مارلن برانڈو: مردانہ جنسی کشش کے استعارے سے گاڈ فادر تک


گزشتہ ہفتوں میں لفظ گاڈ فادر پاکستان کی سیاست میں بہت استعمال کیا گیا ہے۔ دراصل عدالت عظمیٰ کے ایک محترم منصف نے اپنے قانونی فیصلے کی ابتدائی سطور میں ماریو پوزو کے ناول گاڈ فادر سے ایک جملہ نقل کر دیا ہے۔ “ہر خطیر دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے”۔ اصل میں تو یہ جملہ فرانسیسی مصنف بالزاک کا ہے۔ ماریو پوزو نے اسے اپنے ناول کے آغاز میں بطور epigraph استعمال کیا ہے۔ اپنے ادبی ذوق کی نمائش کے شوق میں صاحب انصاف نے ناول کے متن اور  انتسابی مقولے میں فرق کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ماہرین قانون سے ادبی نزاکتوں کی فہم میں احتیاط کی توقع کم ہی کی جاتی ہے۔ البتہ ان سے یہ توقع ضرور کی جاتی ہے کہ وہ اہنے قانونی فیصلے کو ایک ایسے ادبی جملے سے شروع نہیں کریں گے جس کے بعد فیصلے کا باقی ماندہ متن محض حاشیے کی حیثیت اختیار کر جائے۔ یہ ادیب لوگ بڑے کایاں ہوتے ہیں۔ لفظوں سے کھیلنا ان کا ہنر ہے۔ بلی کو ہاتھی اور ہاتھی کو گدھا بنانا ان کے ہنر کا حصہ ہوتا ہے۔ سیاست دانوں، جنرلوں، ماہرین قانون، انتطامی اہل کاروں اور کاروباری حضرات کو ادیب لوگوں سے متاثر ہونے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ بہرصورت یہاں محترم جسٹس کھوسہ کے ادبی ذوق کی قدر پیمائی مقصود نہیں۔ ویسے تو ان کا قانونی ذوق ان کی خود نوشت کے عنوان سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ وہ جوش و خروش سے فیصلے دینا پسند کرتے ہیں۔ قدیم زمانوں سے منصفین سے توقع کی جاتی ہے کہ ان کے فیصلے جذبات کی بجائے شواہد، دلیل اور نظیر سے مملو ہوں گے۔

گمان یہی ہے کہ اب سے 45 برس قبل بیس سالہ آصف کھوسہ نے ماریو پوزو کا ناول پڑھا ہو گا۔ عام طور پر یہ ناول پڑھنے والوں کی اکثریت نے کتاب سے پہلے 1972 میں بننے والے وہ فلم دیکھی تھی جس میں 48 سالہ مارلن برانڈو نے جرائم پیشہ گھرانے کے سربراہ کا کردار اس قدر ڈوب کر ادا کیا تھا کہ لوگ A street car named Desire  اور Mutiny on the Bountyکے مارلن برانڈو کو بھول گئے۔ گاڈ فادر کے بعد بھی برانڈو نے ایک شاہکار فلم دی تھی Last tango in Paris . دونوں فلمیں اپنے موضوعات اور ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے بالکل مختلف ہیں۔ تو آج کچھ بات مارلن برانڈو کی چلے۔

1948 میں ولیم ٹینیسی نے ایک ڈرامہ لکھا A street car named Desire  ۔ یہ کھیل دراصل جوانی کے آخری کنارے پر کھڑی ایک عورت کی کہانی ہے جس نے ماضی کی تلخیوں سے نظریں چرانے کے لئے تخیل کی ایک دنیا تراش لی ہے۔ اس خاتون کے بہنوئی کا کردار نوجوان مارلن برانڈو نے ادا کیا تھا۔ ترشے ہوئے خدوخال، حرکات و سکنات میں اعتماد، مردانہ تندی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روئیں روئیں سے پھوٹتی جنسی توانائی۔ اس کھیل کو بیسویں صدی کے بہترین ڈراموں میں شمار کیا جاتا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سٹینلے کاوالسکی کے انتہائی تہہ دار کردار کو مارلن برانڈو نے اس خوبی سے نبھایا کہ زیرک نظری، دنیا شناسی، تشدد اور جنسی کشش کے ایک مجسمے نے بیسویں صدی میں عورتوں کے دلوں کی دھڑکن قرار پانے والے مرد کا تصور ہی بدل ڈالا۔

اگلے بیس برس میں مارلن برانڈو نے کئی یادگار کرادر ادا کئے اور پھر ان کی مقبولیت کا سورج غروب ہونے لگا۔ عین اس وقت جب فلمی دنیا انہیں ماضی کے ایک عظیم اداکار کے طور پر جاننے کی کوشش میں تھی، مارلن برانڈو نے گاڈ فادر میں اپنی اداکاری سے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ لاسٹ ٹانگو ان پیرس کو غالباً مارلن برانڈو کی آخری عظیم فلم سمجھا جاتا ہے۔ یہ فلم اپنے پیچیدہ جنسی موضوع، تشدد اور دوران فلم بندی پیش آنے والے کچھ متنازع واقعات کے باوجود ڈرامے کی صنف میں کلاسیک فلموں میں شمار ہوتی ہے۔

اب پاکستان میں کم ہی کسی کو یاد ہو گا کہ پچاس برس قبل ایک مرتبہ مارلن برانڈو پاکستان بھی آئے تھے۔ آئیے یہ قصہ پیرزادہ سلیمان کی زبانی سنتے ہیں:

“ہم میں سے کتنے افراد جانتے ہیں کہ ایک شخص جو کہ اسٹیج اور کیمرے کے سامنے ظالمانہ حد تک حقیقت پسندی کی بدولت ہولی وڈ کے متعدد عظیم اداکاروں کے لیے مثال تھا یعنی بے مثال مارلن برانڈو، نے کبھی کراچی کا بھی دورہ کیا تھا؟ یقیناً بہت زیادہ افراد اس بات سے واقف نہیں، مگر وہ 1965 میں یہاں آئے تھے، یہ ان کی زندگی کا ایسا مرحلہ تھا جو کہ باکس آفس پر کامیابی کی اصطلاح میں کافی کمزور دور کہا جا سکتا ہے۔

مارلن اکیس مارچ 1965 کو بیروت سے کراچی پہنچے۔ اس حقیقت کے برعکس کہ وہ ایک ‘مشکل’ شخص تھے جن پر اکثر ‘خودپسندی’ کا الزام عائد کیا جاتا ہے، انہوں نے یہاں ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل میں کئی قلمکاروں سے ملاقاتیں کیں۔

بائیس مارچ کو شائع ہونے والا ان کا انٹرویو کافی دلچسپ تھا اور ایسا نظر آتا تھا کہ مارلن برانڈو نے اپنے جوابات کو شوخی کے تسمے میں باندھا تھا جو کہ انٹرویو کرنے والے میں گم ہوگئے جبکہ کچھ سنجیدہ اظہار رائے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ سیاسی اور سماجی شعور رکھنے والے فنکار ہیں۔

مارلن کا کہنا تھا کہ ان کا پاکستان میں ایک فلم بنانے کا ارادہ ہے جو کہ ایک ناول پر مبنی ہوگی جسے ابھی انہوں نے پڑھا نہیں، جس کی ہدایات ناقدین کے سامنے خود کو منوانے والے جون ہسٹن اور کو اسٹار رچرڈ برٹن ہوں گے، جبکہ فلم کی شوٹنگ پشاور اور لاہور میں ہو گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ فلم میں کیا کردار ادا کریں گے تو ان کا جواب حسب توقع تھا ” میں بادشاہ کا کردار ادا کروں گا”۔

جب انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا کہ اس پراجیکٹ میں ہیروئین کا کردار کون نبھائے گا تو دو بار آسکر جیتنے والے اداکار کا جواب تھا ” ہوسکتا ہے کہ وہ خاتون آپ ہی ہوں”۔

کراچی میں مارلن نے قائداعظم کے مزار کا دورہ کیا اور اسے ‘ مسحور کن عمارت’ قرار دیا۔ مارلن کو کراچی شہر ‘نشاط انگیز’ لگا اور تبصرہ کیا ” کراچی کے عوام مختلف قسم کے ہیں، ان کی بات چیت اور لباس پہننے کا انداز مختلف ہے، خواتین برقعہ اوڑھتی ہیں اور اپنے چہرے چھپاتی ہیں جبکہ مرد شرٹوں کو اپنی پتلونوں سے باہر نکال کر رکھتے ہیں”۔

انہیں یہ سمجھنے میں محض چند ہی گھنٹے لگے ” پاکستانی عوام ووٹ کے حقوق سے لطف اندوز ہورہے ہیں، جو کہ امریکا کے جنوبی علاقوں سے بالکل مختلف ہے جہاں سیاہ فام افراد ملک کے دیگر حصوں کے رہائشیوں کے برابر حقوق سے محروم ہیں”۔

پاکستان میں قیام کی مدت سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ” جیسی چیزیں میں دیکھ رہا ہوں تو ہوسکتا ہے کہ یہاں میرا قیام چھ ماہ تک ہوجائے”۔

مگر مارلن تو مارلن تھے اور انہوں نے پاکستان میں بہت زیادہ دیر تک قیام نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ کسی نے انہیں ” ایک ایسی پیشکش کردی ہو جو وہ مسترد نہ کر سکے’ اور پاکستان سے چلے گئے۔”

تو یہ رہا مارلن برانڈو کے دورہ پاکستان کا احوال۔ اور اب کچھ ذکر 1972 میں بننے والی معروف فلم لاسٹ ٹانگو ان پیرس کے بارے میں سامنے آنے والے واقعات کا ہو جائے۔ اس فلم میں مرکزی کردار مارلن برانڈو ادا کر رہے تھے جن کی عمر اس وقت  اڑتالیس برس تھی۔ ان کے مقابل اداکارہ ماریہ شنائیڈر کی عمر صرف انیس برس تھی۔ 2007 میں ایک انٹرویو کے دوران ماریہ شنائیڈر نے بتایا کہ اس فلم کا ایک بدنام منظر اسکرپٹ کا حصہ نہیں تھا جس میں مارلن برانڈو ان سے خلاف وضع فطری جنسی زیادتی کرتے دکھائے گئے تھے۔

درحقیقت ہدایت کار برناڈو برٹولوچی اور مارلن برانڈو نے ماریہ شنائیڈر سے اس منظر کی تفصیل خفیہ رکھی تھی۔ اگرچہ یہ منظر حقیقی نہیں تھا لیکن ماریہ نے اس پر اس قدر ذلت اور بے عزتی محسوس کی کہ وہ حقیقی طور پر آنسو بہا رہی تھیں۔ ماریہ کا کہنا تھا کہ انہیں مزید افسوس اس بات پر تھا کہ مارلن برانڈو نے بعد ازاں انہیں تسلی دینے یا معذرت کی کوئی ضرورت تک محسوس نہ کی۔

شنائیڈر کے اس انٹرویو کے بعد ہدایت کار برٹولوچی نے کہا تھا کہ انہوں نے اداکارہ سے حقیقی تاثرات حاصل کرنے کے لئے انہیں تاریکی میں رکھا تھا۔ تاہم فلم سازی کے ماہرین نے اس جواز کو محض بہانہ سازی قرار دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں فلم کی دنیا میں اس قسم کے واقعات کو قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا تھا۔ عورتوں کے حقوق کے تحریک کے نتیجے میں جنسی ہراسانی کے بارے میں حساسیت پیدا ہوئی ہے۔ اب کسی اداکار یا اداکارہ کو اس کی واضح اور صریح رضامندی کے بغیر کسی منظر کی فلم بندی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

مارلن برانڈو کا انتقال 2004 میں ہوا جب کہ ماریہ شنائیڈر نے 2011 میں وفات پائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).