سعودی عرب میں مِنی سکرٹ کی تفتیش کیسے کی جاتی ہے؟


سعودی عرب میں حکام ایک نوجوان خاتون سے تفتیش کر رہے ہیں جنھوں نے مِنی سکرٹ میں اپنی ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے۔ ’خلود‘ نامی یہ خاتون ایک ماڈل ہیں اور انھوں نے تاریخی قلعے اشیقر کے گرد چکر لگاتے ہوئے اپنی چھوٹی سی ویڈیو شائع کی ہے۔

اس ویڈیو کے منظر عام پر آتے ہی سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث چھڑ گئی ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس خاتون کو مسلمانوں نے ملک میں موجود کپڑوں کے سخت قانون کو توڑنے پر گرفتار کیا جائے۔

جبکہ دیگر سعودیوں نے اس خاتون کے دفاع میں آواز اٹھاتے ہوئے ان کی ’بہادری‘ کی تعریف کی ہے۔ سعودی عرب میں خواتین کے لیے عوامی مقامات پر ’عبایہ‘ کے ساتھ ساتھ حجاب پہننا لازم ہے۔

اختتام ہفتہ پر یہ ویڈیو ابتدائی طور پر سنیپ چیٹ پر شائع کی گئی تھی، جس میں خلود کو نجد صوبے کے اشیقر قلعے میں ایک خالی گلی میں گھومتے ہوئے دیکھایا گیا ہے۔ نجد صوبہ سعودی عرب کے قدامت پسند سوچ رکھنے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔

یہ ویڈیو جلد ہی ٹوئٹر پر بہت سے سعودیوں میں پھیل گئی جہاں اس حوالے سے آرا منقسم دکھائی دے رہی ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ خلود کو سزا ملنی چاہیے جبکہ دیگر کے خیال میں انھیں وہ پہننے کی اجازت ہونی چاہیے جو وہ پہننا چاہتی ہیں۔

صحافی خالد زیدان نے لکھا: ’(مذہبی پولیس) حیا کی واپسی اب ضروری ہوگئی ہے۔‘

ایک اور صارف کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’ہمیں ملک کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔ فرانس میں نقاب پر پابندی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کو جرمانہ کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں عبایہ وغیرہ جیسے لباس پہننا ریاست کے قوانین میں شامل ہے۔‘

مصنف اور فلسفی وائل ال جاسم نے کہا : ’میں یہ سب غصے اور ڈرا دینے والی ٹوئٹس دیکھ کر حیران ہوں۔‘

ان کا کہنا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے لگا اس خاتون نے کوئی دھماکہ کیا یا کسی کو قتل کر دیا ہے۔ کہاںی آخر میں ان کی سکرٹ کے بارے میں نکلی، جو انہیں پسند نہیں آئی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ وژن 2030 کیسے کامیاب ہوگا اگر انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے تو۔‘

بعض صارفین نے خلود کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے دوران ان کی اہلیہ اور بیٹی نے عبایہ یا حجاب نہ پہننے کا فیصلہ کیا تھا۔

کچھ کا کہنا تھا کہ اگر یہ خاتون غیر ملکی ہوتیں تو سب ان کے حسن کے بارے میں بات کر رہے ہوتے لیکن چونکہ وہ ایک سعودی ہیں اس لیے سب ان کی گرفتاری کا کہہ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp