ذکر ایک آن لائن سچے اور مقبول صحافی کا ….



\"ramish\"اخبار میں خدا معلوم کیا لکھا تھا، گناہگا ر ا ٓنکھوں نے صرف یہ پڑھا کہ’ ’اگر ٹیلی ویژن کا مائیک پکڑ کر ’علم‘ کے نام پر جہالت پھیلانے اور دوسروں کو واجب القتل قرار دینے پر تالیاں پٹوانے والوں سے حساب لیا جائے، آمریت کی چھتر چھایا تلے وزارت کے مزے لوٹنے کے دوران مدرسوںمیں بچوں پر ہونے والے ظلم کا اعلان کر کے چپ سادھ جانے والوں کا گریبان پکڑا جائے، اور ابلاغ کے نام پر تفرقہ پھیلا نے والوں سے نواب شاہ کے مظلوموں کے خون ناحق کا حساب لیا جائے تو انصاف کا ایوارڈ حاصل کیا جا سکتا ہے ….کوشش کر کے تو دیکھئے “

یہ بھی ممکن ہے کہ اخبار میں ایسی حقیقتوں کی بجائے محض مردہ لفظ لکھے ہوں جن پر سستے مفاد کی مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ۔ بات بہر حال سمجھ میں آ رہی تھی ۔

بہت ہی نازک صورتحال ہے یعنی آثارِقیامت ہیں کہ وہ اتنے برسوں سے اس ملک کی اور الیکٹرانک میڈیا کی خدمت کر رہے ہیں مگر کسی کو ان پہ ڈاکومینٹری بنانے کا خیال تک نہیں آیا۔

اب وہ ایک معروف اینکر ہیں ،اس سے پہلے وہ ایک ممتاز مذہبی اسکالر تھے، اس سے پہلے وہ وزیر تھے،اور اس سے پہلے ایک عام آدمی تھے جس نے ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔تب سے اب تک کی معلوم اور نامعلوم روداد وہ اپنی آپ بیتی میں لکھیں گے یا کوئی اور لکھے گا جو اس قادرالکلام ہستی پہ پی ایچ ڈی کرنے کا خواہشمند ہو۔

مذہب کے ادنی طالبِ علم کی حیثیت سے آن لائن پروگرام ہو یا مذہب کے نام پہ الیکٹرانک میڈیا کا سب سے بڑا پروگرام انہوں نے پہلے اس سب کی روایت ڈالی اور پھر ہر سال کچھ نئی نوٹنکی، مطلب کچھ نیا طریقہ واردات متعارف کرانے میں بھی ہمیشہ کامیاب رہے۔

انہیں مرزا غالب اور آم سے خاصی رغبت ہے۔

فردوس کی لان سے میزان کی بائیک تک کا سفر کس قدر تھکانے والا ہے مگر چہرے پہ تھکن کے آثار تک نہیں ، دس ، بارہ، چودہ گھنٹے کی مسلسل بھاگ دوڑ ہے، کھانا بنانا بھی سکھانا ہے، قرعہ اندازی بھی کرنی ہے، اس بیچ کہیں کہیں مذہب کا تڑکا لگا کر رمضان شو کا بھرم بھی رکھنا ہے، بچھڑے بچوں کو ماں باپ سے ملوانا ہے، کسی غریب کو ٹھیلہ دلانا ہے،عمرے کے لئے ترسنے والوں کو عمرہ ٹکٹ مل جائے ، لیپ ٹاپ کا سوالی ہو یا اولاد کا، اس در سے خالی ہاتھ کوئی کیسے جا سکتا ہے۔ بات نگاہِ شوق کی ہو یا نمازِ عشق کی سب ملے گا مقاماتِ مقدسہ پر…. اور وہ بھی آئن لائن۔

وہ جو قوم کے زخم قوم کو دکھا کر ریٹنگ حاصل کرتے ہیں، ناسور بیچتے ہیں ، زخموں سے بہتی پیپ دکھاتے ہیں اور ان پہ تالیاں بجواتے ہیں ، دکھی کہانیوں پہ حاضرین و ناظرین کو رلاتے ہیں،وہی دکھی کہانیوں کا منجن بیچنے والے، رمضان کی دکان کامیابی سے چلانے والے ، ایک شدید زخمی صحافی سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوانے والے، زبان و بیان پہ قدرت رکھنے والے، ہر مقدس دن چینل کی اسکرین پہ نور کی روشنی پھیلانے والے کہتے ہیں کہ زخم شرمین نے بیچے ہیں۔

ہوا میں تیر چلاﺅ…. اے مسلمانو
چینل پہ مذہب بیچو….اے مسلمانو
بس عقل سے دور ہی رہنا
اور فکر سے بچ کے رہنا

ان سے کیا کہنا کہ وہ تو شہرہ آفاق ہیں، مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں اور انہوں نے …. فلم غالب بھی دیکھ رکھی ہے ۔

آپ سے بس اتنا کہنا ہے کہ تیزاب کے جواب میں تیزاب پھینکنے اور قصاص کہنے سے بہتر ہے کہ آپ صرف ان سب کو سزا دلوا دیں جو یہ جرم کر چکے ہیں ، آپ کچھ کر سکیں تو تیزاب کی کھلے عام فروخت بند کرائیں ،انکار کا حق عورت بھی استعمال کر سکتی ہے اس کو تسلیم کریں۔تشدد اور نفسیاتی عوارض میں مبتلا قوم کو تشدد کی نئی راہ مت دکھائیں۔ میں جانتی ہوں بہت تکلیف دہ ہے تیزاب کو جھیلنا، اہنے خوبصورت چہرے کو مسخ ہوتے دیکھنا، شاید کچھ لمحے کو وہ لڑکی بھی ایسا ہی سوچتی ہو لیکن یہی اس کا ظرف ہے کہ اس نے یہ تکلیف دیکھ لی ہے اس کا انتقام بس یہی ہے کہ وہ اپنے مجرم کے لئے سزا کی سوالی ہے اور چاہتی ہے کہ انسان رنگوں سے ہولی کھیلیں۔ تیزاب سے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments