بالادستی کی جنگ…


مسئلہ نہ تو کرپشن کا ہے اور نہ ہی احتساب کا۔

مسئلہ سول اور عسکری قیادت کے مابین بالادستی کی جنگ کا ہے۔

اس جنگ میں سرد و گرم جھڑپیں قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی تھیں اور سول قیادت پر عسکری قیادت کی برتری قائم ہو گئی تھی۔

ایک مرتبہ پھر گھمسان کے رن کی بنیاد 1971 میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پڑی۔

وجہِ تنازعہ بنا 1973 کا متفقہ آئینِ پاکستان جس میں وزیرِ اعظم کو دیے گئے وسیع اختیارات اور چیف ایگزیکٹو کا تصوّر عسکری ادارے کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔

1971 میں مشرقی پاکستان میں شکست اور 90 ہزار کے قریب فوجییوں کے جنگی قیدی بنائے جانے کے بعد عسکری قیادت کو ہزیمت کا سامنا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدے کے ذریعے فوجی قیدیوں کی واپسی کے خراج میں عسکری قیادت کے نہ چاہتے ہوے بھی سول بالادستی کے تصور والا جمہوری آئین تشکیل دے کر پارلیمان سے منظور کرا لیا۔

آئین میں متعین کئے گئے وزیرِاعظم کے اختیارات اور سول قیادت کو مِلی بالادستی کا تصور عسکری قیادت کو ہضم نہیں ہو سکا اور اُسنے اس تصور کو داغدار کر کے نشانِ عبرت بنانے کا مصمم ارادہ کیا۔ بدقسمتی سے سول بالادستی کو سبوتاژ کرنے کے عمل میں سول بیوروکریسی اور عدلیہ اکثر عسکری قیادت کے ساتھ ملوث رہی ہے۔

عسکری قیادت، بیوروکریسی اور عدلیہ کے اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں کسی بھی حقیقی عوامی مینڈیٹ کے حامل چیف ایگزیکٹو یا وزیرِاعظم کو کبھی اس کے عہدے کی معیاد عزت کے ساتھ پوری نہیں کرنے دی گئی، سِویلین چیف ایگزیکٹو کے اختیارات میں ناجائز دخل اندازی کی گئی اور وزیراعظم کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے اسکے مخالف سیاسی کرداروں کو بخوبی استعمال کیا گیا۔

عسکری قیادت نے 1973 کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھکانے لگانے کے بعد اس بات کس خاص خیال رکھا کہ آئندہ آنے والا سارے کا سارا سیاسی ٹولہ بدنیت اور نالائق ہو چاہے وہ پی پی پی کو کائونٹر کرنے کے لیے بنایا جانے والا نو ستاروں کا سیاسی اتحاد ہو، چاہے پاکستان مسلم لیگ (ن) چاہے پاکستان مسلم لیگ (ق) چاہے آصف علی زرداری کے زیرِ قیادت پی پی پی ہو، چاہے ایم کیو ایم ہو، چاہے پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت۔

یہ یقینی بنایا گیا کہ بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نااہل، کرپٹ، مفاد پرست اور بےضمیر ہو تاکہ عسکری قیادت کی فرمان برداری پر مجبور ہو۔ جس نظریاتی جماعت کو مقبول سیاسی جماعت بنتے دیکھا گیا اس جماعت میں انتہائی مہارت کے ساتھ اُتنی ہی کثافت شامل کر دی گئی جتنی کہ دوسری سیاسی جماعتوں میں ہے۔

عسکری قیادت نے اس عمل کا تجربہ جنرل ایوب کے مارشل لاء کے دور میں اس وقت کامیابی سے کیا تھا جب اس وقت کی معتبر سیاستدان محترمہ فاطمہ جناح کو مفاد پرست ٹولے کے ساتھ مل کر دیوار سے لگا دیا گیا تھا اور سیاسی وفاداری کے بدلے ناجائز مفادات کے حصول کا تصور رائج کر کے جرنیلی جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

مفاد پرست، کرپٹ، بکائو اور انجنیئرڈ سیاستدان عسکری قیادت کی ضرورت ہیں۔ ان کی مدد سے براہِ راست سامنے آنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ مارشل لاء لگانے کی صورت میں فوج ملکی اور بین الاقوامی سطح پر غیر مقبول ہونے لگتی ہے۔

چوہے بلی کا یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ نوازشریف ہو یا کوئی اور جب بھی کسی پالتو سیاسی چوہے نے عسکری بلی کو آنکھیں دکھا کر خود کو حقیقی چییف ایگزیکٹو سمجھا ہے تو اسے براہِ راست یا کٹھ پتلیوں کے ذریعے سبق سکھا دیا جاتا ہے۔

جب تک عسکری قیادت اپنے اور افواجِ پاکستان کے دیگر افسران کے ذہنوں میں پنپنے والا عسکری بالادستی اور سکیورٹی سٹیٹ والا بیانیہ تبدیل کر کے سول بالادستی اور فلاحی ریاست کا تصور دل سے قبول نہیں کرے گی تب تک ریاست کا تالاب گندہ ہی رہے گا۔

گندے تالاب میں مچھلیاں نہیں پیدا ہوتیں اور نہ ہی پنپ سکتیں۔ ایسے تالاب میں صرف بدنما مینڈک پیدا ہو کر ٹرٹراتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).