ڈسکہ کے شرم و حیا والے باکردار تاجر


کل سے انٹرنیٹ پر ویڈیو چل رہی ہے کہ تین عادی مجرم عورتوں اور ان کے دو عادی مجرم مرد ساتھیوں کو چند باکردار حمیت و غیرت والے تاجروں نے راہ راست پر لانے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ ویڈیو میں یہ تو نہیں دکھایا گیا کہ وہ خواتین کیا چوری کر رہی ہیں، مگر ہمیں ان ایماندار تاجروں کی بات پر پورا یقین ہے۔ اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ خواتین نے چوری کی ہے تو مزید کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے رنگے ہاتھوں مجرم پکڑا ہے تو انہیں ہی سزا دینے کا بھی پورا اختیار حاصل ہے۔

بظاہر یہ پورا ٹولا نہایت شریف لگ رہا ہے۔ انہیں کوئی دیکھ کر سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ معصوم صورت افراد کا یہ پانچ رکنی گروہ عادی مجرم ہو گا۔ ہمیں یقین ہے کہ کپڑے انہوں نے ہی چرائے ہوں گے۔ لیکن ان کی خوش قسمتی کہ وہ ایسے نرم دل افراد کے ہتھے چڑھے جو خوف خدا رکھتے تھے۔ ورنہ یہ ڈسکہ ادھر سیالکوٹ کے نزدیک ہی واقع ہے جہاں اتنی سختی کی جاتی ہے کہ محض چوری کا الزام لگنے پر ہی دو معصوم سے بچوں کو ہجوم نے زندہ جلا ڈالا تھا جبکہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے یہ چور زندہ نہیں جلائے گئے۔

ایک سیاہ داڑھی والے برگزیدہ شخص منصف بنے اور پانچوں مجرموں، یعنی تینوں خواتین اور دو مردوں کو سامنے بٹھا کر انہوں نے انصاف کرنا شروع کیا۔ اسے کوئی غیر قانونی نجی عدالت مت سمجھیں، قاعدے قوانین کی پابندی کا پورا خیال رکھا گیا تھا۔ اسی وجہ سے اس عدالتی کارروائی کے دوران خاص اہتمام سے کئی موبائل فونوں پر ویڈیو بنائی جاتی رہی تاکہ ثبوت رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ اب اصل مجرم تو ظاہر ہے کہ مرد تھے، مگر غالباً اس سبب سے ان کو سزا دینا ان رحم دل افراد نے مناسب نہیں سمجھا کہ چوری کا الزام زنانہ کپڑوں کا تھا۔ ویسے بھی وہ دونوں مرد بری طرح سے رو رہے تھے اور ایک نے تو اپنا فیڈر پینا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اب اگلا مسئلہ یہ تھا کہ تینوں خواتین میں سے سرغنہ کون ہے جسے جرم کی سزا دی جائے۔

تینوں خواتین کا بغور جائزہ لیا گیا۔ پہلی اور دوسری خاتون کی گود میں ایک ایک مرد بچہ تھا۔ ان کو سزا دی جاتی تو بچے بھی زد میں آ سکتے تھے اور کوئی منصف مزاج شخص ایک ڈیڑھ برس کے چھوٹے بچے کو سزا دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس لئے جلاد کے فرائض ادا کرنے والے نورانی صورت والے بزرگ نے تیسری خاتون کو سرغنہ قرار دیتے ہوئے اسے چٹیا سے پکڑ کر زمین پر لٹا دیا۔ یہ گمان کرنا درست نہیں ہے کہ اسے اس بری طرح جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے لئے منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ سب سے زیادہ خوبصورت اور کم عمر تھی۔ وہ تو بس شکل سے ہی چوروں کی سردار لگتی تھی۔

ان بزرگ پر اس خاتون کو اس کے خوبرو ہونے کی وجہ سے منتخب کرنے کا الزام لگانا اس وجہ سے بھی غلط ہے کہ آپ ویڈیو دیکھیں گے تو آپ ان نورانی صورت والے بزرگ کو اس بات کی داد دینے پر مجبور ہو جائیں گے کہ غم و غصے اور دیگر جذبات سے بے قابو ہونے کے باوجود انہوں نے اس نامحرم خاتون کے بالوں کو چھونے سے مکمل طور پر اجتناب کیا اور اس کے بالوں کو اسی کی اوڑھنی کے ذریعے پکڑ کر اسے زمین پر ڈھا دیا اور اس کے چہرے کو بے پردہ کر دیا۔ ان کا مقصد صرف چور عورت کی ویڈیو بنانا تھا تاکہ شہر کے دیگر افراد اس کی شکل خوب پہچان لیں اور وہ آئندہ کسی کو نہ لوٹ سکے۔

اس گروہ کے مرد بدمعاشوں نے شور مچا مچا کر اور رو پیٹ کر انصاف کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی بہت کوشش کی۔ ایک نے تو فیڈر پینا بھی چھوڑ دیا تھا اور لگاتار دلخراش انداز میں روئے جا رہا تھا۔ مگر انصاف کی راہ میں کوئی چھوٹی موٹی رکاوٹ آئے تو اسے نظرانداز کر دینا چاہیے۔ اس لئے بزرگ نے تمام تر توجہ اسی خاتون کی طرف مبذول رکھی اور ہاتھاپائی کرتے ہوئے اس کے منہ سے کپڑا ہٹانے کی کوشش میں مشغول رہے۔ اس دوران محض فوٹوگرافی کے پوائنٹ سے انہوں نے دوسرا ہاتھ اس کم سن عورت کے گریبان پر ڈالے رکھا تاکہ اس چور کا چہرہ کیمرے میں واضح دکھائی دے۔

عوامی عدالتیں ہی انصاف کرتی اور سزا دیتی اچھی لگتی ہیں۔ خواہ وہ اس نیک مقصد کی خاطر کسی شخص کو زندہ ہی کیوں نہ جلا دیں، اس کی لاش کی بے حرمتی کریں، یا وحشت کی ہر حد عبور کر جائیں۔ خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہلانے والے مغربی ایجنٹ کہیں گے کہ ایسے معاملات میں بعد میں اکثر یہ علم ہوتا ہے کہ الزام غلط تھا اور کسی بے گناہ کو مار دیا گیا ہے، مگر ایسی چھوٹی موٹی باتوں کو خاطر میں لا کر عوامی انصاف کا سلسلہ منقطع کرنا اور ایسا کرنے والوں کو سزا دینا تو ریاست کے لئے مناسب نہیں ہے۔

اہل ڈسکہ کی اس مارکیٹ کے ان تاجروں کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ آج کل تو یہ لگتا ہے کہ ہر شخص ہی چور ہے۔ کوئی ٹیکس چراتا ہے، کوئی بجلی چوری کرتا ہے، کوئی گاہکوں کو دھوکہ دیتا ہے، کوئی ملاوٹ کرتا ہے، کوئی جعلی مال بیچتا ہے، کوئی حکومتی احکامات کے مطابق بازار کو کھولنے بند کرنے سے انکار کرتا ہے، مگر شکر ہے کہ اس مارکیٹ کے یہ جرم سے متنفر تاجر ایسے نہیں ہیں۔ ان کی چوری سے نفرت دیکھ کر پوری قوم کو ان کی تعریف کرنی چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ خود ایک پیسے کی ہیراپھیری میں بھی ملوث نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی ہم میں سے بیشتر پاکستانیوں کی یہی رائے ہے کہ بندہ حقوق اللہ پورے کرتا رہے تو اس کی نجات کے لئے وہی بہت ہوتا ہے۔ خدا غفور و رحیم ہے، اس سے توقع کرنی چاہیے کہ حقوق العباد کو معاف کر دے گا۔ ضمیر زیادہ ستانے لگے تو ہر برس حج کر کے اور رمضان کے آخری عشرے میں حرم پاک میں اعتکاف میں بیٹھ کر گناہ معاف کرائے جا سکتے ہیں۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar