں۔ مختصر یہ کہ پانیوں سے بھرے بادل گھر گھر کر آئے اور بنجر قدیم ناممکن زمینیں سیراب ہوتی رہیں۔ ہمارے دھان سوکھے ہی رہے۔ آج بھی کچھ ایسا ہی مشکل مرحلہ درپیش ہے۔
گذشتہ برس نومبر کے آخری ہفتے میں منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے محترم جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاک فوج کا سربراہ مقرر کیا تو دونوں رہنماو¿ں کی ابتدائی رسمی ملاقات کی تصویر دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ سبز بانات کی ایک سادہ سی میز کے ایک طرف وزیر اعظم تشریف فرما تھے اور دوسری طرف جنرل قمر جاوید باجوہ متمکن تھے۔ یہ وہ منظر تھا جس کی آس میں ربع صدی گزری تھی۔ ہمیں تو دو یک فردی کرسیوں کی شانہ بشانہ افقی ترتیب کے جلو میں وزرا سمیت دیگر ریاستی منصب داروں کا دربار دیکھنے کی عادت ہو گئی تھی۔ بنیادی انسانی مساوات ایک اہم اخلاقی قدر ہے لیکن ریاست کے بندوبست میں تقدیم و تاخیر کے اپنے اشارے ہوتے ہیں۔ ضابطے کی یہ پابندیاں صرف اقتدار کے ایوانوں تک محدود نہیں ہوتیں۔ انہیں ذرائع ابلاغ اور گلی کوچوں میں بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے۔ ہماری جمہوری ثقافت پر تو ایسا پیغمبری وقت بھی پڑا کہ اخبار کے صفحے پر بالالتزام چیف جسٹس صاحب کے فرمودات شہ سرخی کی زینت بنتے تھے اور منتخب ایوان کے قائد یعنی وزیر اعظم کا بیان تین کالمی ذیلی خبر کا سزاوار قرار پاتا تھا۔ عجیب موسم تھا کہ ہر طرف سے ایک ہی صدا آتی تھی کہ قوم کی نیا کو بالآخر افتخار محمد چوہدری کی صورت میں ایک صاحب انصاف مل گیا ہے۔ اب ماضی کے دلدر بھی دھل جائیں گے اور آئندہ کی راہیں بھی چمک اٹھیں گی۔ پھر بیچ میں چرخ فلک کی رفتار کچھ ایسی کج ہوئی کہ اب کسی کو جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کا نام ہی یاد نہیں آتا۔ وکلا کے جلسے بدستور ہو رہے ہیں۔ قانونی دماغ روایتی خالی الذہن جوش و خروش کے ساتھ بدستور دھینگا مشتی میں مصروف ہیں۔ بس یہ ہے کہ اب کسی کو خیال نہیں آتا کہ عصر حاضر کے حمو ربی کو صدارت چھوڑ، شرکت کی دعوت ہی دے دی جائے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان دنوں آئین کے تیسرے ستون یعنی عدلیہ سے ملال کا اشارہ اس سمت سے سنائی دے رہا ہے جس نے 2008 سے 2012 تک ٹھیک پانچ برس آئینی اداروں میں اختیار اور احتساب کا توازن تہہ و بالا کیے رکھا۔
خبر یہ ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کوئٹہ گیریژن کے دورے پر تشریف لے گئے۔ فوجی جوانوں اور افسروں سے خطاب کرتے ہوئے محترم جنرل صاحب نے بہت سی اچھی باتیں کہیں، خوش نیتی میں بھی کلام نہیں مگر ایک جملہ ایسا کہہ دیا جس کی ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں اور ہماری قوم مردان عارف کی نیک نیتی سے بارہا خسارہ اٹھا چکی ہے لہذا نشاندہی ضرور کرنی چاہئیے۔ جنرل صاحب نے فرمایا کہ “پاکستان کے عوام کی فوج ہیں، ان کی حمایت سے فرائض انجام دیتے رہیں گے”۔ اگر اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں، فوج کی اہلیت پر اعتماد کرتے ہیں، نیز یہ کہ فوج کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں تو اس جملے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم ایک ممکنہ تصریح یہ بھی ہے کہ پاکستان کی فوج آئین کے مطابق منتخب حکومت کے تابع ہے۔ فوج براہ راست عوام کے مینڈیٹ کی حامل نہیں۔ یہ منصب منتخب نمائندوں کا ہے۔ فوج آئینی حکومت کے احکامات کی پابند ہے۔ جمہوری نظام میں اختیارات کی علیحدگی کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ تین ادارے آئینی ہیں۔ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ یعنی حکومت۔ حکومت کے ماتحت مستقل انتظامی اور خدمات کے ادارے کام کرتے ہیں۔ فوج دفاعی خدمت کا شعبہ ہے۔
حالیہ صدیوں کی تاریخ میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ جہاں فوج اور عوام کے درمیان سیاسی قیادت کی حد فاصل موجود نہ رہے وہاں سیاسی انتشار اور آمریت جنم لیتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ اور مغل حکومت میں فوج اور عوام کے براہ راست تعلق کے نتائج دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہٹلر نے خود کو فوج کا کمانڈر مقرر کر لیا۔ جنرل ٹوجو وزیراعظم بن بیٹھے، سٹالن مارشل بن گیا اور ایک ہمسایہ ملک کے بارے میں بات کرنا تو بہرصورت قرین مصلحت نہیں۔ دوسری عالمی جنگ سے زیادہ گمبھیر سلامتی کی صورت حال کیا ہو سکتی تھی۔ لیکن چرچل نے فوج پر منتخب حکومت کی گرفت کمزور نہیں ہونے دی۔ پاکستان ایک تحریری آئین کے تابع جمہوری ریاست ہے۔ یہاں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے کہ عسکری قیادت ملک کے مفاد کو آگے بڑھاتے ہوئے آئین کی طے شدہ حدود کو فراموش نہ کرے۔ خواہش تھی کہ اس تحریر میں مناسب احترام کا رنگ بھرنے کے لیے جابجا ’سر‘ کا تکریمی لفظ استعمال کیا جائے۔ یوں بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سترہ کے قریب ’سر‘کسی وجہ سے استعمال نہیں ہو پائے۔ غالب کو صریر خامہ میں نوائے سروش سنائی دیتی تھی۔ جمہوری قلم کی مجبوری ہے کہ وہ ہر طرح کا احترام برقرار رکھتے ہوئے “سر” لکھنا چاہتا ہے لیکن اختلاف رائے کی سرسراہٹ سے باز نہیں رہ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).