پسند کی شادی اور مشرقی روایات


 دنیا میں آنے والی نت نئی تبدیلیوں کے ردّعمل کے طور پر انسانی شعور بھی مستقل ارتقاء پذیر ہے۔ قدیم زمانے سے لے کر آج کی جدید دنیا تک بنی نوع انسان کی تاریخ سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور معاشی سطح پر ہونے والی گوناگوں تبدیلیوں سے مرقع ہے۔ بدلتی ضروریات اور بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال لینے پر ہی نسلِ انسانی کی بقاء کا دارومدار ہے۔

جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی موجودہ روایات اور اخلاقی اقدار کا غیرجانبداری کے ساتھ ازسرِنو جائزہ لیا جائے، اور ایسی روایات و اقدار جو موجودہ زمانے میں میں انسانی زندگی کو سہل بنابے کی بجائے مسائل میں اضافے کا موجب ہیں، ان کو موجودہ حالات کے مطابق ترمیم یا تنسیخ کے عمل سے گزارا جائے۔ بہت سی روایات نسل در نسل منتقل ہوتی ہم تک پہنچی ہیں، مگر کیا وہ موجودہ دور میں ہمارے معاشرے پر مثبت اثرات مرتّب کر رہی ، یا پھر ہم صرف انہیں اپنے بزرگوں کا ورثہ سمجھ کر ان کے نتائج سے پہلوتہی کرتے ہوئے انہیں ایک مجبوری کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں۔

کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے معاشرے میں شادی کے ادارے اور خاندانی نظام کے ساتھ ہے۔ ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں لاتعداد والدین اپنی اولاد، خصوصاً لڑکیوں کے رشتوں کے حوالے سے پریشان نظر آتے ہیں۔ مناسب رشتے دستیاب نہ ہونے کے باعث ایک جانب تو بچے فرسٹریشن کا شکار ہیں، اور دوسری جانب والدین اسی فکر میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ مگر ستم یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اپنی مرضی سے شریکِ حیات چننے کا اختیار تقویض کرنے پر آمادہ نہیں۔ ایک جانب تو وراثت میں ملی ہوئی کہنہ روایات سے سرتابی کر پانے کے حوصلہ کی کمی ہے، اور دوسری جانب سماج میں بدنامی کا دباءو ہے۔

آج جب ہر طرح کی معلومات تک رسائی کے ذرائع بچوں کی دسترس میں ہیں، بلوغت سے شادی کے درمیان ایک طویل مدّت کا عرصہ ہے، جس کی طوالت میں اضافہ ہوتاچلا جا رہا ہے، مگر ہم ساتھ ہی اپنے بچوں سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ اپنے جنسی جذبات کے آگے بند باندھے رہیں، اور اپنے والدین کی عزت اور نیک نامی کی خاطر اپنے جسمانی تقاضوں کا گلا گھونٹ کر ذہنی اور نفسیاتی شکست وریخت کا شکار ہوتے رہیں۔ ہماری پیڑھی سے تعلق رکھنے والے لوگ بخوبی واقف ہوں گے کہ نوجوانی کے زمانے میں پورنوگرافی اور شہوت انگیز مواد تک رسائی اتنی آسان نہ تھی جتنی کہ آج ہے۔ وڈیو فلموں کی دوکانوں پر پر بلیوفلمز میسّر تو ہوتی تھیں، مگر ایک تو چھاپے کے ڈر سے صرف قابل ِاعتماد گاہکوں کو دی جاتی تھیں، دوسرا یہ کہ انہیں چھپا کر گھر لے جانا اور ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے تنہائی میسّر آنا بھی ایک کارِدارد تھا۔ پلے بوائے جیسے میگزین اور وہی وہانوی کے نام سے لکھی جانے والے شہوت انگیز ناول، پرانی کتابوں کی دکانوں پر چھپا کر رکھے جاتے تھے اور ہرکس و ناکس کے سامنے دکاندار ان کی دستیابی کا اعتراف کرنے سے بھی جھجکتے تھے۔

 زمانہ بہت تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ دنیا کمپیوٹر سے سمٹ کر لیپ ٹاپ، اور وہاں سے موبائل فون میں آ گئی ہے۔ یقین مانیں ہمارے بچے اور بچیاں سب دیکھتے اور سب جانتے ہیں۔ کبوتر کی طرح آنکھیں موند لینے سےاور خود کو طِفل تسلیاں دینے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔ اپنے بچوں کو جنس کے متعلق آگاہی دیں، انہیں مرد و عورت کے تعلق کے بارے میں آگاہی دیں، اعتماد کی دولت سے مالامال کر کے انہیں اپنا شریک ِحیات چننے کے لیے آزاد چھوڑ دیں۔ اپنے اوران کے درمیان دیواریں مت کھڑی ہونے دیں۔ یقیناً غلطیاں بھی ہوں گی، غلط فیصلے بھی ہوں گے، نقصانات بھی ہوں گے، مگر سوسائٹی اسی طرح چل کر، گرتے  سنبھلتے سیکھتی ہے۔

جمود صرف گھٹن اور منافقانہ رویّوں کو جنم دیتا ہے۔ اور یہ گھٹن ایسی ہی جنسی محرومی اور فرسٹریشن کا شاخسانہ بنتی ہے، جس کا ہماری سوسائٹی آج شکار ہے۔ یقین مانئیے اپنی بیٹیوں یا بہنوں کو پسند کی شادی کا حق دینا بے غیرتی نہیں، بلکہ معاشرے میں ہونے والے ظلم، ناانصافی اور کرپشن کے خلاف کھڑا نہ ہونا بے غیرتی ہے۔ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو عزت اور غیرت کی سولی پر لٹکائے رکھنا بے غیرتی ہے۔ آپ ان جاگیردارانہ سماج کی گلی سڑی نشانیوں کو کب تک سینے سے لگائے رکھیں گے۔  اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ہم اپنے معاشی مسائل کے ہاتھوں مجبور ہیں، اور تعلیم یافتہ ذہن آزاد سوچ اور خودمختاری کا متقاضی ہے۔ ہم اپنی ہٹ دھرمی سے کچھ عرصہ تک تبدیلی کو اپنے گھر کی دہلیز پار کرنے سے روک تو سکتے ہیں، مگر تیزی سے بدلتے زمانے کو کون روک سکتا ہے۔ آپ نے اپنے گرد جو دیواریں کھڑی کر لیں ہیں، ان کے باہر کی دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اگر آپ نہیں بدلیں گے، تو آپ کی آنے والی نسل کو اپنی سوچ تبدیل کرنی پڑے گی۔ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے اور دوسروں کےلیے آسانیاں پیدا کرنے میں خود پہل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).