برصغیر کی سیاست میں عورت کہاں؟


برصغیر کی تقسیم پر آج تک جتنا کچھ رقم ہے وہ مرد کے قلم سے لکھا گیا ہے اور تحریک آزادی میں خواتین نےجتنا بھر پور کردار ادا کیا اس کو نمایاں طور پر سامنے نہیں لایا گیا۔

کانگریس اور مسلم لیگ کی جماعتوں میں ہر چھوٹے بڑے کام کو جہاں طلباء نے انجام دیا وہیں عورتوں نے ان لیڈروں کی خاطر داری سے لے کر جھنڈے بنانے تک سارے کام نبھائے مگر ان کارکنوں کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں محال ہی ملتا ہے۔ یہاں تک کہ آزادی کے بعد نئی مملکتوں نے بھی ان عورتوں کی محنت کو کبھی نہیں سراہا۔

کراچی کے مصطفی بن ابراہیم اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں کہ جب انیس سو بیالیس میں محمد علی جناح علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کو منظم کرنے کی غرض سے آئے تو انہوں نے تحریکِ آزادی میں خواتین کی شمولیت پر زور دیا جس کے نتیجے میں پہلی بار علی گڑھ کی چند طالبات مسلم لیگ کے جلسے جلوس کرانے میں پیش پیش رہیں۔

ابراہیم نے اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہا ’جناح نے کہا کہ جس تحریک میں طلباء خصوصا عورتیں شامل نہیں ہوتیں وہ تحریک آدھی ہوتی ہے۔ ان کی بات سن کر اور فاطمہ جناح کی تحریک میں دلچسپی دیکھ کر کئی مسلم طالبات اپنے خاندانوں کے اعتراض کے باوجود تحریک آزادئ پاکستان میں شامل ہوگئیں‘۔

مسلم لیگ کا وجود جب ڈھاکہ میں قائم ہوا تو بنگال کی خواتین نے اس کا والہانہ خیر مقدم کیا۔ عورتیں بطور رضاکار مہم میں شامل ہوئیں جن میں مغربی بنگال کی رقیہ جعفری پہلی بنگالی خاتون تھیں جو محمد علی جناح سے ملیں اور بعد میں تحریک پاکستان کی کامیابی کے لیے کام کرتی رہیں۔

رقیہ جعفری کہتی ہیں ’محمد علی جناح کو دیکھ کر بنگال کی عورتوں میں عجیب سا ولولہ پیدا ہوا وہ جوق در جوق بطور رضاکار مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کرتی رہیں‘۔

بنگال کے مقابلے میں علی گڑھ اور لکھنو کے مسلمان گھرانوں میں انتشار کی کیفیت تھی اور ان خاندانوں کے مالک علیحدہ وطن کی تحریک کی مخالفت کرنے لگے۔

بھارت کے مشہور نقاد ادیب اور دانشور آل احمد سرور کی صاحبزادی مہ جبین ان دنوں چھوٹی تھیں مگر والد کے اس انتشار کو محسوس کر سکتی تھیں۔ ’ہمارے گھر میں ادیبوں، دانشوروں کی خوب محفلیں جمتی تھیں جن میں پرتھوی راج کپور، ظہیر عباس، رضیہ باجی، مجاز اور جوش وغیرہ تقسیم ہند کی مخالفت میں بحث ومباحثہ کیا کرتے تھے۔ ہمیں دن بھر چائے اور کھانا پکانا پڑتا تھا۔کانگریس کے جھنڈے بنانا بھی ہمارے ذمے تھا مگر جب پاکستان بنا تو سرور صاحب اور ان کے رفقا پر کئی روز تک عجیب سی کیفیت طاری رہی‘۔

بھارت اور پاکستان میں منقسم خاندانوں کی لاکھوں خواتین کافی عرصے تک نفسیاتی دباؤ میں مبتلا رہیں کیونکہ خوابوں اور خیالوں میں خون ریز تصادم عصمت دری اور لوٹ مار کی باز گشت سنائی دیتی رہی۔

برصغیر کی مشہور شاعرہ کشور ناہید نے تقسیم کے حالات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تخیل میں جس ہندوستانی عورت کا تصور تھا وہ تقسیم کے سانحے نے پاش پاش کر دیا اور سہانے بچپن کے یادوں کی جگہ پرتشدد اور دہشت ناک واقعات نے لے لی۔’میرے تصور میں پاکباز، پروقار اور باعزت ہندوستانی عورت تھی جس کا دامن مذہبی جنونیت نے داغ داغ کر دیا اور اس کے پیروں کے چھالوں نے بربریت کی داستان رقم کر دی۔ ستم یہ کہ عزت کی نیلامی کو سیاست کا آکسیجن بنا دیا گیا‘۔

برصغیر کی لاکھوں عورتیں سمجھتی ہیں کہ ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی مرد سیاست دان تقسیم کی سیاست سے باہر نہیں آ سکے ہیں جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ملکی سیاست میں عورتوں کی شمولیت کو جان بوجھ کر صفر کے برابر رکھا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).