براؤن لفافہ


اس تحریر کو پڑھنے والے بہت سے قارئین کا خیال ہو گا کہ چونکہ آجکل جے آیئ ٹی کا دور دورہ ہے اور قطری سے لیکر کیلبری تک کی مد میں لفافوں کا چرچا ہے، لہذا یہ بھی کسی ایسے ہی لفافے کا ذکر ہو گا۔کچھ کا خیال صحافیوں سے لیکر پٹوارئیوں کے ملزم لفافوں تک گیا ہو گا۔ مگر یہ تو ذکر ہے اس براون لفافے کا جو ازل سے لیکر ابد تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے گا۔

آجکل کے دور میں یہ براؤن لفافہ میڈیکل سٹور یا سپر سٹور کے اس خفیہ حصے میں پایا جاتا ہے جہاں خواتین چپکے سے جا کر سرگوشی سے نام والے سینٹری نیپکن سرگوشی ہی کے انداز میں براؤن لفافے میں ڈال کر مرد خریداروں اور دکانداروں کی ہم سب سمجھتے ہیں والی نظروں سے بچ کر نکل جاتی ہیں۔ یہ مشقت ہر ماہ دہرایئ جاتی ہے۔

صرف ہمارے ہی نہیں بلکہ آج بھی مغرب اور مشرق کے کافی معاشروں میں خواتین کے فطری ماہواری کے دنوں کو شرمناک سمجھا جاتا ہے۔ ہم عطایئوں کے مردانہ کمزوری دور کرنےکے اشتہاروں کو تو سر عام لگاتے ہیں لیکن ماں بننے کے عمل کی شہادت ماہواری کو براؤن لفافوں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ ماہواری شاید وہ واحد ایسا واقعہ ہے جو ہر دور اور ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے مگر اگر آپ تاریخ کے اوراق میں چراغ لیکر ڈھونڈنے نکلیں تو کہیں یہ پتا نہ لگ پائے گا کہ مایا، گندھارا یا اسیرین تہذیب کی خواتین ماہواری کے دوران اپنی صحت اور ضرورت کا خیال کیسے کرتی تھیں۔ گویا چراغ تلے اندھیرا ہی ملے گا۔

  تاریخ میں جو کہیں ذکر ملے گا تو رومن فلاسفروں کا جن کا یہ خیال تھا کہ عورتیں اپنے خون کو دیکھ کر چڑیلیں بن جاتی تھیں یا اس خون سے ژالہ باری روک دیتی تھیں۔ماہواری کا قابل ذکر قصہ قرون وسطی کے وقت ملے گا جب مذہبی عقاید نے عورتوں کے لیے ماہواری کے دنوں کے مذہبی ضابطے مقرر کیے۔ خواتین نے تب بار بار استعمال ہونے والے کپڑے کے ذریعہ اپنی ضرورت کا انتظام کیا ۔ 1920 میں با قائدہ سنٹری نپکن امریکہ میں بننا شروع ہوئے۔ جن کے اشتہار با لکل ایسے ہی تھے کہ بوجھو تو جانیں۔ براؤن لفافے کا کام تب ایک ڈبے سے لیا جانے لگا جس میں پیسے ڈال کر سنٹری نپکن اٹھا لیے جاتے تاکہ دکاندار کو پتا ہی نہ چلے کہ دنیا کی آدھی آبادی کو ہر مہینے خون آتا ہے اور جو وہ بیچتا ہے وہ ٹشو کا ڈبہ نہیں ہے۔

کچھ خواتین کا خیال ہے کہ اگر ماہواری مردوں کو آتی تو آج اس کا بھی کوئی پرسان حال ہوتا۔ مردوں کا سالانہ میلہ اسی کو مناتا اور گن گاتا، خون کے زیادہ بہاؤ پر شرطیں لگتیں اور شاعر اس پر قصیدے لکھتے۔ مگر چونکہ ماہواری عورت کے حصے آیئ ہے لہذا کسی گنتی میں نہیں ہے۔

پاکستان دنیا میں عورتوں کے 2016 مساوی حقوق کے پیمانے پر 144 ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے، نیچے سے۔ جنوبی ایشیا کے تمام ملک عورتوں کے حقوق کی دوڑ میں ہم سے کافی آگے ہیں۔ ایسے وقت میں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ماہواری کے ممنوعہ موضوع کا اثر پاکستانی لڑکیوں کی تعلیم پر براہ راست پڑتا ہے۔ یونیسف کی ریسرچ کے مطابق لڑکیوں کے پرائمری سے ہایئ سکول نہ جانے کی بڑی وجوہات میں ماہواری کے دوران صفائی کی سہولیات کا نہ ہونا،سستے سنٹری نپکن کی غیر موجودگی، لڑکوں کا ماہواری سے مطلق تضحیک آمیز رویہ ہے۔بچیوں کو یہ وجوہات کے پی کے اور آزاد کشمیر میں زیادہ متاثر کرتی ہیں۔

بچیوں کی ماہواری سے متعلق معلومات کا پہلا زریعہ ماں ہوتی ہے۔ گو کہ عموما یہ معلومات ماہواری ہونے کے بعد دی جاتی ہیں۔ زیادہ تر خاندان اور اساتذہ معلومات رکھنے کے باوجود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے ماہانہ ایام کا سرےسے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔لڑکیوں کے پاس پھر ماھواری سے متعلق روایات ہی رہ جاتی ہیں جو کہ کافی غلط ہیں۔ جیسے کہ ماہواری میں ٹھنڈا نہ کھانا پینا، نہانے سے پرہیز وغیرہ۔ یہ رویہ لڑکیوں کی تولیدی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ بیماری کی شرح بڑھتی ہے اور تعلیم متاثر ہوتی ہے۔

کچھ سکولوں نے ماہواری اور تولیدی صحت سے متعلق تعلیم دینی شروع کی ہے مگر یہ شہروں تک محدود ہے اور دیہی آبادی کی دس سے انیس برس کی بیشتر لڑکیوں تک نہیں پہنچ پاتی۔جس کے باعث لڑکیاں غیر صحت مند طریقوں مثلا استعمال شدہ کپڑے سے اپنی ماہواری کے دوران گزارہ کرتی ہیں۔

پاکستان میں البتہ ایک جگہ ایسی ہے جو ماہواری کا اعلان کر کر کے سنٹری نپکن بیچتی ہے۔ اور یہ ہے ٹی وی کے چینل۔ یہاں دکھایا جاتا ہے کہ لڑکیاں ماہواری میں بالکل اپاہج سی ہو جاتی ہیں مگر دو سو روپے کا پیڈ لگاتے ہی چہک مہک جاتی ہیں۔ خون البتہ نیلے رنگ کا دکھایا جاتا ہے تاکہ دکھا کر بھی حقیقت چھپا لی جائے۔ یہ اشتہارات نہ صرف لڑکیوں میں ماہواری کی تکلیف کا خوف پیدا کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں رائج غلط روئیوں کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس براؤن لفافے کو ختم کریں ۔ اس کو آغاز کا پہلا قدم ہے مرد و عورت کا اس کے بارے بات کرنا اور اسے فطری جسمانی امر کے طور پر مان لینا۔ اس سب کے ساتھ، سکول، دفتر اور گھر میں ماہواری کے متعلق معلومات اور مدد کا ہونا ضروری ہے۔ لڑکیوں کے لیے سکول ، کالج میں سنٹری نپکن کی فراہمی ، الگ واش روم، چھٹی کی اجازت اور تضحیکی روئیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔اس معاملے میں میڈیا پر ماہواری اور تولیدی صحت سے متعلق حقیقت پر مبنی ذمہ دارانہ مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ مردوں کی تعلیم اس معاملے میں بیحد ضروری ہے۔ معاشرتی نظام میں آج بھی مرد گھر اور بیشتر اداروں کا سر براہ ہے۔ اس کی سوچ میں عورت کے اس جسمانی امر کو ایک عام بات بنانا سب سے اہم کام ہے۔ ہمیں اس بارے میں بحثیت ذمہ دار معاشرہ بات کرنی ہو گی کیونکہ ہماری بچیوں کی صحت اور ہماری ترقئ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔

قرۃ العین فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

قرۃ العین فاطمہ

قرۃ العین فاطمہ آکسفورڈ سے پبلک پالیسی میں گریجویٹ، سابق ایئر فورس افسراور سول سرونٹ ہیں۔

quratulain-fatima has 16 posts and counting.See all posts by quratulain-fatima