ملکہ پکھراج، ریاض خیرآبادی اور عین وقت افطار


اپنی کتاب، “یہ لاہور ہے” میں ابوالحسن نغمی لکتے ہیں،

“رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ یہ واقعہ پرانے ریڈیو اسٹیشن کا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ رمضان میں ریڈیو سے حمد و نعت، کلام اقبال اور روزے کے فضائل پر تقریرییں نشر ہوا کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں بے ضرر قسم کی غزلیں اور ہلکی پھلکی موسیقی کے نشر ہونے میں بھی چنداں مضائقہ نہیں خیال کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ لیکن ایک دن کیا ہوا کہ عین افطار کے وقت ایک نہایت مشہور و مستند گلوکار خاتون نے ریاض خیر آبادی کی مشہور غزل “ہم بھی پئیں، انہیں بھی پلائیں تمام رات ” گانا شروع کر دی۔ اس غزل کے دو شعر آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

شب بھر رہے کسی سے ہم آغوشیوں کے لطف

ہوتی رہیں قبول دعائیں تمام رات

تا صبح میکدے سے رہی بوتلوں کی مانگ

برسیں کہاں یہ کالی گھٹائیں تمام رات

مسعود چشتی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ عمر رسیدہ گانے والی عین افطار کے وقت سٹوڈیو میں پہنچ کر یہ واردات فرمائیں گی ۔۔۔۔۔ اب روک تھام ممکن نہ تھی۔ وہ غزل گا کر سٹوڈیو سے باہر تشریف لائیں اور مسعود چشتی نے کہا، “یہ عین افطار کے وقت آپ نے ریاض خیر آبادی کی غزل گا کر بڑا غضب کیا ہے۔”

“غزل تو غزل ہے۔ اس کا افطار سے کیا تعلق؟ انہوں نے چشتی کے اعتراض کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا۔

مجھے یقین ہے کہ مجھ سے جواب طلب کیا جائے گا۔

“ارے یہ تو پھر ہوتا رہتا ہے۔” انہوں نے ہنستے ہوئے کہا اور وہ مسلسل اپنی کار کی طرف بڑھتی رہیں اور چشتی کار تک برابر ان کے ساتھ چلتے رہے اور اپنی پریشانی اور اندیشوں کا اظہار کرتے رہے۔

وہ ایوب خان کا زمانہ تھا اور خاتون کے خاندان کے ایک فرد کا حکومت میں بڑا اعلی مقام و مرتبہ تھا۔ چشتی خاتون کا کار تک رخصت کر کے ڈیوٹی روم میں واپس آ گئے۔۔۔ اتفاق دیکھیے کہ ریاض خیر آبادی کی غزل گانے کا مطلق کسی نے نوٹس ہی نہ لیا۔ ۔۔۔

یہ تو رہا ابوالحسن نغمی کا بیان۔ اور اب یہ بھی سن لیجئے کہ وہ گانے والی خاتون ملکہ پکھراج تھیں اور حکومت وقت میں حکومت میں “اعلی مقام و مرتبہ” رکھنے والے صاحب ایس ایم ظفر ان کے داماد تھے اور ایوب حکومت میں وفاقی وزیر قانون تھے۔

یہ غزل ایسے پھڑکتے ہوئے مضامین سے مرصع ہے کہ دو اشعار سے آپ جیسے اصحاب ذوق کی کیا تسلی ہوئی ہو گئی۔ لیجئے، پوری غزل نذر ہے۔ اور پھر دو آتشہ کی مناسبت سے یہی غزل ملکہ پکھراج کی زبانی سن بھی لیجئے۔ الحمدللہ، آج کل ماہ صیام گزرے قریب تین ہفتے ہونے کو آئے۔

ہم بھی پئیں تمہیں بھی پلائیں تمام رات

جاگیں تمام رات، جگائیں تمام رات

زاہد جو اپنے روزے سے تھوڑا ثواب دے

مے کش اسے شراب پلائیں تمام رات

تا صبح مے کدے سے رہی بوتلوں کی مانگ

برسیں کہاں یہ کالی گھٹائیں تمام رات

شب بھر رہے کسی سے ہم آغوشیوں کے لطف

ہوتی رہیں قبول دعائیں تمام رات

ان کی جفائیں یاد دلائیں تمام رات

وہ دن بھی ہو کہ ان کو ستائیں تمام رات

کاٹا ہے سانپ نے ہمیں سونے بھی دو ریاضؔ

ان گیسوؤں کی لی ہیں بلائیں تمام رات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).