پرمیشر سنگھ (1) ۔۔۔ احمد ندیم قاسمی کا شاہکار افسانہ


اختر اپنی ماں سے یوں اچانک بچھڑ گیا جیسے بھاگتے ہوئے کسی جیب سے روپیہ گر پڑے۔ ابھی تھا اور ابھی غائب۔ ڈھنڈیا پڑی مگر بس اس حد تک کہ لٹے پٹے قافلے کے آخری سرے پر ایک ہنگامہ صابن کی جھاگ کی طرح اٹھا اور بیٹھ گیا۔ “کہیں آ ہی رہا ہو گا۔ ” کسی نے کہہ دیا “ہزاروں کا تو قافلہ ہے” اور اختر کی ماں اس تسلی کی لاٹھی تھامے پاکستان کی طرف رینگتی چلی آئی تھی۔ “آہی رہا ہو گا” وہ سوچتی “کوئی تتلی پکڑنے نکل گیا ہو گا اور پھر ماں کو نہ پا کر رویا ہو گا اور پھر۔ پھر اب کہیں آ ہی رہا ہو گا۔ سمجھ دار ہے پانچ سال سے تو کچھ اوپر ہو چلا ہے۔ آ جائے گا وہاں پاکستان میں ذرا ٹھکانے سے بیٹھوں گی تو ڈھونڈ لوں گی۔ “

لیکن اختر تو سرحد سے کوئی پندرہ میل دور اُدھر یونہی بس کسی وجہ کے بغیر اتنے بڑے قافلے سے کٹ گیا تھا۔ اپنی ماں کے خیال کے مطابق اس نے تتلی کا تعاقب کیا یا کسی کھیت میں سے گنّے توڑنے گیا اور توڑتا رہ گیا۔ بہر حال وہ جب روتا چلاتا ایک طرف بھاگا جا رہا تھا تو سکھوں نے اسے گھیر لیا تھا اور اختر نے طیش میں آ کر کہا تھا “میں نعرۂ تکبیر ماروں گا” اور یہ کہہ کر سہم گیا تھا۔

سب سکھ بے اختیار ہنس پڑے تھے، سوائے ایک سکھ کے، جس کا نام پرمیشر سنگھ تھا۔ ڈھیلی ڈھالی پگڑی میں سے اس کے الجھے ہوئے کیس جھانک رہے تھے اور جوڑا تو بالکل ننگا تھا۔ وہ بولا “ہنسو نہیں یارو، اس بچے کو بھی تو اس واہ گورو نے پیدا کیا ہے جس نے تمھیں اور تمھارے بچوں کو پیدا کیا ہے۔ “

ایک نوجوان سکھ جس نے اب تک اپنی کرپان نکال لی تھی، بولا “ذرا ٹھہر پرمیشر” کرپان اپنا دھرم پورا کر لے، پھر ہم اپنی دھرم کی بات کریں گے۔ “

“مارو نہیں یارو” پرمیشر سنگھ کی آواز میں پکار تھی۔ اسے مارو نہیں اور وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔

اختر کے پاس آ کر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور بولا۔

“نام کیا ہے تمھارا؟”

“اختر”۔ ۔ ۔ اب کی اختر کی آواز بھرائی ہوئی نہیں تھی۔

“اختر بیٹے” پرمیشر سنگھ نے بڑے پیار سے کہا۔

“ذرا میری انگلیوں میں جھانکو تو”

اختر ذرا سا جھک گیا۔ پرمیشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں میں ذرا سی جھری پیدا کی اور فوراً بند کر لی “آہا” اختر نے تالی بجا کر اپنے ہاتھوں کو پرمیشر سنگھ کے ہاتھوں کی طرح بند کر لیا اور آنسوؤں میں مسکرا کر بولا۔ “تتلی”

“لو گے؟” پرمیشر سنگھ نے پوچھا۔

“ہاں” اختر نے اپنے ہاتھوں کو ملا۔

“لو” پرمیشر سنگھ نے اپنے ہاتھوں کو کھولا۔ اختر نے تتلی کو پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ راستہ پاتے ہی اڑ گئی اور اختر کی انگلیوں کی پوروں پر اپنے پروں کے رنگوں کے ذرّے چھوڑ گئی۔ اختر اداس ہو گیا اور پرمیشر سنگھ دوسرے سکھوں کی طرف دیکھ کر بولا “سب بچے ایک سے کیوں ہوتے ہیں یارو! کرتارے کی تتلی بھی اڑ جاتی تھی یوں ہی منھ لٹکا لیتا تھا۔ ۔ ۔ “

“پرمیشر سنگھ تو آدھا پاگل ہو گیا ہے۔ ” نوجوان سکھ نے ناگواری سے کہا اور پھر سارا گروہ واپس جانے لگا۔

پرمیشر سنگھ نے اختر کو کنارے پر بٹھا لیا اور جب اسی طرف چلنے لگا جدھر دوسرے سکھ گئے تھے تو اختر پھڑک پھڑک کر رونے لگا “ہم اماں پاس جائیں گے۔ اماں پاس جائیں گے” پرمیشر سنگھ نے ہاتھ اٹھا کر اسے تھپکنے کی کوشش کی مگر اختر نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا پھر جب پرمیشر سنگھ نے اس سے یہ کہا کہ “ہاں ہاں بیٹے” تمھیں تمھاری اماں پاس لیے چلتا ہوں۔ تو اختر چپ ہو گیا۔ صرف کبھی کبھی سسک لیتا تھا اور پرمیشر سنگھ کی تھپکیوں کو بڑی ناگواری سے برداشت کرتا جا رہا تھا۔

پرمیشر سنگھ اسے اپنے گھر میں لے آیا۔ پہلے یہ کسی مسلمان کا گھر تھا۔ لٹا پٹا پرمیشر سنگھ جب ضلع لاہور سے ضلع امرت سر میں آیا تھا تو گاؤں والوں نے اسے یہ مکان الاٹ کر دیا تھا وہ اپنی بیوی اور بیٹی سمیت جب اس چار دیواری میں داخل ہوا تھا، ٹھٹھک کر رہ گیا تھا۔ اس کی اتنا ذرا سا تو ہے اور اسے بھی تو اسی واہگوروجی نے پیدا کیا ہے جس نے۔ ۔ ۔ “

“پوچھ لیتے ہیں اسی سے۔ ۔ ۔ ” ایک اور سکھ بولا پھر اس نے سہمے ہوئے اختر کے پاس جا کر کہا۔ ۔ ۔ “بولو تمھیں کس نے پیدا کیا ہے؟ خدا نے کہ واہگوروجی نے؟”

اختر نے ساری خشکی کو نگلنے کی کوشش کی جو اس کی زبان کی نوک سے لے کر اس کی ناف تک پھیل چکی تھی، آنکھیں جھپک کر اس نے ان آنسوؤں کو گرا دینا چاہا جو ریت کی طرح اس کے پپوٹوں میں کھٹک رہے تھے۔ اس نے پرمیشر سنگھ کی طرف یوں دیکھا جیسے ماں کو دیکھ رہا ہے۔ منھ میں گئے ہوئے ایک آنسو کو تھوک ڈالا اور بولا۔

“پتہ نہیں۔ “

“لو اور سنو” کسی نے کہا اور اختر کو گالی دے کر ہنسنے لگا۔

اختر نے ابھی اپنی بات پوری نہیں کی تھی، بولا۔ ۔ ۔ “اماں تو کہتی ہے میں بھوسے کی کوٹھری میں پڑا ملا تھا۔ “

سب سکھ ہنسنے لگے مگر پرمیشر سنگھ بچوں کی طرح بلبلا کر کچھ یوں رویا کہ دوسرے سکھ بھونچکا سے رہ گئے اور پرمیشر سنگھ رونی آواز میں جیسے بین کرنے لگا۔ ۔ ۔ “سب بچے ایک سے ہوتے ہیں یارو۔ میرا کرتار ابھی تو یہی کہتا تھا وہ بھی تو اس کی ماں کو بھوسے کی کوٹھری میں پڑا ملا تھا۔ “

کرپان میان میں چلی گئی۔ سکھوں نے پرمیشر سنگھ سے الگ تھوڑی دیر کھُسر پھُسر کی۔ پھر ایک سکھ آگے بڑھا۔ بلکتے ہوئے اختر کو بازو سے پکڑے وہ چپ چاپ روتے ہوئے پرمیشر سنگھ کے پاس آیا اور بولا۔ ۔ ۔ “لے پرمیشرے” سنبھال اسے، کیس بڑھوا کر اسے اپنا کرتارا بنا لے۔ ۔ ۔ لے پکڑ”۔

پرمیشر نے اختر کو یوں جھپٹ کر اٹھا لیا کہ اس کی پگڑی کھل گئی اور کیسوں کی لٹیں لٹکنے لگیں۔ اس نے اختر کو پاگلوں کی طرح چوما۔ اسے اپنے سینے سے بھینچا اور پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور مسکرا مسکرا کر کچھ ایسی باتیں سوچنے لگا جنھوں نے اس کے چہرے کو چمکا دیا پھر اس نے پلٹ کر دوسرے سکھوں کی طرف دیکھا۔ اچانک وہ اختر کو نیچے اتار کر سکھوں کی طرف لپکا، مگر ان کے پاس سے گزر کر دور تک بھاگا چلا گیا۔ جھاڑیوں کے ایک جھنڈ میں بندروں کی طرح کودتا اور چھپتا رہا اور اس کے کیس اس کی لپک جھپٹ کا ساتھ دیتے رہے۔ دوسرے سکھ حیران کھڑے دیکھتے رہے، پھر وہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ میں رکھے بھاگتا ہوا واپس آیا۔ اس کی بھیگی ہوئی داڑھی میں پھنسے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور سرخ آنکھوں میں چمک تھی۔ آنکھیں پتھرا سی گئی تھیں اور وہ بڑی پر اسرار سرگوشی میں بولا تھا۔ “یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔ “

گرنتھی جی اور گاؤں کے دوسرے لوگ ہنس پڑے تھے۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی نے انھیں پہلے سے بتا دیا تھا کہ کرتار سنگھ کے بچھڑتے ہی انھیں کچھ ہو گیا ہے۔ “جانے کیا ہو گیا ہے اسے” اس نے کہا تھا۔ واہگوروجی جھوٹ نہ بلوائیں تو وہاں دن میں کوئی دس بار تو یہ کرتار سنگھ کو گدھوں کی طرح پیٹ ڈالتا تھا۔ اور جب سے کرتار سنگھ بچھڑا ہے تو میں تو خیر رو دھو لی پر اس کا رونے سے بھی جی ہلکا نہیں ہوا۔ وہاں مجال ہے جو بیٹی امر کور کو میں ذرا بھی غصے سے دیکھ لیتی، بپھر جاتا تھا، کہتا تھا، بیٹی کو برا مت کہو۔ بیٹی بڑی مسکین ہوتی ہے۔ یہ تو ایک مسافر ہے بے چاری۔ ہمارے گھروندے میں سستانے بیٹھ گئی ہے۔ وقت آئے گا تو چلی جائے گی اور اب امر کور سے ذرا سا بھی کوئی قصور ہو جائے تو آپے ہی میں نہیں رہتا۔ یہاں تک بک دیتا ہے کہ بیٹیاں بیویاں اغوا ہوتے سنی تھیں یارو۔ یہ نہیں سنا تھا کہ پانچ برس کے بیٹے بھی اٹھ جاتے ہیں۔ “

وہ ایک مہینے سے اس گھر میں مقیم تھا مگر ہر رات اس کا معمول تھا کہ پہلے سوتے میں بے تحاشا کروٹیں بدلتا پھر بڑبڑانے لگتا اور پھر اٹھ بیٹھتا۔ بڑی ڈری ہوئی سرگوشی میں بیوی سے کہتا۔ “سنتی ہو؟ یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔ “۔ ۔ ۔ بیوی اسے محض “اونہہ” سے ٹال کر سو جاتی تھی مگر امر کور کو اس سرگوشی کے بعد رات بھر نیند نہ آئی۔ اسے اندھیرے میں بہت سی پرچھائیاں ہر طرف بیٹھی قرآن پڑھتی نظر آئیں اور پھر جب ذرا سی پو پھٹتی تو وہ کانوں میں انگلیاں دے لیتی تھی۔ وہاں ضلع لاہور میں ان کا گھر مسجد کے پڑوس ہی میں تھا اور جب صبح اذان ہوتی تھی تو کیسا مزا آتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے پورب سے پھوٹتا ہوا اجالا گانے لگا ہے۔ پھر جب اس کی پڑوسن پریتم کور کو چند نوجوانوں نے خراب کر کے چیتھڑے کی طرح گھورے پر پھینک دیا تھا تو جانے کیا ہوا کہ مؤذن کی اذان میں بھی اسے پریتم کور کی چیخ سنائی دے رہی تھی، اذان کا تصور تک اسے خوف زدہ کر دیتا تھا اور وہ یہ بھی بھول جاتی تھی کہ اب ان کے پڑوس میں مسجد نہیں ہے۔ یوں ہی کانوں میں انگلیاں دیتے ہوئے وہ سو جاتی اور رات بھر جاگتے رہنے کی وجہ سے دن چڑھے تک سوئی رہتی تھی اور پرمیشر سنگھ اس بات پر بگڑ جاتا۔ ۔ ۔ “ٹھیک ہے سوئے نہیں تو اور کیا کرے۔ نکمی تو ہوتی ہیں یہ چھوکریاں۔ لڑکا ہو تو اب تک جانے کتنے کام کر چکا ہوتا یارو۔ “

پرمیشر سنگھ آنگن میں داخل ہوا تو آج خلاف معمول اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس کے کھلے کیس کنگھے سمیت اس کی پیٹھ اور ایک کندھے پر بکھرے ہوئے تھے اور اس کا ایک ہاتھ اختر کی کمر تھپکے جا رہا تھا۔ اس کی بیوی ایک طرف بیٹھی چھاج میں گندم پھٹک رہی تھی۔ اس کے ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے اور وہ ٹکر ٹکر پرمیشر سنگھ کو دیکھنے لگی۔ پھر وہ چھاج پر سے کودتی ہوئی آئی اور بولی۔

“یہ کون ہے؟”

پرمیشر سنگھ بدستور مسکراتے ہوئے بولا۔ ۔ ۔ “ڈرو نہیں بیوقوف اس کی عادتیں بالکل کرتارے کی سی ہیں یہ بھی اپنی ماں کو بھوسے کی کوٹھری میں پڑا ملا تھا۔ یہ بھی تتلیوں کا عاشق ہے اس کا نام اختر ہے۔ “

“اختر” بیوی کے تیور بدل گئے۔

“تم اسے اختر سنگھ کہہ لینا” پرمیشر سنگھ نے وضاحت کی۔ ۔ ۔ “اور پھر کیسوں کا کیا ہے، دنوں میں بڑھ جاتے ہیں۔ کڑا اور کچھیرا پہنا دو، کنگھا کیسوں کے بڑھتی لگ جائے گا۔ “

“پر یہ ہے کس کا؟” بیوی نے مزید وضاحت چاہی۔

“کس کا ہے!” پرمیشر سنگھ نے اختر کو کندھے پر سے اتار کر اسے زمین پر کھڑا کر دیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ واہگورو جی کا ہے ہمارا اپنا ہے اور پھر یارو یہ عورت اتنا بھی دیکھ نہیں سکتی کہ اختر کے ماتھے پر جو یہ ذرا سا تل ہے یہ کرتارے ہی کا تل ہے۔ کرتارے کے بھی تو ایک تل تھا اور یہیں تھا۔ ذرا بڑا تھا پر ہم اسے یہیں تل پر تو چومتے تھے۔ اور یہ اختر کے کانوں کی لویں گلاب کے پھول کی طرح گلابی ہیں تو یارو۔ یہ عورت یہ تک نہیں سوچتی کہ کرتارے کے کانوں کی لویں بھی تو ایسی ہی تھیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ذرا موٹی تھیں یہ ذرا پتلی ہیں اور۔ ۔ ۔ “

اختر اب تک مارے حیرت کے ضبط کیے بیٹھا تھا۔ بلبلا اٹھا۔ ۔ ۔ “ہم نہیں رہیں گے، ہم اماں پاس جائیں گے، اماں پاس۔ “

پرمیشر سنگھ نے اختر کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیوی کی طرف بڑھایا۔ ۔ ۔ “اری لو۔ یہ اماں کے پاس جانا چاہتا ہے۔ “

“تو جائے۔ ” بیوی کی آنکھوں میں اور چہرے پر وہی آسیب آگیا تھا جسے پرمیشر سنگھ اپنی آنکھوں اور چہرے میں سے نوچ کر باہر کھیتوں میں جھٹک آیا تھا۔ ۔ ۔ “ڈاکہ مارنے گیا تھا سورما۔ اور اٹھا لایا یہ ہاتھ بھر کا لونڈا۔ ارے کوئی لڑکی ہی اٹھا لاتا۔ تو ہزار میں نہ سہی، ایک دو سو میں بک جاتی۔ اس اجڑے گھر کا کھاٹ کھٹولہ بن جاتا اور پھر۔ ۔ ۔ پگلے تجھے تو کچھ ہو گیا ہے، دیکھتے نہیں یہ لڑکا مُسلّا ہے؟ جہاں سے اٹھا لائے ہو وہیں واپس ڈال آؤ۔ خبردار جو اس نے میرے چوکے میں پاؤں رکھا۔ “

پرمیشر سنگھ نے التجا کی۔ ۔ ۔ “کرتارے اور اختر کو ایک ہی واہگورو جی نے پیدا کیا ہے، سمجھیں۔ “

“نہیں ” اب کے بیوی چیخ اٹھی۔ ۔ ۔ “میں نہیں سمجھی اور نہ کچھ سمجھنا چاہتی ہوں، میں رات ہی رات میں جھٹکا کر ڈالوں گی اس کا، کاٹ کے پھینک دوں گی۔ اٹھا لایا ہے وہاں سے، لے جا اسے پھینک دے باہر۔ “

“تمھیں نہ پھینک دوں باہر؟”۔ ۔ ۔ اب کے پرمیشر سنگھ بگڑ گیا۔

“تمھارا نہ کر ڈالوں جھٹکا؟ وہ بیوی کی طرف بڑھا اور بیوی اپنے سینے کو دو ہتڑوں سے پیٹتی، چیختی، چلاتی بھاگی۔ پڑوس سے امر کور دوڑی آئی۔ اس کے پیچھے گلی کی دوسری عورتیں بھی آ گئیں۔ مرد بھی جمع ہو گئے اور پرمیشر سنگھ کی بیوی پٹنے سے بچ گئی۔ پھر سب نے اسے سمجھایا کہ نیک کام ہے، ایک مسلمان کا سکھ بنانا کوئی معمولی کام تو نہیں۔ پرانا زمانہ ہوتا تو اب تک پرمیشر سنگھ گرو مشہور ہو چکا ہوتا۔ بیوی کی ڈھارس بندھی مگر امر کور ایک کونے میں بیٹھی گھٹنوں میں سر دیے روتی رہی۔ اچانک پرمیشر سنگھ کی گرج نے سارے ہجوم کو ہلا دیا۔ ۔ ۔ “اختر کدھر گیا ہے۔ ” وہ چڑھ گیا یارو۔ ۔ ۔ ؟اختر۔ ۔ ۔ اختر۔ ۔ ۔ !” وہ چیختا ہوا مکان کے کونوں کھدّوں میں جھانکتا ہوا باہر بھاگ گیا۔ بچے مارے دلچسپی کے اس کے تعاقب میں تھے۔ عورتیں چھتوں پر چڑھ گئی تھیں اور پرمیشر سنگھ گلیوں میں سے باہر کھیتوں میں نکل گیا تھا۔ ۔ ۔ “ارے میں تو اسے اماں پاس لے چلتا یارو۔ ارے وہ گیا کہاں؟ اختر۔ ۔ ۔ ! اے اختر۔ ۔ ۔ !”

“میں تمھارے پاس نہیں آؤں گا۔ ” پگڈنڈی کے ایک موڑ پر گیان سنگھ کے گنے کے کھیت کی آڑ میں روتے ہوئے اختر نے پرمیشر سنگھ کو ڈانٹ دیا۔ “تم تو سکھ ہو۔ “

“ہاں بھیا میں تو سکھ ہوں۔ ” پرمیشر سنگھ نے جیسے مجبور ہو کر اعتراف جرم کر لیا۔

“تو پھر ہم نہیں آئیں گے۔ ” اختر نے پرانے آنسوؤں کو پونچھ کر نئے آنسوؤں کے لیے راستہ صاف کیا۔

“نہیں آؤ گے؟” پرمیشر سنگھ کا لہجہ اچانک بدل گیا۔

“نہیں۔ “

“نہیں آؤ گے؟”

“نہیں۔ نہیں نہیں۔ “

“کیسے نہیں آؤ گے؟” پرمیشر سنگھ نے اختر کو کان سے پکڑا اور پھر نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر اس کے منہ میں چٹاخ سے ایک تھپڑ مار دیا۔ “چلو” وہ کڑکا۔

اختر یوں سہم گیا جیسے ایک دم اس کا سارا خون نچڑ کر رہ گیا ہے۔ پھر ایکا ایکی وہ زمین پر گر کر پاؤں پٹخنے، خاک اڑانے اور بلک بلک کر رونے لگا۔ “نہیں چلتا، بس نہیں چلتا تم سکھ ہو، میں سکھوں کے پاس نہیں جاؤں گا۔ میں اپنی اماں پاس جاؤں گا، میں تمھیں مار دوں گا۔ “

اور اب جیسے پرمیشر سنگھ کے سہنے کی باری تھی۔ اس کا بھی سارا خون جیسے نچڑ کر رہ گیا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ کو دانتوں میں جکڑ لیا۔ اس کے نتھنے پھڑکنے لگے اور پھر اس زور سے رویا کہ کھیت کی پرلی مینڈ پر آتے ہوئے چند پڑوسی اور ان کے بچے بھی سہم کر رہ گئے اور ٹھٹک گئے۔ پرمیشر سنگھ گھٹنوں کے بل اختر کے سامنے بیٹھ گیا۔ بچوں کی طرح یوں سسک سسک کر رونے لگا کہ اس کا نچلا ہونٹ بھی بچوں کی طرح لٹک آیا اور پھر بچوں کی سی روتی آواز میں بولا۔

“مجھے معاف کر دے اختر، مجھے تمھارے خدا کی قسم میں تمھارا دوست ہوں، تم اکیلے یہاں سے جاؤ گے تو تمھیں کوئی مار دے گا۔ پھر تمھاری ماں پاکستان سے آ کر مجھے مارے گی۔ میں خود جا کر تمھیں پاکستان چھوڑ آؤں گا۔ سنا؟ پھر وہاں اگر تمھیں ایک لڑکا مل جائے نا۔ کرتارا نام کا تو تم اسے ادھر گاؤں میں چھوڑ جانا۔ اچھا؟”

“اچھا!” اختر نے الٹے ہاتھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے پرمیشر سنگھ سے سودا کر لیا۔

پرمیشر سنگھ نے اختر کو کندھے پر بٹھا لیا اور چلا مگر ایک ہی قدم اٹھا کر رک گیا۔ سامنے بہت سے بچے اور پڑوسی کھڑے اس کی تمام حرکات دیکھ رہے تھے۔ ادھیڑ عمر کا ایک پڑوسی بولا۔ ۔ ۔ “روتے کیوں ہو پرمیشرے، کل ایک مہینے کی تو بات ہے، ایک مہینے میں اس کے کیس بڑھ آئیں گے تو بالکل کرتار ا لگے گا۔ “

کچھ کہے بغیر وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔ پھر ایک جگہ رک کر اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے آنے والے پڑوسیوں کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ “تم کتنے ظالم لوگ ہو یارو۔ اختر کو کرتارا بناتے ہو اور ادھر اگر کوئی کرتارے کو اختر بنا لے تو؟ اسے ظالم ہی کہو گے نا۔ ” پھر اس کی آواز میں گرج آ گئی۔ ۔ ۔ “یہ لڑکا مسلمان ہی رہے گا۔ دربار صاحب کی سوں۔ میں کل ہی امرت سر جا کر اس کے انگریزی بال بنوا لاؤں گا۔ تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے، خالصہ ہوں، سینے میں شیر کا دل ہے، مرغی کا نہیں۔ “

پرمیشر سنگھ اپنے گھر میں داخل ہو کر ابھی اپنی بیوی اور بیٹی ہی کو اختر کی مدارات کے سلسلے میں احکام ہی دے رہا تھا کہ گاؤں کا گرنتھی سردار سنتو سنگھ اندر آیا اور بولا۔

“پرمیشر سنگھ۔ “

“جی” پرمیشر سنگھ نے پلٹ کر دیکھا۔ گرنتھی جی کے پیچھے اس کے سب پڑوسی بھی تھے۔

“دیکھو” گرنتھی جی نے بڑے دبدبے سے کہا۔ ۔ ۔ “کل سے یہ لڑکا خالصے کی سی پگڑی باندھے گا، کڑا پہنے گا، دھرم شالہ آئے گا اور اسے پرشاد کھلایا جائے گا۔ اس کے کیسوں کو قینچی نہیں چھوئے گی۔ چھو گئی تو کل ہی سے یہ گھر خالی کر دو سمجھے؟”

“جی” پرمیشر سنگھ نے آہستہ سے کہا۔

“ہاں۔ ” گرنتھی جی نے آخری ضرب لگائی۔

“ایسا ہی ہو گا گر نتھی جی۔ ” پرمیشر سنگھ کی بیوی بولی۔ ۔ ۔ “پہلے ہی اسے راتوں کو گھر کے کونے کونے سے کوئی چیز قرآن پڑھتی سنائی دیتی ہے۔ لگتا ہے پہلے جنم میں مُسلّا رہ چکا ہے۔ امر کور بیٹی نے تو جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے گھر میں مُسلّا چھوکرا آیا ہے تو بیٹھی رو رہی ہے، کہتی ہے گھر پر کوئی اور آفت آئے گی۔ پرمیشرے نے آپ کا کہا نہ مانا تو میں بھی دھرم شالہ میں چلی آؤں گی اور امر کور بھی۔ پھر یہ اس چھوکرے کو چاٹے مُوا نکما، واہگورو جی کا بھی لحاظ نہیں کرتا۔ “

“واہگوروجی کا لحاظ کون نہیں کرتا گدھی” پرمیشر سنگھ نے گرنتھی جی کی بات کا غصہ بیوی پر نکالا۔ پھر وہ زیر لب گالیاں دیتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد وہ اٹھ کر گرنتھی جی کے پاس آگیا۔ “اچھا جی اچھا۔ ” اس نے کہا۔ گرنتھی جی پڑوسیوں کے ساتھ فوراً رخصت ہو گئے۔

چند ہی دنوں میں اختر کو دوسرے سکھ لڑکوں سے پہچاننا دشوار ہو گیا۔ وہی کانوں کی لوؤں تک کس کر بندھی ہوئی پگڑی، وہی ہاتھ کا کڑا اور وہی کچھیرا۔ صرف جب وہ گھر میں آ کر پگڑی اتارتا تھا تو اس کے غیر سکھ ہونے کا راز کھلتا تھا۔ لیکن اس کے بال دھڑا دھڑ بڑھ رہے تھے۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی ان بالوں کو چھوکر بہت خوش ہوتی۔ ۔ ۔ “ذرا ادھر تو آ امر کورے، یہ دیکھ کیس بن رہے ہیں۔ پھر ایک دن جوڑا بنے گا۔ کنگھا لگے گا اور اس کا نام رکھا جائے گا کرتار سنگھ۔ “

“نہیں ماں۔ ” امر کور وہیں سے جواب دیتی۔ ۔ ۔ “جیسے واہگورو جی ایک ہیں، اور گرنتھ صاحب ایک ہیں اور چاند ایک ہے۔ اسی طرح کرتارا بھی ایک ہے۔ میرا ننھا منا بھائی!” وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی اور مچل کر کہتی۔ ۔ ۔ “میں اس کھلونے سے نہیں بہلوں گی ماں، میں جانتی ہوں ماں یہ مسلا ہے اور جو کرتارا ہوتا ہے وہ مسلا نہیں ہوتا۔ “

“میں کب کہتی ہوں یہ سچ مچ کا کرتارا ہے۔ میرا چاند سا لاڈلا بچہ!”۔ ۔ ۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی بھی رو دیتی۔ دونوں اختر کو اکیلا چھوڑ کر کسی گوشے میں بیٹھ جاتیں۔ خوب خوب روتیں، ایک دوسرے کو تسلیاں دیتیں اور پھر زارزار رونے لگتیں وہ اپنے کرتارے کے لیے روتیں، اختر چند روز اپنی ماں کے لیے رویا، اب کسی اور بات پر روتا، جب پرمیشر سنگھ شرنارتھیوں کی امدادی پنچایت سے کچھ غلّہ یا کپڑا لے کر آتا تو اختر بھاگ کر جاتا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا اور رو رو کر کہتا۔ ۔ ۔ “میرے سر پر پگڑی باندھ دو پرموں۔ ۔ ۔ میرے کیس بڑھا دو۔ مجھے کنگھا خرید دو۔ “

پرمیشر سنگھ اسے سینے سے لگا لیتا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہتا۔ ۔ ۔ “یہ سب ہو جائے گا بچے۔ سب کچھ ہو جائے گا پر ایک بات کبھی نہ ہو گی۔ وہ بات کبھی نہ ہو گی۔ وہ نہیں ہو گا مجھ سے سمجھے؟ یہ کیس ویس سب بڑھ آئیں گے۔ “

(جاری ہے)

http://www.humsub.com.pk/70616/ahmad-nadeem-qasmi-2/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).