بول ٹی وی …. کیا یہ صحافت ہے؟


چند روز قبل میں نے ہم سب ویب سائٹ پر بول ٹی وی کے حوالے سے کالم پڑھا جس میں بول ٹی وی چھوڑ نے والی طیبہ نے بول میڈیا کے بارے میں لکھا تھا، میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتی بس اتنا کہوں گی شکریہ کہ بولنے والا کوئی تو ہے ۔اس سے قبل اسی ویب سائٹ پر حیدر شیرازی نے بھی ایک کالم لکھا تھا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ بول میڈیا (ایگزیکٹ) والے اُن کے پرسنل اکا ﺅنٹ تک پہنچ چکے تھے۔ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہوا میں نے کسی کو بتانے سے زیادہ بہتر سمجھا خاموشی اختیار کر لوں لیکن طیبہ کے ساتھ ایسا ہونے کے بعد کم از کم بول ٹی وی جوائن کرنے کے خواہش مند میرے نوجوان صحافی بھائی ایک بار غور کریں گے۔

میرے فیس بک اکاﺅنٹ تک جب بول نے رسائی کی تو میں نے بول چھوڑنا مناسب سمجھا ۔میری دوست بہن نے لکھا کہ بول میں بارہ گھنٹے کام ہوتا ہے بالکل ایسا ہی ہے انتظامیہ مجبور نوجوان صحافیوں کو ایک طرح سے غلام بنائے ہوئے ہے ،لیکن ان کا بھی شائد قصور نہیں وہ بچارے یقینا اپنے پیٹ کی خاطر خاموش ہیں اور عامر ضیاءاور نذیر لغاری کی خاموشی کی وجہ پیسہ اور کیر ئیر ہے کیونکہ کوئی اورا دارہ انہیں نوکری دینے کو تیار نہیں۔ان میں جو بو لتے ہیں ان کو سائیڈ لائن لگا دیا جاتا ہے۔ بول کی انتظامیہ سے جب حیدر شیرازی نے اختلاف کیا تھا کہ عامر لیاقت صحافی برادری پر غلیظ الزامات لگا کر بہتر عمل نہیں کر رہا تو اُس کے اکاونٹس تک رسائی حاصل کی گئی،جس خبر کے بعد شاہد مسعود نے وہ ادارہ چھوڑ دیا تھا.

بول چھوڑنے کے بعد ایک دن کراچی پریس کلب میں میری ملاقات حیدر شیرازی سے ہوئی جہاں سینئر صحافی مبشر زیدی اور اعزز سید صاحب کا پروگرام تھا جو صحافت کے حوالے سے تھا، جس میں سبوخ سید صاحب کی ایک ڈاکومینٹری بھی چلائی گئی جو بول ٹی وی میں کام کرتے تھے اورسبوخ سید سے بھی میری ملاقات کراچی بول آفس میں ہوئی تھی جب شب معراج پر پروگرام کرنے کراچی آئے تھے ،یہ بات تو الگ ہے لیکن جب حیدر شیرازی سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں بتایا تھا کہ بول واپس آ جائیں لیکن نہ جانے دوبارہ بلائے جانے کے باوجود بول کو انہوں نے کیوں جوائن نہ کیا یہ بات اس وقت میری سمجھ میں نہ آئی لیکن جب میرے اکاونٹ تک رسائی حاصل کی گئی تو احساس ہوا کہ واقعی کیسا محسوس ہوتا ہے اوریہ بات مجھے اس وقت شدت سے محسوس ہوئی جب بول کی وائس پریذیڈنٹ نے کہا کہ صحافت اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کہ ایک واقعے کو ڈی ایس این جی سے آفس اور پھر ٹی وی اسکرین تک پہنچایا جائے۔

میں حیران ہوئی لیکن یہ حیرانی جلد ختم ہو گئی جب میں نے ایک کامیڈین علی سلمان کو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی ڈیبیٹ کرتے دیکھا، جب اداکارہ وینا ملک کو سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر دیکھا اور اس کے ساتھ کام کیا ، جب ایکٹر ساجد حسن کو صحافت پر لیکچر دیتے سنا اور سیاسی حل بتا تے سنا ۔ جب اداکار حمزہ علی عباسی کو ملکی و سیاسی معاملات پر تنقید کرتے دیکھا اور محترم کا شو دیکھا ۔ جب پاکستان کی سب سے بڑی ماڈل نادیہ خان کو پاناما پر گفتگو کرتے دیکھا ، ہاں میں حیران تھی جب ایک خاتون ایتھلیٹ کو سیاسی شو دے دیا گیا ، باقی عامرلیا قت کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔
جامعہ اردو میں جب صحافت برائے امن پروگرام ہو رہا تھا وہاں بھی یہی نکتہ اٹھایا گیا کہ کیسے ٹی وی پاکستان میں مسائل کا سبب بن رہا ہے ، طیبہ نے سچ کہا اور حیدر شیرازی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وہ اس جگہ نوکری کیسے کر سکتا تھاجہاں اس کے جاننے والے اور دوستوں کو غدار اور دشمن ِمذہب کہا جا رہا ہواوروہ صبح کے وقت گالیاں دینے والوں کے ساتھ ہوں اور شام کے وقت ان کے ساتھ جنہیں برا بھلا کہا جا رہا ہو۔

میں پروگرامنگ میں تھی جب حیدر شیرازی نے عامر لیاقت کے گندے رویے کے خلاف احتجاج کیا تھا ۔یہ بات اس وقت کی ہے جب امتیاز عالم، مبشر زیدی، جبران ناصر، بینا سرور اور دیگر کے خلاف غلیظ الزامات لگائے جا رہے تھے اورجشن منایا جا رہا تھا لیکن جب حیدر شیرازی نے اس سارے کام کی مخالفت کی تو اسے ایجنٹ کہا گیا اوراس کے خلاف کالم لکھوائے گئے. ویسے ہی مجھے لگ رہا ہے طیبہ کو بھی کہیں غدار وطن نہ کہا جائے۔
میں گھریلو معاملات کی وجہ سے صحافت سے دور ہوں لیکن میں نے کہیں صحافت کی تعلیم کے دوران یہ نہیں پڑھا کہ پروگرام میں اپنے ادارے کے ملازمین کوراہ گیر ظاہر کر کے آئی ایس آئی کے حق می ںنعرے لگوانا صحافت ہو یا پیمرا اور عدالت کا نوٹس ملنے کے بعد بھی پروگرام اس بد معاشی سے آن ائیر کرنا کہ ہمیں نوٹس ملا ہی نہیں۔یا صحافت کسی پر کیچڑ اچھالنے یامذہب کو استعمال کرنے کا نام ہو اگر یہ نہیں تو ایک صحافی کے پرسنل اکاونٹس تک رسائی صحافت ہو یا کسی کی ٹانگیں کھنچنا صحافت ہو، یا اپنے ہی ملازمین کو روڈ پر راہ گیر بنا کراپنے ہی ملکی عہدے دار اور پیمرا چئیر مین کے لئے یہ الفاظ کہلوانا وہ بھارت کا ایجنٹ ہے کیا یہ سب صحافت ہے…. شائد ہوتی ہو…. میں نے تو ایسا نہیں سیکھا۔

شاید اب بول ایسا کرنا چاہتا ہو،اس میں کوئی شک نہیں ہر ادارے کا اپنا نظر یہ اور ایجنڈا ہے لیکن کیاا یسا ہونا چاہیے کہ نوجوانوں کو یہ کہا جائے کہ آج حامد میر کوبرہنہ کر نا ہے ذرا اُس پر ریسرچ کرو اگر کوئی فوج مخالف بات نظر آئے تو نکالو یا اگر اسلام مخالف یا نواز شریف کے حق میں تو مجھے بتاﺅ آج تو اسے سبق سکھانا ہے. کیا یہ صحافت ہے۔حتی کہ ایک دن میں گھر جانے والی تھی تو مجھے مزید ایک کام دے دیا گیا کہ وسیم بادامی کے پاکستان مخالف بیان نکالو میں نے پوچھا کیوں تو ایک سینئر کہنے لگیں کہ اس کو ہم لوگوں نے بو ل جوائن کرنے کی آفر کی تھی اس نے منع کیا اب اسے سارے زمانے کے سامنے نہیں چھوڑنا ….

خیر یہ تو ہوتا رہتا ہے صحافتی اداروں میں …. امید ہے پاکستان میں صحافت کے تعلیمی نصاب میں تبدیلی ہو جائے گی جہاںیہ سچ لکھا ہو گا کہ پاکستان میں صحافت ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے ،گالیاں دینے ، بلیک میلنگ کرنے ، ایجنڈا فالو کرنے ، بھارتی امداد لینے کا الزام لگانے، اداروں کے درمیان تصادم کروانے ، سکرین پر آنے والوں کے اربوں روپے کمانے کا نام ہے…. اور واقعی یہ سچ ہے ،میں خوش ہوں اور مجھے فخرمحسوس ہو رہا ہے کہ میں نے یہ شعبہ ہمیشہ کے لئے چھو ڑ دیا…. بس اتنا کہوں گی کہ جو نوجوان بچے اِس بھٹی(بول) میں ایسے ماحول میں پک کر تیار ہو رہے ہیں وہ کل اس پوری صحافی برادری اور قوم کے لئے کیسے ثابت ہو ں گے ہمیں سوچنا ہو گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).