ڈی ایچ اے کے لیے کراچی کے عوام کا تحفہ


کل رات سمندر کے پاس میں نے اسے دیکھا۔

آتے جاتے میں سمندر کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ ذرا سی دیر کے لیے سہی، سمندر کی جھلک نظر آجائے۔ کہیں جانا ہو میری کوشش ہوتی ہے کہ وہی راستہ اختیار کرلوں اور تھوڑی سی دیر کے لیے سہی، سمندر کا ساتھ ہو جائے۔ دن کے وقت دھوپ میں جھلملاتا اور شام گئے بادلوں کے سے رنگ میں ڈھلتا ہوا سمندر سڑک سے دور نرم نرم بہتا ہوا، موجوں کے ساتھ اچھلتا ہوا کتنا اچھا لگتا ہے۔ اتنے فاصلے سے اسے دیکھ کر میں خوش ہولیتا ہوں۔ اس علاقے میں رہنے کا اتنا فائدہ تو ہونا چاہیے۔ ورنہ اس نام نہاد ’’پوش‘‘ علاقے کی مشکلات کسی اور جگہ سے کم نہیں۔

کل شام بھی میں نے یہی کیا۔ جانا کہیں اور تھا مگر گاڑی سی ویو والے راستے پر موڑ لی۔ سڑک کے ساتھ دیوار کھینچی ہوئی ہے جو شہر اور سمندر کے درمیان باضابطہ حد قائم کردیتی ہے۔ اس کی وجہ کچھ بھی ہو، اس سے مجھے دیوار برلن یاد آجاتی ہے جسے میں نے بہت برس پہلے دیکھا تھا۔ اس دیوار کے ساتھ آگے چل کر ایک بورڈ لگا ہوا تھا جو سمندر کے راستے میں آگیا، اس لیے میری نظر پڑگئی۔ بڑے بڑے انگریزی حروف میں (جو ظاہر ہے کہ صوبہ جاتِ متحدہ کلفٹن اور ڈیفنس کی سرکاری زبان ہے) کراچی کے شہریوں کو نئی نعمت کے لیے شکر گزار ہونے کی اطلاع دی گئی تھی۔ اب اس پر کراچی کے لوگ نہ مانیں تو ان سے بڑھ کر بدنصیب اور ناشکرا بھلا کون ہوسکتا ہے؟

اس دیوار کے ساتھ کئی بے مصرف، ڈھنڈار آثار موجود ہیں جو دور سے بھوت بنگلہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان کھنڈروں کی حالت نہیں بدلی ان پر بورڈ نیا لگادیا گیا ہے۔

KIOSK ON SEA-VIEW

ان پر لکھا ہوا ہے، مبادا آپ کچھ اور سمجھ لیں۔ چلیے اس بات کو بھی چھوڑیے کہ کراچی کے کتنے شہری KIOSK کا لفظ پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں، اس کا صحیح تلفّظ ادا کرنا تو دور کی بات ہے۔ اگر اس کو دیکھنے کے بعد بھی آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو یہ آپ کی فہم کا قصور ہے۔ اسی لیے واضح کر دیا گیا ہے تاکہ آپ ان نشانیوں کو جھٹلا نہ سکیں۔

A GIFT FROM DHA TO THE PEOPLE OF KARACHI

اس اعلان کو میں دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ کئی بار آنکھیں مل مل کر دیکھا کہ پڑھنے میں غلطی تو نہیں ہورہی۔ خیال آیا کہ لکھتے وقت الفاظ کی ترتیب تو نہیں الٹ ہوگئی۔ نہیں صاحب، اس سے اگلے کھنڈر پر اسی عبارت کا بورڈ نصب تھا۔ گاڑی سے اُتر کر میں نے اطمینان کر لیا۔ لکھنے والے تو لکھ کر چلے گئے مگر میں، بقول اجمل سراج، سوچتا رہ گیا۔

وہ سوال پوچھنے سے رہ گئے تھے وہ شاید میری شکل پر ابھر آئے ہوں گے۔ اس لیے ایک معقول عمر کے صاحب جاگنگ کے انداز میں بھاگتے بھاگتے میرے پاس رکے اور بڑی بے تکلفی سے کہنے لگے، ’’آپ کو اس کے بارے میں پتہ نہیں چلا تھا؟ یہ سوشل میڈیا پر بھی آگیا ہے۔‘‘

انھوں نے اپنا بڑا سارا اسمارٹ فون میری ناک کے نیچے لگا دیا۔ ڈی ایچ اے ٹو ڈے یا اسی قسم کا کوئی پیج تھا جو سرکاری معلوم ہوتا تھا۔ اس پر ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر کا بیان درج تھا کہ لذیذ، عمدہ کھانے کی فراہمی کو یقینی بنانے کے علاوہ یہ کمیونٹی سروس کا کام بھی دیں گی اور سی ویو کے نظارے کو بھی scintillating بنا دیں گے۔ اس لیے یہ کراچی کے عوام کے لیے تحفہ ہے جن کو بہتر تفریح بھی میسر آئے گی۔

ایک دوکان سے اتنے فائدے، یہ تو کراچی کے لوگوں نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ وہ صاحب تو ٹیلی فون واپس جیب میں ڈال کر اور کچھ نیم طنزیہ انداز میں ناک چڑھا کر چلے گئے لیکن مجھے خیال آیا کہ کس قدر اچھے الفاظ میں نیک جذبات کا اظہار ہوا ہے اور کیسے ناقدرے لوگ ہیں اس شہر کے۔ اس پر یاد آیا کہ ابھی چند دن پہلے کراچی کے بلدیاتی ادارے کے ایک اعلیٰ افسر نے بھی تو ایسے ہی پُرشکوہ الفاظ میں بیان دیا ہے کہ بارش کا پانی مہذب ملکوں میں بھی جمع ہوجاتا ہے۔ ایک دفعہ کی بارش کے بعد شہر میں کتنی جگہ پانی اب تک کھڑا ہے، سڑکیں ٹوٹ گئیں، بجلی کے تار گرگئے اور لوگ مر گئے تو یہ اس بیان کی ضمنی تفصیلات ہیں۔ خاک ڈالیے بارش پر، میں تو افسر اعلیٰ کے بیان میں اس بات سے خوش ہوں کہ انھوں نے مہذّب ملکوں کا ذکر کیا۔ اس سے یہ تو پتہ چلا کہ ان کو اتنا معلوم ہے کہ بعض معاشرے مہذّب بھی ہوسکتے ہیں ورنہ میں تو سمجھ بیٹھا تھا کہ میرے طرح کراچی کے گلی کوچوں کی خاک پھانکتے ہوئے بڑے ہوگئے۔ اگلی بار وہ یہ اطلاع فراہم کرسکتے ہیں کہ مہذّب ملکوں میں بارش بھی ہوتی ہے۔

اچھے بیانات اور عمدہ الفاظ پر مبنی اعلانات، مہذب ملکوں کے اعلیٰ افسر ضرور اپنے شہریوں کو ایسے تحفے دیتے ہوں گے۔ تحفہ دینا بہت اچھی بات ہے، مگر پھر خیال آیا کہ خیرات زکوٰۃ کی طرح اس کی ابتدا بھی اپنے گھر سے ہونا چاہیے۔ کراچی کے شہری بے چارے تھوڑے دن ان تحفوں کے بغیر اور بُرے حالوں گزارا کر لیتے لیکن اعلیٰ حکام ڈی ایچ اے کے باشندوں کو بھی تو چند تحفے دے دیتے۔ تحفے بھی نہیں بنیادی حقوق جن کی قیمت وہ شہر کے کتنے ہی علاقوں سے زیادہ ادا کرتے ہیں۔ پانی، سڑکیں، بجلی، گٹر کے گندے پانی کی نکاسی، حفاظت۔ یہ سب محض چند کھلانے جو معمولی تحفے ثابت ہوسکتے تھے۔ پانی کا ٹیکس باقاعدگی سے عائد کیا جاتا ہے مگر پانی جیسی لازمی شے کے لیے ڈیفنس کے بیش تر باشندے ٹینکروں سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ جاتی ہیں پھر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ گٹر کا پانی جگہ جگہ سے اُبلنے لگتا ہے اور کوڑے کے ڈھیر پڑے رہتے ہیں۔ ڈی ایچ اے اپنے مکینوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے مگر نمائندگی یا عوامی رائے کا وہ حق نہیں دیتی جو پاکستان جیسے ملک میں بھی جانا پہچانا جاتا ہے۔ کراچی کے شہریوں کو تحفہ دیتے ہوئے آپ تب اچھے لگتے جب آپ ایسے ہی تحفے ان شہریوں کو بھی دیتے جو آپ کے زیرانتظام علاقے میں رہتے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

سمندر کے رُخ کو دیدہ زیب اور شان دار بنانے کی بھی خوب کہی۔ سارے الفاظ حقیقت سے اس قدر متضاد ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ چند دکانیں اور بدصورت عمارتیں بلند کر دینے سے سمندر کا چہرہ کہاں نظر آئے گا۔ دیوار اور ان تعمیرات کے پیچھے دب کر رہ جائے گا۔ ان عمارتوں کا ملبہ اور کوڑا کرکٹ باقاعدگی سے اچھالا جائے گا۔ ایک زمانے میں فلوریسنٹ روشنیاں جو لگائی گئی تھیں ان کو بحال کر دیتے۔ سڑک کے کھمبوں کو ٹھیک کر کے ان پر بلب لگوادیتے۔ اور کچھ نہیں، ایک آدھ پبلک ٹوائلٹ بنوا دیتے۔ تجارتی مقاصد کے لیے تعمیر کیے جانے والے یہ بدوضع نمونے نہیں بلکہ بہتر سہولیات عوام کے لیے سب سے بڑا تحفہ ہوتی ہیں۔ کاش اعلیٰ افسر کھوکھلے بیان دینے سے پہلے اس بارے میں سوچ لیتے۔

پھر یہ کس نے کہہ دیا کہ ہوٹلوں میں کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت عوامی تفریح ہے؟ کیا یہ سمندر کے ساحل کو بھی فوڈ اسٹریٹ یا گوال منڈی میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں۔ کیا ان ہوٹلوں سے پہلے یہاں پر لوگ فاقہ کیے بھوکے پیاسے بیٹھے رہتے تھے؟ اپنے بچپن کی بات نہیں، کچھ عرصہ پہلے کی بات بتا رہا ہوں کہ ٹھیلے والے، خوانچے والے اور سودا بیچنے والے خوب آیا کرتے تھے۔ نمک اور نیبو لگے ہوئے بھٹّے کے دانے، بڑھیا کے بال، آلو چھولے اور وہ ہمارے زمانے کی بڑی انوکھی ایجاد جسے انڈہ برگر کا نام دیا جاتا ہے، یہ ساری چیزیں لوگ خرید کر کھایا کرتے تھے۔ بہت سے لوگ گھر سے کھانے پینے کا سامان لے کر آتے اور ٹھنڈی ریت پر چادریں بچھا کر ڈونگے، پتیلیاں کھڑکھڑانے لگتے۔ کراچی کے لوگوں کے لیے یہ بھی اس تفریح کا حصّہ تھا۔ ورنہ جب تک داڑھ نہ چلتی رہے اور پیٹ میں تھوڑا بہت جاتا نہ رہے، تفریح کیا خاک ہوگی۔ ڈی ایچ اے برابر ان چھوٹے دوکان داروں کو روکتی ہے۔ ان پر ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے، سیکیورٹی کے نام پر نافذ اہل کار سامان چھین لیتے ہیں، جرمانے وصول کرتے ہیں۔ یہ بے چارے لوگ معمولی چیزیں سستے داموں بیچتے ہیں۔ ظاہر ہے حفظانِ صحت کے اعلیٰ اصولوں کا کیا خیال رکھتے ہوں گے۔ ان کے بجائے عمدہ ہوٹلوں کو متعارف کرانے کے ذریعے سے ڈی ایچ اے کے سامنے شکریے کے اظہار کے لیے کراچی کے شہری جھک جائیں اور دوزانو ہو کر دوگانہ شکر کا بجا لائیں۔

ان ہوٹلوں کو وہاں جگہ دینے کے حوالے سے لائسنس، فیس اور اوپر کی آمدنی محض غیرضروری باتیں ہیں جن پر آپ کو بالکل کان نہیں دھرنا چاہیے۔ اچھے کھانے کی فراہمی کے سامنے ان سب باتوں کی بھلا کیا حیثیت ہے؟ آپ خوش رہیے، پیٹ بھرتے رہیے۔

غیرضروری سوالوں سے اجتناب ضروری ہے۔ آپ یہ پوچھنے کے مجاز نہیں کہ شہر کی اتنی بہت سی اراضی پر اختیار جمانے کے بعد سمندر کی طرف اس ادارے نے رُخ کیسے کر لیا؟ کیا سمندر بھی ان کو الاٹ ہوگیا ہے اور وہ اس پر ’برائے فروخت‘ کا بورڈ آویزاں کرنے والے ہیں۔ سمندر پر دھونس قائم کرنے والے اور اس کے چند ٹکڑے بیچ کھوچ کر پھر شہریوں کے نام دان کر دینے والے یہ کون لوگ ہیں۔ سمندر پہلے سے شہر کے لوگوں کا ہے جو یہاں تفریح کرنے، گھومنے، سیر کرنے کے لیے آتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس دشوار گزار شہر میں آسودگی کے چند لمحے اس سے پاتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی روزی، روٹی اور معاش اسی سمندر سے حاصل کرتے آئے ہیں۔ ان کو بے دخل کرکے ڈی ایچ اے زمین کے اس بیش قیمت حصّے پر بھی اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے۔

چند مخصوص تجارتی (کمرشل) اداروں کے معاشی استحصال کو مضبوط کرکے یہ بھلے لوگ اس کو شہر کے لوگوں کے نام تحفہ قرار دیتے ہیں اور اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اس طریقے سے وہ اپنے قبضے کو بڑھا رہے ہیں، اپنی حدود کو وسیع کررہے ہیں۔ تحفے کی بھی خوب رہی۔ یہ تو عطیہ ہے جو کراچی کے شہریوں کی جانب سے ڈی ایچ اے کو مل گیا ہے۔ سمندر نہ ہوا سونے کا انڈا دینے والی بطخ ہوگیا۔ بس یہی دھڑکا لگا ہوا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سونے کے لالچ میں اس کو مار ہی نہ ڈالیں۔ تحفہ کیسا، یہ تو دھاندلی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).