احتساب، سازش اور جمہوریت کا مستقبل


پانامہ کی جے آئی ٹی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرچکی ہے اور اس میں موجود اسقام پر اعتراضات کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ سازش کی بات تو ہو رہی ہے لیکن سازش کا محرک کون ہے اس کا اظہار ابھی کھل کر نہیں کیا گیا۔ بادی النظر میں ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہو سکتا ہے۔ انفرادی یا گروہی حیثیت میں کچھ لوگ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہوسکتے ہیں لیکن یہ شواہد موجود نہیں ہیں کہ کوئی سازش باقاعدہ ترتیب دی گئی ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی بھی اس نادر سیاسی موقع سے فائد ہ اٹھانا چاہتی ہیں لیکن دونوں جماعتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ایک منتخب وزیراعظم کو مبہم ثبوتوں کی بناپرقانونی تقا ضے پورےکیے بغیر منصب سے ہٹایا گیا تو یہ بھٹو کیس کے بعد ایک اور بدترین مثال ہوگی۔

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں جمہوری ارتقاء پر نظر ڈالیں تو حالات خوش کن نہیں ہیں۔ پاکستان بابائے قوم قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں ووٹ کی بنیاد پر وجود میں آیا، لیکن قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات، پھر دو برس بعد قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل، نظریہ ضرورت کی سیاسی بدعت اور آئے روز بدلتی حکومتوں نے پنڈت نہرو کو دھوتی کی پھبتی کسنے کا موقع دیا۔ سیاسی انتشار کا یہ عالم تھا کہ اکیس ستمبر انیس سو اٹھاون کو آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامے کے دوران ڈپٹی سپیکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انیس سو اٹھاون میں صدر اسکندر مرزا نے چھپن کا آئین منسوخ کرکے مارشل لا نافذ کردیا اور بارہ رکنی کابینہ کا وزیراعظم چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان بنا، آج کی سیاست میں جمہور کے علمبردار کی پہچان رکھنے والا نوجوان ذوالفقار علی بھٹو ایوب کابینہ میں وزیر تجارت تھا۔

ایوب خان نے اقتدار پر مکمل قبضے کے لئے اسکندر مرزا کو برطرف کر کے زبردستی جلاوطن کیا اور صدارت پر قبضہ کرلیا۔ جمہور پسند مغرب کے تعصب کا اندازہ کیجئے کہ ہاورڈ یونیورسٹی کے معروف امریکی ماہر سیاسیات سیموئل پی ہٹنگٹن نے ایوب کو روسو اور افلاطون کے پائے کا رہنما اور اس کے بنیادی جمہوریت کے نظام کو ایک شاندار ایجاد قرار دیا لیکن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح آمریت کے خلاف وہ پہلی آواز تھی جس کی گونج پاکستانی سیاست کے میدان میں بہت بلند آہنگ تھی۔ عوام نے ان کی آواز پر لبیک کہا لیکن ایوب خان کی آمریت نے دھاندلی کے ذریعے ماد رملت کو انیس سو پینسٹھ کے صدارتی انتخابات میں شکست دے دی۔ جون انیس سو چھیاسٹھ میں معاہد ہ تاشقند کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایوبی وزارت چھوڑ دی اور پھر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ایوب خان نے اقتدار پر گرفت کمزور پڑتی دیکھی تو اپنے ہی بنائے گئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار جنرل یحیی کے سپرد کردیا۔

دسمبر انیس سو سترمیں جنرل یحیی نے ملک میں پہلے عام انتخابات کرائے۔ سیاسی تقسیم واضح تھی، شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی کل تین سو میں سے ایک سوساٹھ نشستیں حاصل کرلیں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی صرف اکیاسی نشستیں حاصل کر سکی۔ بھٹو اقتدار میں شراکت چاہتے تھے جس پر شیخ مجیب تیار نہ تھے دوسری طرف جنرل یحیی کے ذاتی مفادات تھے۔ جنرل یحیی نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا جس کا منطقی انجام سقوط ڈھاکہ کی صورت میں سامنے آیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا۔ بعد میں ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا، مذاکرات کے ذریعے بھارت سے جنگی قیدیوں کو واپس لائے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی لیکن ان کی نیشنلائزیشن پالیسی، ایف ایس ایف اورپیپلزگارڈز کے قیام سے نہ صرف فوج بلکہ عوام میں بھی تشویش پیدا ہوئی۔

پیپلزپارٹی کے اندرونی خلفشار اور حالات نے حزب اختلاف کو حکومت مخالف تحریک پر آمادہ کردیا۔ بدقسمتی سے عوامی احتجاجی مظاہروں پر پولیس کی فائرنگ سے دو سو افراد جاں بحق ہوگئے۔ حالات اس قدر بگڑے کہ کراچی، لاہور اور حیدرآباد میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا۔ سات جنوری انیس سو ستتر کو وزیر اعظم نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کردیا۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہیں صرف چار دن میں ساری اپوزیشن قومی اتحاد کی چھتری تلے جمع ہو گئی۔ قومی اتحاد نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور ملک گیر مظاہرے شروع ہوگئے۔ حکومت اور قومی اتحاد کے مذاکرات کامیاب ہو ئے ہی تھے کہ آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی انیس سو ستتر کو مارشل لا نافذ کردیا۔ ضیا ء الحق کی پالیسوں کے نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد محمدخان جونیجو وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن ضیا ء الحق نے تین برس بعد ان کی حکومت برطرف کرکے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔

انیس سو اٹھاسی کے انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوگئیں لیکن آمریت کے ہاتھوں ادھ موئے نظام اور سیاسی کش مکش کی وجہ سے انیس سو ننانوے تک چار منتخب حکومتیں برطرف کی گئیں۔ بارہ اکتوبر انیس ننانوے کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر مارشل لا نافذ کردیا۔ پرویز مشرف کی صورت میں جو غلیظ جونک وطن عزیزکے بطن سے چمٹی تھی اس سے جان کس طرح چھوٹی یہ کہانی ابھی پاکستانی عوام کو یاد ہے۔ اٹھارہ فروری دو ہزارآٹھ کے انتخابات ہوئے اور پیپلزپارٹی نے مرکز میں اتحادی حکومت قائم کی۔ پیپلزپارٹی اقتدار میں تو آ گئی لیکن دہشتگردی پر قابو پایا جاسکا نہ ہی توانائی کے بحران پر۔ کرپشن کے سکینڈلز کی خبریں عام ہوگئیں۔ سپریم کورٹ نے بدعنوانی سے متعلق ایک مقدمے میں حکم عدولی پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کونا اہل قرار دے دیا۔

راجہ پرویز اشرف نئے وزیراعظم منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر گیارہ مئی دوہزار تیرہ کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے سربراہ محمد نواز شریف بھاری اکثریت سے تیسری بار وزیراعظم منتخب کر لئے گئے۔ ملکی تاریخ میں عوام کو یہ مبارک دن پہلی بار نصیب ہوا کہ انتقال اقتدار کا مرحلہ جمہوری طریقے سے پرامن طور پر ممکن ہوا۔ تحریک انصاف نے دھاندلی کے نام پر تین برس تک خوب دھماچوکڑی مچائے رکھی اور دھرنوں کو ٹی وی سکرینوں پر کھڑکی توڑ کامیابی بھی حاصل ہوئی لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ضمنی انتخابات میں اسے پے در پے بدترین شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں حکومت نے دہشتگردی اور توانائی کے بحران پر قابل ذکر حد تک قابو پالیا۔ لیکن پھرپانامہ کا ہنگامہ برپا ہوا اوراس کے بعد کے حالات روز کی کہانی ہیں۔

اس وقت بھارت اور امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کسی بڑے حادثے سے دوچار ہوجائے کیونکہ اسے خطے میں پاکستان، چین اور روس کی نئی ابھرتی ہوئی تکون کسی صورت قابل قبول نہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ چومکھی لڑائی میں مصروف پاکستانی فوج اب کسی بھی سازش کو حصہ بننے کو تیار نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں پاکستانی ریاست کے ہر ادارے کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی ملکی آئین اور قانون کے تحت پوری دیانتداری کے ساتھ قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ادا کرے۔ بدعنوانی کا مرتکب کوئی بھی ہو، احتساب سے انکار کسی کو نہیں لیکن باسٹھ تریسٹھ کا قانون انتہائی مبہم اورایک آمر ضیاء الحق کا آئین کے گلے میں ڈالا ہوا طوق ہے۔ یہ قانون کسی بھی پاکستانی کے خلاف کسی بھی وقت آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے اثرات کو بھگتنا آسان نہیں ہوگا۔ ویسے بھی کسی کے پارسا یاگناہ گار ہونے کا فیصلہ خالق کائنات کو ہی زیب دیتا ہے، انسان کا منصب عاجزی ہے۔ اس لئے وطن عزیز کی بھلائی اسی میں ہے کہ انصا ف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ انصاف کا بول بالا ہی ملکوں کو ترقی کی منزل سے ہمکنار کیا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).