ہم ان آوازوں کوخوب پہچانتے ہیں


خدا آپ کا بھلا کرے …صدیاں بیتیں ، نسلیں گزریں ، خطے دریافت ہوئے ، جغرافیے تبدیل ہوئے ، فاصلے سمٹے ، دریا رستے بھٹکے ، صحرا نخلستان ہوئے ، جہالت معدوم ہوئی ، علوم نے سکہ جمایا ، ایجادات نے تہلکہ مچایا ، تہذیب نے گل کھلائے ، کائنات کے راز کھلے ، ستاروں پہ کمندیں ڈلیں ، کہکشائیں آشکار ہوئیں ، اگلی دنیائوں کے رستے وَا ہوئے ، سر زمینیں آئین سے سرفراز ہوئیں ، قانون نے قدم جمائے ، آمریتیں پامال ہوئیں ، جمہوریت نے رنگ بکھیرے ، حقوق وا گزار ہوئے ، انسانیت مشرف بہ توقیر ہوئی ، شخصیات کا طلسم ٹوٹا، ادارے مضبوط ہوئے ، آزادی اظہار کا جادو سر چڑھ کر بولا…مگر کسی خطے میں اجاڑ مانگنے والے اُلو ہی بولے ، کالی بلیوں نے رستے ہی کاٹے اور قصے کہانیوں کے سہارے زندگی کی منزلیں سَر کرنے کے سوا کوئی ہنر نہ آزمایا گیا ۔ سو انہی روایات کی پاسدار ی میں آج آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں ۔
اٹھارہویں صدی کا قصہ ہے ۔ جنگل کے بیچوں بیچ اونچے ٹیلے پر وہ اکیلی ڈھوک تھی ۔ گھنے درختوں کے جھنڈ میں ایستادہ کچی ڈھوک کے محدود سے خاندان کو ”پن ڈراپ سائلنس‘‘ کا طلسمی ماحول میسر تھا ۔ پانچ چھ افراد کے اس کنبے کے کان چرند پرند کی آوازوں، آپس کی گفتگو یا حدی خوانوں کے لوک گیتوں کے سوا کم ہی کسی آواز سے آشنا تھے ۔ ڈھوک کے نشیب میں قدیمی رستہ تھا ،جہاں سے اکثر مال بردار اونٹوں کے قافلے گزرتے تھے ۔ دوران سفر رات کو اگلے اونٹ کا ساربان وقفے وقفے سے اونچی آواز میں ماہیے کا ایک مصرع گاتا اور جواب میں قطار کا آخری شتر سوار دوسرے مصرعے سے جنگل کی خاموشی کو چیرتا۔ قافلہ زیادہ بڑا ہوتا تو گاہے قطار کا درمیانی سوار بھی دوہڑے کا کوئی مصرع پڑھ کر اپنی خیریت سے مطلع کرتا۔ یوں قافلے کو تسلی ہو جاتی کہ سب خیریت سے جا رہے ہیں اور کوئی بھی بچھڑا یا ڈاکوئوں کے ہتھے نہیں چڑھا۔
ایک رات ڈھوک والوں کے اونٹ کا بچہ رسی کھل جانے کی وجہ سے ایسے ہی ایک ماہیے گاتے قافلے کے پیچھے روانہ ہو گیا ۔ اہل قافلہ نے بھی مفت کا مال سمجھ کر اسے اپنے ساتھ شامل کر لیا ۔ صبح مالکوں نے اپنے ٹوڈے کو ہر ممکن تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکا۔ ڈھوک کے مکین سمجھ گئے کہ اُسے قافلے نے چوری کرلیا ہے مگر آئے روز گزرنے والے قافلوں میں سے اُسے ڈھونڈنا کارِ دارد تھا ، سو وہ صبر و شکر کر کے بیٹھ گئے ۔ ڈھولے ماہیے گاتے قافلے گزرتے رہے اور بیس برس بیت گئے ۔ پھر گرمیوں کی ایک چاندنی شب جب اہل ڈھوک کھلی جگہ پر سو رہے تھے تو ایک شتر سوار قافلہ گزرا ۔ ساربان نے جونہی ماہیے کا مصرع اٹھایا ، ڈھوک کی بڑھیا چونک گئی اور چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ اس نے بیٹوں کو آواز دے کر جگایا اور کہا کہ یہ وہی آواز ہے …جس دن ہمارا ٹوڈا گم ہوا ،یہی شخص گاتا جا رہا تھا ۔ انہوں نے نیچے جا کر قافلے کو روکا تو سالار قافلہ نے تسلیم کیا کہ اتنا ہی عرصہ قبل یہاں سے ایک ٹوڈا ہمارے قافلے میں شامل ہو گیا تھا ۔
بہت ممکن ہے کہ اس ڈیجیٹل عہد میں آپ کو ایسے قصے فضول لگیں ، لیکن اگر آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں تو ایک پہلو سے ہم آج بھی اٹھارہویں صدی میں زندہ ہیں ۔ پرانے عہد کے لوگوں کو جدید سہولتیں میسر نہیں تھیں ۔ وہ محض اپنے تجربے کے زور پر زندگی کی گتھیاں سلجھاتے تھے ۔ چونکہ ان کے کان محدود سی آوازوں سے آشنا تھے ، سو برسو ں تک یہ آوازیں ان کے ذہنوں پر نقش رہتیں ۔ اگرچہ آج ہمیں سڑکیں ، موٹریں ،مشینیں، بجلی، ٹیلیفون ، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ جیسی جدید سہولیات میسر ہیں اور ہم لوگ دن رات کے بے ہنگم شور میں لا تعداد آوازیں سنتے ہیں ، جو یاد نہیں رہ سکتیں۔ تاہم کچھ نامعتبر سی آوازیں ہمارے سہمے ہوئے ذہنوں پر نقش ہیں ، جنہیں سن کر ہم ڈھوک کی بڑھیا کی طرح آج بھی چونک جاتے ہیں ۔ ہمیں جھرجھری سی آ جاتی ہے کہ یہ تو ہمارے مینڈیٹ کے ٹوڈ ا چوروں کی مخصوص صدائیں ہیں ۔ ہم ایسی آوازوں کو خوب پہچانتے ہیں کہ کئی دہائیوں سے سن سن کر ہم ان سے اچھی طرح آشنا ہو چکے ہیں ۔ یہ کوڑھ زدہ جمہوریت اورکرپشن کرپشن کی کرخت صدائیں ہیں ۔ ”ٹانگہ آ گیا کچہریوں خالی‘‘ اور ”ان کا ٹھکانہ جیل ہے‘‘ جیسی پھبتیوں کی سنگ باری ہے ، جس کی زد میں ہمیشہ سیاستدان ہی آتے ہیں اور دودھ سے دھلی دیگر اداروں کی ہستیاں صاف بچ نکلتی ہیں ۔
”میرے عزیز ہم وطنو ! ‘‘…ہمارے کانوں میں آج بھی ایوب خان کی یہ مینڈیٹ چور آواز گونجتی ہے ۔ جس نے کرپٹ اور نا اہل سیاسی رہنمائوں کے خلاف انقلابی اقدامات اٹھائے ۔ حسین شہید سہروردی نے مارشل لاء اور ابیڈو پابندیوں کو چیلنج کیا مگر ایوب خان کوئی سیاست دان نہیں تھا کہ اس کی راہ کھوٹی ہوتی۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کو مشعل راہ بناتے ہوئے اس کا غاصب اقتدار جائز قرار دیا۔ ہمیں یحییٰ خان کی مدہوش صدائیں بھی یاد ہیں ،جس نے اپنے مفاد کی خاطر اقتدار ہمارے منتخب نمائندوں کو منتقل نہ کیا اور ملک دو لخت ہو گیا۔ ہمیں ” نو ستارے ہل نشان ، جیوے جیوے پاکستان ‘‘ کی امریکی سپانسرڈ صدائیں بھی یاد ہیں جن کا مقصد جمہوری بندوبست کو لپیٹنا تھا ۔ ان پارسائوں کی مساعی جمیلہ کے سبب آنے والی 5جولائی1977ء کی منحوس رات ہمیں کبھی نہیں بھولے گی ، جس کے بطن سے ہماری تاریخ کا تاریک ترین دن طلوع ہوا اور ضیاء الحق کی ”میرے عزیز ہم وطنو ‘‘ جیسی ٹوڈا چور آواز ہماری سماعت سے ٹکرائی تھی۔ اس کا غاصب اقتدار بھی جائز قرار پایا تھا اور اس نے جمہوری عمل کی مقدور بھر بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ہمارے مقبول ترین منتخب لیڈر کو پھانسی چڑھایا۔ ہمیں غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری جیسے (58/2-B)کے تلوار بردار بھی یاد ہیں ، جو 1990ء ،1993اور1996ء میں کرپشن کرپشن کے شور میں اس تلوار سے ہمارے مینڈیٹ کے ٹوڈے کی رسی کاٹ کر اسے چرا لے گئے تھے۔ ہم 12اکتوبر1999ء کی شام غریباں بھی نہیں بھولے جب آمر چہارم نے پھر سے ہمارے مینڈیٹ کا ٹوڈا چرایا تھا ۔ ہماری لوح یادداشت پر 27دسمبر2007ء کا دن بھی ثبت ہے ، جب گڑھی خدا بخش کے قبرستان کی طرف ایک اور سیاستدان کا تابوت روانہ ہوا تھا ۔ ہم افتخار محمد چودھری کا ” دور انصاف ‘‘ بھی نہیں بھولے جب کرپشن کی گردان میں منتخب سیاسی حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی مشق جاری رہی۔ تاہم ہماری داغ داغ تاریخ میں کرپٹ سیاستدانوں کے علاوہ کسی دوسرے ادارے کے بد عنوان کی گردن نہیں ماپی گئی ۔
آج پھر کرپشن ، بد طرفیوں اور استعفو ں کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ۔ ان نغموں کے بیشتر کلاکار وہی ہستیاں ہیں جن کے لیے براہِ راست عوامی نمائندگی کی بارگاہ تک رسائی کھٹے انگوروں جیسی ہے اور وہ اقتدار کے لیے عوامی مینڈیٹ کا ٹوڈا چرانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے مینڈیٹ کا ٹوڈا بھی بھی میچور نہیں ہوا ، جو کھل کھل جاتا ہے اور دوسروں کے قافلوں کے پیچھے چل کر اپنے چرانے کا ساماں کرنے سے باز نہیں آتا۔ تاہم کسی ایسے غیر جمہوری قافلے کو اسے چرانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے ، جو شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرے گی ۔ فریقین عدالت پر اعتماد کا اظہار بھی کر رہے ہیں مگر ساتھ ہی فیصلے کے انتظار کی بجائے صدا کار اور اداکار ہمارا ٹوڈا چرانے کو بے تاب کیوںہو رہے ہیں؟ہم اکیسویں صدی کے گلوبل ویلج کی معتبر صدائیں سننا چاہتے ہیں مگر وہ ہمیں اٹھارہویں صدی کی جنگلی ڈھوک میں رکھ کر فقط اپنی بیمار آوازیں اور قصے کہانیاں سنانے پر مصر ہیں۔ اس ملک کے عوام بوجہ ان سیماب صفت ہستیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر اتنے تجربہ کار ضرور ہو گئے ہیں کہ کچھ اندھیری راہوں کے قافلوں کے مخصوص ڈھولے ماہیے سنتے ہی کا ن کھڑے کر لیتے ہیں کہ یہ تو وہی آوازیں آ رہی ہیں جن کے بعد ہمارے مینڈیٹ کا ٹوڈا چوری ہوتا آیا ہے ۔

(بشکریہ روزنامہ دنیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).