چوہدری شجاعت آئے، شیخ رشید آئے، قاف کے دن ابھی نہیں آئے


پیر کو عدالت عظمیٰ میں کارروائی دیکھنے کے لئے گجرات سے چوہدری شجاعت اور لال حویلی سے شیخ رشید آئے، تاہم کوہ بنی گالا سے ندائے اسرافیل  نہیں پہنچی۔ جاننے والوں نے جان لیا کہ ابھی قاف کے دن نہیں آئے۔ 2002 کی بہار ابھی نہیں پلٹی۔ ابھی تو خطیب اعظم، مولانا، ثم علامہ، ثم شیخ الاسلام حال ڈاکٹر طاہر القادری کی سواری باد بہاری بھی کہیں نہیں پہنچی۔ گویا کسی آفت ناگہانی کا فی الحال خدشہ نہیں۔ شیخ الاسلام شکور قادری بغیر کسی لاش کے اسلام آباد کی  سڑکوں پر گور کنی کی شہرت رکھتے ہیں۔ دوسروں کو شہید کروانے کے ہنر میں یکتا ہیں، اپنے لئے کفن کی بجائے صاف جرابوں کا جوڑا تیار رکھتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی دیرینہ خواہش ہے کہ انہیں عدالت عظمیٰ میں اپنی تنبیہ الغافلین انگشت ہوا میں لہرانے کا اذن ملے لیکن نہ کشمیر آزاد ہوتا ہے اور نہ ڈاکٹر صاحب کو خطابت کے جوہر دکھانے کا موقع ملتا ہے۔ جمعے پر جمعہ گزرتا جا رہا ہے۔

کمرہ عدالت میں یر معمولی ہجوم تھا لیکن ماحول سنجیدہ تھا۔ سابق وزیراعظم (عبوری) چوہدری شجاعت حسین کی احاطہ عدالت میں آمد اہم واقعہ کے طورپر دیکھی گئی جو بوجوہ ایسی فروعات سے کنارہ کش رہتےہیں۔ چوہدری صاحب تو بند دروازے کی اوٹ میں جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں۔ فیصلۃ سازوں کے ساتھ بیٹھ کر ناقابل علاج غلطیوں پر مٹی ڈالنے کے ماہر ہیں۔ قانون اور عدل کی راہداریاں چوہدری صاحب کا میدان نہیں ہیں۔ اس کے باوجود دست بدست دیگراں اور پا بدست دیگراں کمرہ عدالت میں پہنچے۔ چار افراد چوہدری صاحب کو سہارا دیکرکمرہ عدالت میں لائے۔ چار افراد کی مدد کا محاورہ نیک شگون نہیں ہے۔ پارلیمان کے ایوان بالا میں قائد ایوان اور حکمران پاکستان مسلم لیگ نون کے چیئرمین راجہ محمد ظفرالحق نے بھی رونمائی دی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی آمد قابل ذکر تھی۔ پی ایس 114 کا اضمنی انتخاب ہار گئے لیکن 18000 ووٹ جیب میں رکھے ہوں تو چال ڈھال میں ایک غیر مرئی وقار آ جاتا ہے۔

جماعت اسلامی کےامیر سراج الحق باقاعدگی سے عدالت عظمیٰ میں تشریف لاتے رہے ہیں۔ واقفان درون خانہ کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کی تاریخی پرفارمنس میں سراج الحق مدظلہ کی رہنمائی کو بہت دخل ہے۔ ایک اہم بات یہ کہ سراج الحق اس مقدمے میں مدعی بھی ہیں۔ گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں۔ ایک اضافی اعزاز یہ کہ انہیں سرزمین پاکستان میں ائین کی دفعات 62 اور 63 پر پورا اترنے کا ایسا خطاب مل چکا ہے جو بیس کروڑ عوام میں کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ گزشتہ ستر برس میں فرزندان توحید میں اس منفرد اعزاز کا بار گراں اٹھانے سے مولانا سراج الھق کی پشت میں خم آ گیا ہے۔  خبر گرم تھی کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اس تاریخی اجتماع کو رونق بخشیں گے لیکن وہ بنی گالہ کی بلندیوں میں جمع ہوتے اور بکھرتے بادلوں کی ٹکڑیوں تلے پش اپس لگاتے رہے، امروز و فردا کے غموں سے کھیلتے رہے۔ ایک اطلاع کے مطابق شیرو صاحب کی ناسازی طبع کے باعث خان خاناں عدالت میں تشریف آوری سے قاصر رہے۔ سیالکوٹ کے ایک براؤں صاحب نے شیرو صاحب کی ناسازی طبع کی تاریخ کہہ رکھی ہے، تیرا سرمایہ یہی ٹائیگر تو ہے۔

جیسے جیسے عدالت کی کارروائی آگے بڑھتی رہی، امیدوار دلوں کی رفتار قلب میں خاطر خواہ ٹھہراؤ آتا گیا، آنکھوں کی جوت کمزور پڑتی رہی اور آوازوں میں ارتعاش کم ہوتے ہوتے سرگوشیوں میں ڈھلتا گیا۔

غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے نیتجے میں وکلا برادری میں جو شعور پیدا ہوا ہے اس کے عین مطابق سینیئر وکلا چٹختے ہوئے گھٹنوں پر بوجھ ڈالے کونوں میں کھڑے رہے جب کہ پرجوش عدل پسند جونیئر وکلا نے کرسیوں کو زینت بخشی۔ عینی شاہدین کے مطابق یجوم میں درخواست گزاروں کے وکلا کی تعداد کم جبکہ غیر متعلقہ افراد اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی تعداد زیادہ تھی۔

شیخ رشید بایں تن و توش سب سے پہلے کمرہ عدالت میں پہنچے۔ جماعت اسلای کے امیرسراج الحق بھی جلد ہی نمودار ہو گئے۔ تاہم کرپشن کے خلاف مہم کے سالار اعظم عمران خان سپریم کورٹ نہیں پہنچ سکے۔ چوہدری شجاعت حسین دو گھنٹے تک کمرہ عدالت میں رونق افروز رہے اور پھر انہی چار افراد کی مدد سےواپس روانہ ہو گئے۔ کائناتی اصولوں اور فطری انصاف کے قاعدوں کے مطابق واپسی کے سفر میں چار افراد ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے نمائندے بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے حالانکہ یہ پارٹیاں پاناما لیکس میں درخواست گزار نہیں ہیں۔ ان جماعتوں کے ارکان کو پہلی مرتبہ اس مقدمے کی سماعت کے لئے موجود پا کر حکمران جماعت کے حامی جزبز ہوئے۔ اس پر ایم کیو ایم کے ارکان کا کہنا تھا کہ وہ تو اردو تہذیب کی وضع داری نبھانے حاضر ہوئے ہیں تاکہ موقع آنے پر ضرورت مندوں کی ڈھارس بندھائی جا سکے۔ پیپلز پارٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ ان کی کمرہ عدالت میں آمد کا تعلق پانامہ کیس سے نہیں ہے بلکہ میمو گیٹ اسکینڈل کی کچھ باقی ماندہ دستاویزات وصول کرنے آئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ اور مسلم لیگ نواز کے نمائندوں کا یکجا ہونا ایک حسن اتفاق ہے چنانچہ ان کی پارٹی قومی سلامتی کے اس اہم معاملے کا ریکارڈ لینے آئی ہے۔

شیخ رشید احمد نے حالیہ دنوں میں مکمل قانونی تیاری کا دعویٰ کیا تھا تاہم جب وہ دلائل دینے کے لئے اٹھے تو فیصل آباد کے کچھ وکلا اور ایم کیو ایم کے پرانے ارکان بڑبڑاتے ہوئے پائے گئے۔ فیصل آباد سے آنے والوں کا کہنا تھا کہ شیخ رشید فیصل آباد کے شہرہ آفاق مزاحیہ اداکاروں کے جملوں میں سرقہ کر رہے ہیں۔ کراچی سے آنے والوں کا موقف تھا کہ بانی تحریک کی جگتوں اور مفرح قلب طرز خطابت کا چربہ کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ شیخ رشید کی کارکردگی غیر موثر رہی اور عدالت عظمیٰ کے ارکان نے انہیں داد ابتذال دینے کی بجائے سنجیدگی اختیار کئے رکھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).