دل ہے کہ مانتا نہیں


مارشل لاءکا مطلب دُنیا بھر میں آزادی¿ اظہار پر کڑی پابندیاں، فوجی عدالتیں اور آزادمنش ذہنوں کو سخت سزائیں سنانا تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جنرل ضیاءکے لگائے مارشل لاءنے صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو برسرِ عام کوڑے مارنے کی ”اسلامی روایت“ بھی متعارف کروائی تھی۔ مارشل لاءسے جڑی ان سب خصوصیات کے سبب اس کا نفاذ نام نہاد ”مہذب دُنیا“ کے لئے ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
”انسانی حقوق“ سے منافقانہ محبت کے باوجود صدر اوبامہ جیسا شخص بھی مصر میں جنرل السیسی کی اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار براہِ راست اور صاف شفاف انتخاب کی بدولت منتخب ہوئے صدر کے خلاف بغاوت کو ”فوجی بغاوت“ کہنے کی جرا¿ت سے محروم رہا۔ وجہ اس کی محض یہ تھی کہ مرسی کا تعلق ”اخوان المسلمون“ سے تھا۔ اس جماعت کو ”مہذب“ دنیا ”بنیاد پرست“ تصور کرتی ہے۔ اسلامی شریعہ کے نفاذ کی خواہاں ایک جماعت جس کی ”انتہا پسندی“ اکثر ”دہشت گردی“ کے فروغ کا باعث بھی ٹھہرائی جاتی ہے۔
تیونس میں لیکن نام نہاد ”عرب بہار“ کے بعد اخوان المسلمون سے ملتے جلتے خیالات کی حامل جماعت کو حکومت میں برداشت کیا گیا۔ امریکی اور یورپی میڈیا بلکہ اس حکومت کی ”اعتدال پسندی“ کو اکثر سراہتا نظر آتا ہے۔ تیونس کی اس جماعت میں ”اعتدال پسندی“ شاید اس لئے دریافت ہوپائی کہ وہ ملک اسرائیل کا ہمسایہ نہیں ہے۔ مصر بھی اگر اسرائیل کا ہمسایہ نہ ہوتا۔ اس کی فوج اردن کی فوج جیسی کمزور ہوتی تو شاید مرسی میں بھی کچھ ”اعتدال پسندی“ بالآخر ڈھونڈ ہی لی جاتی۔ اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے لیکن اس ”اعتدال پسندی“ کا انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جنرل السیسی کو Go Ahead کے اشارے ملے۔ وہ آگے بڑھا تو صدر اوبامہ نے بظاہر لاتعلقی کا ڈھونگ رچایا۔
بے تحاشہ آبادی مگر معاشی اعتبار سے بے وسیلہ مصر کو کاروبارِ حکومت چلانے کے لئے غیر ملکی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلم دُنیا میں ”استحکام“ کے خواہاں اور ”عرب بہار“ سے پریشان سعودی عرب نے مصر کے سرکاری خسارے کو برابر کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ بعدازاں ”ریفرنڈم“ جیسے انتظامات کے ذریعے جنرل السیسی مصر کا ”منتخب صدر“ بھی ہوگیا۔ امریکہ کو اب اس ”جمہوریت“ سے جپھیاںڈالنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ وہاں کے نو منتخب صدر ٹرمپ کو ویسے بھی روسی صدر ”پیوٹن“ جیسے طاقت ور لوگ پسند ہیں۔بھارت کا نریندر مودی بھی اپنی ہندوانتہا پسندی کے باوجود اسے اچھا لگتا ہے۔ماورائے عدالت قتل کے ذریعے ”منشیات کی لعنت“ کو ختم کرنے کا دعوے دار فلپائن کا صدر بھی ٹرمپ کا چہیتا ہے۔ ”انسانی حقوق“ کی بھارت اور فلپائن جیسے ممالک میں وحشیانہ پائمالی ٹرمپ کی انظامیہ کو لہذا نظر نہیں آتی۔ ایسا ہی ”بڑا دل“ تھائی لینڈ میں جاری فوجی حکومت کے بارے میں بھی دکھایا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا حوالے میں ان لوگوں کی خاطر دینے پر مجبور ہوا ہوں جو گزشہ کئی مہینوں سے خوش حال گھروں کے ڈرائنگ رومز میں رات کو سجائی محفلوں میں پاکستانی سیاست کی ”پھیلائی نااہلی اور بدعنوانی“ کا ماتم کرتے ہوئے وطن عزیز میں ایک اور مارشل لاءکے نفاذ کو ”ناممکن“ قرار دیتے ہیں۔ ”دُنیا کیا کہے گی؟“ جیسے سوالات اٹھاکر جی کو خوش کرتے ہیں۔
میرے کئی دوستوں کا انتہائی خلوص سے یہ دعویٰ بھی ہے کہ پاکستان ”مصر“ نہیں ہے۔ یہاں آزادی¿ اظہار کی روایت بہت پرانی ہے۔ 2002ءسے اس ملک میں باقاعدگی سے انتخابات ہورہے ہیں۔ اب تو خیر سے 24/7 بھی متعارف ہوچکے ہیں۔ ان چینلوں کے عقلِ کل بنے اینکر خواتین وحضرات اپنے خیالات کا اظہار انتہائی ”بے باک“ انداز میں کرتے ہیں۔ ان کی ”آزادی“ اور ”بے باکی“ کسی سنسر کو برداشت نہیں کرے گی۔
24/7 چینلوں کی ”مستعدی“ اور ”بے باکی“ کے حوالے دے کر جب پاکستان میں ”غیر جمہوری مداخلت“ کے امکانات کو رعونت سے رد کیا جاتا ہے تو میرا پنجابی والا ”ہاسا“ چھوٹ جاتا ہے۔ کیبل آپریٹرز کی قوت یاد آجاتی ہے۔ ”ذرائع“ کا احترام ملحوظِ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ضمن میں مزید کچھ لکھوں گا تو پنجابی کے ایک محاورے کے مطابق اپنے ہی پیٹ سے قمیض اُتارکر خود کو رسوا کروں گا۔ اپنی عزت چونکہ سب سے پیاری ہوتی ہے اور خود کا بھرم رکھنا بھی ضروری ہے،اس لئے اس موضوع سے گریز ہی بہتر ہے۔
”آزاد“ اور ”بے باک“ 24/7 چینلوں کے علاوہ جمہوری نظام کی دوسری طاقت ور محافظ ہماری آزاد عدلیہ تصور کی جاتی ہے۔ افتخار چودھری کی ایک ”تاریخی تحریک“ کے ذریعے بحالی نے اسے مزید آزاد بنایا ہے۔ ازخود اختیارات کے آئینی حق کو ارسلان کے ابو نے 24/7استعمال کرتے ہوئے ”نااہل اور بدعنوان“ سیاست دانوں کو ان کی اوقات میں رکھا۔ جمہوریت کو اس وجہ سے لیکن کوئی گزندنہ پہنچی ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بلکہ ”زیادہ مضبوط“ ہوگئی۔ شاید جمہوریت کی اس ”مضبوطی“ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان دنوں کے ”قائدِ جمہوریت“ میاں محمد نواز شریف صاحب کالا کوٹ پہن کر عدالت چلے گئے تھے۔ عدالت کے روبرو ایک ”میموگیٹ“ تھا۔ اس کیس کو اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے حلف نامہ کے ساتھ دئیے بیانات جمع کرواکے بہت تگڑا بنایا تھا۔ نتیجہ اس کا اگرچہ صرف حسین حقانی کے استعفیٰ کی صورت ہی برآمد ہوا۔
یوسف رضا گیلانی ایک اور مقدمے سوئس حکومت کو چٹھی کی وجہ سے توہینِ عدالت کے مرتکب قرار دے کر نااہل ہوئے۔ ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم منتخب کرلیا گیا۔ حسین حقانی کا ”سرپرست“ ٹھہرایا آصف علی زرداری مگر ایوانِ صدر میں براجمان رہا۔ ”دین بھی اور دُنیا بھی“ والی صورت خوش اسلوبی سے برقرار رہی۔ مارشل لاءنہیں لگا۔ 2013ءمیں بلکہ نئے انتخابات ہوئے جن کے نتائج نے پاکستان میں ”پہلی بار“ ایک منتخب حکومت کے ہاتھوں دوسری منتخب کو اقتدار کی منتقلی والی ”تاریخ“ بھی بنا دی۔
گزشتہ حکومت ”میموگیٹ“ کے باوجود اپنی ا ٓئینی مدت مکمل کرپائی۔موجودہ حکومت کو اب ”پانامہ گیٹ“ کا سامنا ہے۔ میرے دوستوں کا اصرار ہے کہ اس ”گیٹ“ کا انجام بھی میمو والے ”گیٹ“ جیسا ہوگا۔ نواز شریف نااہل قرار پائے تو مسلم لیگ نون میں سے کوئی راجہ پرویز اشرف ان کی جگہ لے گا۔ لہذا ”فکرناٹ“۔
جمہوری نظام کا تسلسل دیکھنے والے میرے دوستوں کے دلائل نظر بظاہر بہت معقول ہیں۔ میرا کم بخت دل ہے کہ مانتا نہیں۔ کیوں؟ اس سوال کاجواب چند دنوں بعد فراہم ضرور کروںگا۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).