ہتھیار دلیل نہیں ہوتا، دلیل کو ہتھیار بنائیں


دنیا کے تمام مذاہب محبت و انسانیت کا درس دیتے ہیں۔ اور انسانیت کا پہلا اصول برداشت ہے۔ ایک دوسرے کے نظریات کو برداشت کرنا۔ مذہب و عقیدے کو برداشت کرنا۔ حتیٰ کہ دوسروں کی موجودگی کو برداشت کرنا۔ عدم برداشت جانوروں کا خاصہ ہے۔ ایک دوسرے کی موجودگی سے اتنے نالاں کہ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ جو بچ گیا شاہی اسی کی۔

یوں تو ہم انسانوں کا حال بھی جانوروں سے مختلف نہیں ہے۔ دلیل چاہئے ہو تو کوئی نیوز چینل لگا کر دیکھیں۔ ہر کوئی اپنے اندر ایک آگ جلائے ہوئے ہے۔ سیاسی۔ مذہبی۔ سماجی ہر طرح کی آگ ہے لوگوں میں۔ اور اس آگ سے کریں گے کیا؟ دوسروں کو جلائیں گے۔

سیاسی طور پر دیکھا جائے تو مقدس پارلیمان جس کی سیلنگ پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں۔ انہیں آیات کے نیچے بیٹھ کر چھوٹ بولا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو نازیبا الفاظ سے پکارہ جاتا ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈالے نظر آتے ہیں۔

خودساختہ مذہب کے ٹھیکےدار جو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے مذہب کو استعمال کرتے ہیں، کفر اور واجب القتل کے فتوے جیب میں لئے گھومتے ہیں۔ ان فتووں کا شکار کبھی مسیحی جوڑا بنتا ہے۔ جسے بھٹی میں زندہ جلا دیا گیا۔ مشعال خان کی لعش کو برہنہ کر کے پوری جامعہ میں گھسیٹا جاتا ہے۔ اور کبھی سلمان تاثیر جیسے روشن خیال شخص کو قتل کر دیا جاتا ہے۔

حالات تو یہ ہیں کہ معاشرے کا قابل عزت طبقہ صحافی، جن کی باتیں عام عوام کے نظریات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اور اپنی خبروں میں جب تک ” چڑھائی کر دی” ” توپوں کے منہ سیدھے کر دیے” ” طبلِ جنگ بجا دیا” جیسے جملے نا شامل کر دیں ان کی صحافت مکمل نہیں ہوتی۔

زمیں پر فرشتے سمجھے جانے والے ڈاکٹر آئے دن ہڑتال اور دھرنے دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکومت ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات نہیں تسلیم کرتی۔ لیکن اس میں غریب عوام کی کیا خطا؟ اپنے مطالبات منوانے کے لئے مرتے ہوئی غریب کا علاج نا کرنا انسانیت تو نہیں۔ یہ کیسے فرشتے ہیں جو مریض کو مرتا ہوا دیکھ کر ان دیکھا کر دیتے ہیں؟؟

سب سے زیادہ افسوس نوجوانوں پر ہوتا ہے۔ جو پڑھے لکھے ہیں مگر پھر بھی اس دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ طلباء جماعتوں کی لڑائیاں اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی تحریروں پر غیر مہذب جملے۔ کیا یہ ہے ہمارا مستقبل؟

یہ تو چند مثالیں ہیں عدم برداشت کی۔ سچ تو یہ ہے کہ پورا معاشرہ اس آگ میں جل رہا ہے۔ ہم صرف اپنی بات کو صحیع سمجھتے ہیں اور دوسروں پر اسے مسلط کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔

کہنے کو تو ہم 2017 میں ہیں لیکن ہماری سوچ ابھی بھی 400 سال قبل مسیح کی ہے۔ جب اختلاف رائے رکھنے والے کو زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا۔ کیا ابھی بھی دورِ جاہلیت ہے؟ کیا اب بھی نظریاتی اختلاف پر سر کاٹ دیا جائے گا؟ کیا اب بھی سوال اٹھانے پر قید کر لیا جائے گا؟ ہم کب سمجھیں گے کہ ہمیں اس دلدل سے خود نکلنا ہے۔ ہم کب سمجھیں گے کہ نظریاتی اختلاف کا جواب دلائل سے دینا ہو گا نا کہ گلا کاٹ کر۔ اور ہم کب یہ فیصلہ کریں گے کہ ہم نے آنے والی نسل کو کیسا ملک دینا ہے؟

امن والا یا فرقہ واریت والا۔

محبت والا یا نفرت والا۔

انسانیت والا یا حیوانیت والا۔

یہ سب تب ہی ممکن ہے۔

جب ہم ہتھیار کو دلیل بنانے کی بجائے دلیل کو اپنا ہتھیار بنا لیں۔

 جب ہمارے بچے انسانیت سے محبت کرنا سیکھیں۔ اور انسانیت کا پہلا اصول۔۔۔۔۔ برداشت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).