آئی ایس آئی، شہر یار خان اور نواز شریف کی کرکٹ یادیں


وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ماہ قومی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں استقبالیے میں کرکٹ سے متعلق بھولی بسری یادیں تازہ کیں۔ ان کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ مارچ 1959 میں ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے درمیان باغ جناح میں ہونے والے ٹیسٹ میچ کو وہ دیکھنے گئے اور یہ پہلی دفعہ تھا جب انھوں نے ٹیسٹ میچ کو اسٹیڈیم میں جا کر دیکھا۔ انھوں نے بتایاکہ اس میچ میں ویسٹ انڈیزکے فاسٹ بولر وزلے ہال کا باؤنسر اعجاز بٹ کی ناک پر لگاجس سے وہ اچھے خاصے زخمی ہوگئے تھے۔ اعجاز بٹ کے ساتھ جب یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا.

اتفاق کی بات ہے اس وقت نواز شریف ہی نہیں، عمران خان بھی وہیں تماشائیوں میں موجود یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔نواز شریف کی طرح عمران خان بھی پہلی دفعہ ٹیسٹ میچ دیکھنے گئے تھے۔ ان کی والدہ محترمہ شوکت خانم ان کے ساتھ تھیں۔ عمران خان نے لکھا ہے کہ دوسرے کھیلوں کے مقابلہ میں کرکٹ میں ان کا جی کم لگتا تھا اور وہ اپنے والد کے اس خیال سے متفق تھے کہ یہ ایک بور کھیل ہے، اس لیے مذکورہ ٹیسٹ دیکھنے گئے تو ان کو تیز رفتار وزلے ہال کی بولنگ ذرا نہیں بھائی، اس پر مزید یہ خرابی ہوئی کہ اس کے ایک گیند نے اعجاز بٹ کو زخمی کردیا اور جب وہ ٹوٹے ناک سے اس حالت میں کہ قمیص خون سے لت پت تھی،میدان سے باہر آرہے تھے تو انھیں دیکھ کرعمران خان کا کرکٹ کے بارے میں پہلے سے ہی کم جوش اور بھی گھٹ گیا۔ نوازشریف اس وقت دس برس اور عمران خان سات سال کے تھے۔ زخمی اوپنر اعجاز بٹ وہی ہیں جو آصف زرداری کے دورمیں کرکٹ بورڈ کے چئیرمین رہے۔

وزیر اعظم نے خطاب میں امتیاز احمد کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ وکٹ کیپر کے ساتھ ساتھ زبردست بیٹسمین بھی تھے۔ اس میں کیا شک ہے۔ وزلے ہال کی بولنگ میں فسطائیت کو جن چند بیٹسمینوں نے چیلنج کیا ، ان میں امتیاز احمد سر فہرست تھے ، ان کے کمالات کا اعتراف ہال نے خود نوشت میں کیا ہے۔ ہال کو چند سال پہلے کرکٹ میں ان کی خدمات کے باعث سرکا خطاب ملا۔ انھوں نے 48 ٹیسٹ میچوں میں 192 وکٹیں حاصل کیں. آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تاریخ کرکٹ کے پہلے ٹائی ٹیسٹ میچ میں انھوں نے 9 وکٹیں لیں اور تاریخی آخری اوور بھی کرایا. وزلے ہال کی دہشت اور دھاک اردو شاعری کا موضوع بھی بنی اور معروف فکاہیہ شاعر سید ضمیر جعفری نے نہایت پر لطف نظم ’’ ہال کے بال ‘‘کہی ۔

ہال کے بال

(ویسٹ انڈیز کے تیز رفتار باؤلر وزلے ہال کا کھیل دیکھ کر)

Wesley hall

شور اٹھا کہ ہال آتا ہے

کھیل کا انتقال آتا ہے

ہال پر جب جلال آتا ہے

بال سے پہلے حال آتا ہے

ہم کو تو کچھ نظر نہیں آتا

لوگ کہتے ہیں بال آتا ہے

الاماں اس کی برق رفتاری

بال ہے یا خیال آتا ہے

بال آتا ہے یا نہیں آتا

کچھ مگر لال لال آتا ہے

نواز شریف نے تقریر میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین کا اچھے لفظوں میں ذکر کیا اور بتایا کہ ان سے تعلقات اس وقت استوار ہوئے جب وہ پہلی دفعہ وزیراعظم بنے ۔اس وقت شہریارخان سیکرٹری خارجہ تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی کرکٹ بورڈ کی عنان شہریارکے ہاتھ میں رہی ۔ وہ پی سی بی کے دو بارہ سربراہ بننے کی واحد مثال ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں جب وہ کرکٹ بورڈ کے چئیرمین تھے تو اس زمانے میں ان کو ایک دفعہ نواز شریف کی وجہ سے آئی ایس آئی کے دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔کس حوالے سے؟اس کی کہانی وہ کرکٹ سے جڑی اپنی یادداشتوں پرمشتمل کتاب ’’ The Cricket Cauldron‘‘ میں بیان کرچکے ہیں۔ان کی کتاب سے متعلقہ اقتباس کا ترجمہ درج ذیل ہے:

’’ پاکستان کی طاقت ور ایجنسی آئی ایس آئی نے صرف ایک دفعہ کرکٹ کے معاملات میں دخل دیا ۔ 2006کا ذکر ہے جب پاکستان ٹیم انگلینڈ کا دورہ کر رہی تھی. نواز شریف ان دنوں لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے. ای سی بی نے انھیں لارڈز میں اپنے وی آئی پی باکس میں مدعو کر لیا.اس دعوت نامے کی ترغیب دینے میں میرا قطعی کوئی حصہ نہ تھا. لیکن میں حیران رہ گیا جب لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں تعینات آئی ایس آئی کے نمائندے نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ نواز شریف کو یہ دعوت نامہ کیسے ملا؟جسے وہ پاکستان کے میڈیا میں اپنے حق میں استعمال کرکے فائدہ اٹھا سکتے تھے.

آئی ایس آئی کے افسر نے فرض کر لیا تھا کہ میں بلکہ خود میری بیوی نے اس دعوت نامے کے حصول میں نواز شریف کی مدد کی تھی.میں نے بریگیڈئر کو رکھائی سے بتا دیا کہ میرا اس دعوت نامے میں کوئی ہاتھ نہیں اور نہ میرا اپنے سابق باس سے کوئی رابطہ تھا.میں نے اسے بتایا کہ نواز شریف انگلش کرکٹ حلقوں میں بڑے شائق کرکڑ کے طور پر معروف ہیں اور انھیں باکس میں آکر میچ دیکھنے کی دعوت دینے کا فیصلہ ای سی بی نے آزادانہ طور پر کیا ہے. میں نے بریگیڈئر کو بتا دیا کہ یہ بالکل مہمل بات ہے کہ ای سی بی سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ ایک سابق وزیر اعظم کو اپنا دعوت نامہ منسوخ کر دے ۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).