پاکستانی جمہوریت کا گول دائرے کا سفر


پنجاب کے سیاستدانوں نے باہمی چپقلش شروع کرنے کے لیے اس وقت بھی انتظار نہیں کیا تھا جب تقسیم کا زخم لیے برصغیر میں جابجا خون کی ندیاں بہ رہیں تھیں۔ ذاتی مفاد کی لڑائی میں کسی کی چونچ گئی اور کسی کی دم، اور اس سے پہلے سیاستدانوں کو اپنی کھوئی دم اور چونچ کا احساس ہوتا ایوب خان بمعہ اپنے ایبڈو قانون کے آ دھمکے۔

یہ قانون جس کو صرف سیاستدانوں کے خلاف احتساب کے لیے بنایا گیا تھا، اس کا نقطہ عروج تب ہوا جب سابق وزیراعضم حسین شہید سہروردی کو سیکیورٹی رسک قرار دے کر ایک سال کے لیے نظربند کر دیا گیا۔ اس ‘فلم’ کی باکس آفس پر کامیابی دیکھتے ہوئے ہر مقبول سیاسی لیڈر کو سیکیورٹی رسک ٹھرایا گیا۔

ایبڈو نے پالیسی سازوں کو یہ بھی گائیڈ لائن دی کہ ہر وقت عوام کو یہ باور کرواؤ کہ برے اور کرپٹ صرف سیاستدان ہی ہوتے ہیں۔ روایتی ساس بہو والے ڈبہ فارمولے پر بننے والے ڈراموں کی طرح یہ ڈرامہ بھی ہر دور میں سپر ہٹ رہا ہے۔ صرف سٹیج پر آنے والے اداکار گو بدلتے رہے ہیں مگر پس منظر میں بیٹھے ہدایت کار کی نوکری ہمیشہ پکی رہی، ہاں مگر کبھی ہدایت کار کا دل تالیاں سننے کو بےچین ہوا تو وہ ہیرو گیری کرنے سٹیج پر تشریف لے آیا۔ ہیرو گیری کرنا اب اتنا آسان تو نہیں ہوتا، جیلیں بھگتنا پڑتیں ہیں، پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑتا ہے، مگر جو نازک کمر رکھتے ہیں وہ بھاگنے کے لیے خود کو تیار رکھتے ہیں۔ نئے ڈائریکٹر کا کمال یہ ہو کہ اوپر اوپر سے ہیرو گیری کرنے والے سے لاتعلقی کرو مگر اس کے بچنے کے لیے محفوظ راستہ بھی خود تیار کرو۔

دکھ کی بات یہ ہوئی کہ کرپشن کے خلاف اس متعصب قانون سے بہتری کیا آتی کہ تھوک کے حساب سے بنگالی سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر ایوب خان نے ایسا نوشتہ دیوار پڑھ لیا کہ بقول شہاب نامہ خود یہ پیشگوئی کی کہ میں نے بیک وقت اسلام آباد اور ڈھاکہ دو دارلحکومت اس لئے بنوائے تاکہ کل بنگالیوں کو سہولت رہے۔

مارشل لا کے سیزن ون کے چیف ڈائریکٹر نے اپنے اقدامات کا نتیجہ وقت سے پہلے ہی بھانپ لیا تھا مگر ہائے برا ہو مفادات کا، سبق سیکھنا ان کی لگی بندھی پالیسی کے لیے زہر قاتل ہوتا۔ سو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے اور ظلم پر احتجاج کو غداری کا نام دیا گیا۔ ملک سے وفاداری پر سوال اٹھائے گئے۔ کسی مقبول سیاست دان کو برداشت کرنا تو کجا، ان سے مزاری، جمالی اور چوہدری تک برداشت نہ ہوئے، کہ انہیں پیارے صرف بوگرہ، قریشی اور شوکت عزیز ہی ہوئے۔

قیام پاکستان سے اب تک آپ نے سیاست دانوں کو نااہلی سے لے کر پھانسی تک کی سزائیں دیں، مگر پھر ایسا کیا ہے کہ کرپشن ہے کہ بس وبا کی طرح پھیلتی ہی رہی ہے۔ شاید کرپشن کو روکنے کے لیے بہتر ہوتا کہ سیاست دانوں کو بھی ناپسندیدگی کی سزا سناتے، آپ کا اپنا مجرب نسخہ ہے۔

مانا کہ یہ ہمارے سیاست دان بھی کوئی فرشتے نہیں مگر یہ جو ہمارا معاشرہ ہے نا، اس میں فرشتے بھی آ کر معصوم نہ رہ سکیں۔ کھایا اسی نے نہیں جسے ملا نہیں۔

ویسے بھی جمہوریت اور سیاست تو ایک بہتا پانی ہے جو کہیں کہیں گدلا بھی ہو سکتا ہے اور گندا بھی مگر اس کی مستقل روانی ہی ہمیں پرامید رکھتی ہے کہ بہرحال وقت کے ساتھ اس کی کثافتیں ختم ہو جائیں گی۔ تسلسل اس کی بہتری کی ضمانت ہے۔ مگر ہم بےصبرے ایک دن بیج بوتے ہیں اور دوسرے دن سایہ اور پھل مانگنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے توتلے بچے کو ڈانٹا کہ خاموش ہو جاو تم سے بات نہیں ہو سکتی۔ سہارا لے کر چلنے کی کوشش کرتے بچے کو نیچے پھینک دیا کہ تمہیں چلنا نہیں آتا۔ مگر اس لولی لنگڑی جمہوریت کو کسی نے مار گرایا تو آپ نے مٹھائیاں بانٹیں اور پھر ان مٹھائیوں کو یاد کر کر بھی روئے۔ تسلسل ٹوٹا تو آپ کا پاس بھی چناو کے لیے کوئی دوسرا نہ ملا، آخر پھر اسی سیاست دان کو آپ نے سر پر بٹھا لیا۔ ہم لوگ محلے کا ایک کونسلر تو کسی شریف انسان کو منتخب کرنے کی اوقات نہیں رکھتے، ووٹ کو اپنے معمولی سے مفاد کی خاطر نیلام کر دیتے ہیں، مگر ایک دن انتخابات میں ووٹ ڈال کر سہمی ڈری سول حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ مغربی ویلفئیر ریاستوں کے ہم پلہ ہو کر ڈیلیور کرے۔

پانامہ کیس کو بھلے آپ جو بھی بولیں میرے خیال میں یہ مختلف ملکوں اور معاشروں کی جمہوری اور اخلاقی قدروں کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ تھا، جس میں مضبوط اخلاقی و جمہوری قدروں والے اس قضئیے کو نمٹا کر آگے بڑھ گئے اور ہمارے جیسے اپنی اپنی کھرلی کے ساتھ بندھے اپنے ذاتی اور ادارہ جاتی مفادات کی جنگ لڑتے جگالی میں مصروف ہیں۔

پانچ سو سے زیادہ نام ہمارے لوگوں کے نکلے ہیں۔ مقتدر گروہوں کے جانے پہچانے سب نام اس میں شامل ہیں۔ مگر دلچسپی کی بات یہ کہ سب مل کر ملکی وزیراعظم کا احتساب کر رہے ہیں۔ مانا کہ وزیراعظم کے مالی معاملات پر اکثر الزام لگتے رہے ہیں۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب نمائندے پہلے اپنی برادری کے ان بڑوں کا احتساب کرتے جن کا نام اس سکینڈل میں آیا ہے۔ پھر یہ خوشی دوبالا ہو جاتی کہ وزیراعظم کا احتساب وہ پارلیمنٹ کرتی جس نے اکثریت رائے سے انہیں منتخب کیا تھا۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ووٹوں کی بےحرمتی اور عوام کے اعتماد کا خون کرنے پر سوال کرتے تو جچتا بھی۔۔۔

مگر طاقت وروں کے اشاروں پر ناچنے کی صدیوں پرانی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ محدود عقل والوں اور ذہنی غلاموں نے تماشا تو لگانا تھا۔ بھلا وہ کیسے ایسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے یا ایک اچھی جمہوری درخشاں روایت قائم کرتے جس سے اندھیرے میں موجود سایوں کے سامنے آنے کا امکان ختم ہو جاتا۔ یہ لوگ اگر بشرط قیامت وزیراعظم بن بھی جائیں تو خود بھی اس عہدے کی بےتوقیری پر جھنجھلا اٹھیں گے جس کو بےوقار کرنے کی مہم کے سردار رہے ہیں۔

از راجہ عدیل اورنگ زیب

تعارف: ایک اناڑی لکھاری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).