لائل پوری موٹے، میں تمھیں معاف نہ کر دوں؟


  نہ تایخی سقم کہوں گا، نہ مورخین کی بد دیانتی، مسئلہ فقط مورخین کی اپنی فہم کے مطابق واقعات کی ترجیحات کا تعین ہے ۔ لیکن کیا تاریخ کو مورخین کی فہم پر چھوڑ دینا چاہئیے ۔ میرا خیال ہے یہ نہ صرف ظلم ہو گا بلکہ نسل انسانی کو صحیح راستے پر ڈالنے میں ایک رکاوٹ بھی۔

مثال کے طور پر 1997ءکو ہی لیں ۔ آپ کو اہم واقعہ میاں نواز شریف کا بھاری اکثریت لے کر وزیر اعظم بننا یا د آئے گا۔ اس کی وجہ اس واقعہ کو غیر ضروری حد تک دہرانا ہے ۔ جبکہ اسی سال کئی اور ایسے واقعات بھی پیش آئے ہوں گے لیکن بد قسمتی سے ہماری ترجیحات کا معاملہ ہی بڑا پیچیدہ ہے۔ اب میں کیونکہ تعصب کی عینک نہیں پہنتا اس لیے مجھے 1997ءکا سال ایک اور واقعہ کے حوالے سے بھی یاد آتا ہے۔

میرے پاس 70 روپے تھے اور فیصل آباد سے راولپنڈی آنا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب راولپنڈی سے فیصل آباد کا کرایہ پینسٹھ روپے اور چائے دو روپے کی ملتی تھی۔ میں الائیڈ ہسپتال سے پیدل ہی فیصل آباد کے لاری اڈے تک آیا کیونکہ راولپنڈی جانے کے کرایہ کے علاوہ میرے پاس صرف پانچ روپے تھے جن کو میں دوران سفر کسی بڑی عیاشی کی نذر کرنا چاہتا تھا۔ میں جب اڈے پر پہنچا تو بس کے روانہ ہونے میں دو گھنٹے باقی تھے۔

میں کافی دیر اڈے پر آوارہ گردی کرتا رہا۔ ساتھ ہی مکینکوں کی ورکشاپس تھیں جہاں ڈرائیوروں اور مکینکوں کی دلچسپ نوک جھوک وقت کاٹنے کا بہترین کلیہ تھا۔

لیکن یونہی چلتے چلتے چائے کی ہوٹل پر نظر پڑی اور کیونکہ سردی تھی تو اپنے آپ کو یہ باور کرانے میں مشکل پیش نہ آئی کہ پانچ روپوں میں سے اگر دو روپے خرچ بھی ہو گئے تو بھی تین روپے بچ جائیں گے۔

یہاں عقل کا سارا زور تین پر تھا کہ خرچ کی رقم سے…. پس انداز کی جانے والی رقم کا ہندسہ بڑا ہے۔

میں ہوٹل میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ تقریبا ہر آدمی کے سامنے چائے کے ساتھ ایک پلیٹ پڑی تھی جس پر فروٹ کیک نے رونق لگا رکھی تھی ۔ میں نے ایسی پلیٹوں کی جانب زیادہ نہ دیکھا ۔ اگر دیکھتا تو یہ سوچ کر زیادہ کڑھتا کہ قومی وسائل کا بے دریغ استعمال اور بچت کی جانب کم رجحان ہماری ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔

میں نے چائے کا آرڈر دیا ، اور تھوڑی دیر بعد ایک قد آوور موٹا سا بیرا چائے کے ساتھ کیک کی ایک پلیٹ لیے حاضر ہوا ۔ یہ کیک پانچ ٹکڑوں پر مشتمل تھا اور کہیں کہیں اس کے اوپر تیل میں بھیگا گہرا خاکی کاغذ اب بھی موجود تھا، میں نے فورا کہا کہ صرف چائے رکھ دو اور اس پلیٹ کو لے جاﺅ۔

جس پر اس بیرے کے منہ سے کچھ ایسا فقرہ نکلا جس نے تاریخ کا دھارا ہی تبدیل کر دیا۔

اس نے کہا، یہ کیک یم یم یم اس کے ساتھ ہی اوں اوں یم یم یم کوںںں آںںیم

آپ مجھے دوش دیں گے لیکن یقین جانئے کوئی بھی انسان بالخصوص بھوکا انسان ماسوائے اس یم یم یم کی تعبیر اس کے علاوہ نکال ہی نہیں سکتا کہ ، یہ کیک اس چائے کے ساتھ مفت ہے

میں آپ کی آسانی کے لیے ایک اور مثال دے دیتا ہوں۔

کسی زمانے میں راولپنڈی پیر ودھائی اڈے پر انار کا جوس بیچنے والوں کی ریڑھیاں تھیں جنہوں نے ’پیو روپیہ…. پیو روپیہ…. پیو روپیہ‘ کی آوازوں کے ساتھ آسمان سر پر اٹھایا ہوتا تھا۔ ( ہو سکتا ہے یہاں پڑھنے والوں کو محمد خالد اختر کے ناول ’چاکیواڑہ میں وصال‘ کا وہ کردار یاد آ جائے جس نے لی مارکیٹ میں اپنے پانچ بیٹوں کو ساتھ ملا کر انناس کے شربت کا اس زور و شور سے اعلان کیا تھا کہ دیگر رہڑھیوں والے اپنے اثاثہ جات وہیں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔)

تو پیر ودھائی اڈے کی ان ریڑھیوں پر ہر وقت جھگڑے رہتے کہ جب ریڑھی والا جوس پینے والے سے کہ جو ایک روپے قیمت سن کر پیاس بجھا رہا ہوتا اس سے بیس روپے کا تقاضا کرتا۔ جوس پینے والا کہتا تم خود ہی تو کہہ رہے ہو پیو روپیہ …. پیو روپیہ تو میں بیس روپے کیوں دوں اس پر ریڑھی والا کہ اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی نہ جانے کہاں سے نمودار ہو جاتے جوس پینے والے کو سناتے کہ ابے جاہل کے بچے یہ کہہ رہا ہے ’پیور پیو‘ اور پیور انگریزی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے خالص ۔ اب نکال بیس روپے ورنہ بھرکس نکال دیں گے تمھارا۔

بس صاحبانِ فکر و نظر مجھے بھی ’یم یم یم ‘ کی تعبیر کچھ غلط پلے پڑی ۔ساری کائنات کے معاملات اپنی جگہ …. میری توجہ اس وقت صرف ایک مقصد پر تھی کہ چائے میں ڈبویا نرم کیک کیونکر ٹوٹے بغیر منہ میں جا سکتا ہے۔ اور میں یہ مشن بغیر کسی ایک ناکامی کے بھی کامیابی سے سر انجام دے رہا تھا۔

ٹھیک اس وقت کہ جب میرا ہاتھ سو فیصد شرح کامیابی کے ساتھ پلیٹ میں کیک کے پیس نمبر چار کی جانب بڑھ رہا تھا راستے میں ہی رُ ک گیا تھا کہ ایک ضعیف بابا جو ابھی چائے کے ساتھ کیک کھا کر بل دے رہا تھا اس کی جانب موٹا بیرا تضحیک آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔ بزرگو طبیعت ٹھیک ہے دو روپے دے رہے ہو اس کیک کے پیسے کون دے گا؟ اور بزرگ کہہ رہے تھے کہ یہ تو تم زبردستی رکھ گئے تھے اور تم نے کہا تھا کہ یہ اس کے ساتھ ہی ہے۔۔ اس پر موٹے بیرے نے زور کا قہقہہ لگایا اور نجانے کہاں سے ڈنڈے لیے تین اور افراد آ گئے اور ساتھ ہی ہوٹل کا مالک جو زیادہ موٹا تھا آ گیا۔ انہوں نے کہا ، معصوم سرکار ، بھولے بادشاہو چالیس روپے نکالو ۔

اس دوران میرا رکا ہوا ہاتھ کیک کی جانب خودکار انداز سے بڑھا اورچائے میں ڈبوئے بغیر اس کا ٹکڑا میرے منہ میں ٹھونس دیا۔ وہ کیک جو تھوڑی دیر قبل اپنی شناخت میرے دہن میں انڈے چینی دودھ اور میدے کے مزیدار امتزاج کے حوالے سے کرا رہا تھا، یکدم منہ میں پانچواں جز بھی شامل ہو چکا تھا۔۔خودرو بوٹی ، پوہلی کے مہین کانٹے….

بزرگ بہت روئے ، فریادیں کیں ۔آخر کار ان کی جیب سے ساری رقم تیس روپے نکلی جو لے لی گئی ۔

نہ جانے انہوں نے کہاں جانا تھا؟ اور ان کا اس واقعہ کے بعد کیا بنا؟

لیکن مجھے اس وقت اپنی پڑی تھی ۔ میں نے کیک کے پیس نمبر پانچ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور یہاں میں نے معاملے کی حد درجہ نزاکت پر غور کرنا شروع کیا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
11 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments