ڈھیلی نیکر


انکل سام! میں آپ کو خط لکھنے کا سلسلہ ختم کر رہا ہوں۔ آپ لکھ کر جواب دیتے نہیں۔ خواب میں آکر ایسی خطرناک باتیں کرتے ہیں جو میرے لئے مشکل پیدا کر دیں۔ میرے پاس آپ کے کہے کا کوئی ثبوت بھی نہیں، جو کل میرا بچائو کرے۔ اِسی لئے میں آپ کی خواب میں کی ہوئی گفتگو ضبطِ تحریر میں لا رہا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
انکل! آپ نے پوچھا تھا ”کیا تمہیں ڈھیلی نیکر کا طریقہ علاج پتا ہے؟‘‘ میرے انکار پر آپ نے وضاحت کی ”جو بچے انگوٹھا چوسنے سے باز نہیں آتے اُنہیں امریکی مائیں ایک ڈھیلی نیکر پہنا دیتی ہیں تاکہ انہیں کچھ اور نہ سوجھے اور وہ دونوں ہاتھ سے نیکر کو نیچے گرنے سے بچاتے رہیں۔‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ پچاس کی دہائی سے ہم نے تیسری دنیا کی نافرمان حکومتوں کو راہِ راست پر رکھنے کے لئے یہ طریقہ اپنایا اور جہاں بات نہ بنی وہاں فوجی انقلاب لے آئے۔ عوامی تائید سے محروم فوجی حکومتیں ہمارے اشاروں پر اِس لئے ناچتی رہیں کہ ہم جب چاہتے اپوزیشن کو تھپکی دے کر فوجی حکومت کو کمزور کر دیتے۔ جب فوجی حکومتیں عالمی سطح پر ناگوار ہوئیں تو سیاستدانوں کی قسمت چمکی مگر اس دوران ”مقتدر حلقے‘‘ ہمارے طریقے سیکھ چکے تھے۔ انہوں نے سویلین حکومت کو راہ راست پر رکھنے کے لئے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کی نیکر کھینچنے پر لگا دیا۔ پھر انکل سام آپ نے پاکستان کی مثال دی کہ ہمارے ہاں 90 کی دہائی میں یہی کچھ ہوتا رہا۔ ڈکٹیٹر نے آئین میں ترمیم کی اور اپنے لئے 58-2B کا اختیار حاصل کر لیا۔
58-2B کے چاقو سے نیکر کا الاسٹک کاٹ دیا جاتا اور سیاست سرعام برہنہ ہو جاتی۔ ایک بہت پرانی کہانی کے مطابق ایک روٹی کی تقسیم پر لڑتی ہوئی دو بلیوں نے بندر کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا۔ بندر نے روٹی کے دو حصے کئے اور پھر خود ہی کہا کہ ایک ٹکڑا بڑا ہے۔ دونوں حصوں کو برابر کرنے کے لئے اس نے بڑے حصے کاکچھ حصہ کھایا۔ پھر دونوں حصوں کو دیکھ کر دوسرے حصہ کو پہلے سے بڑا قرار دیا اور اس کا کچھ حصہ کھا لیا۔ قصہ مختصر دونوں حصوں کو برابر کرتے ہوئے موٹا بندر ساری روٹی کھا گیا۔ اس کے باوجود بلیاں بار بار بندر کو منصف بناتی رہیں اور جب 58-2B کا ہتھیار چھن گیا تو دونوں بڑی پارٹیوں کو دیس نکالا ملا اور پھر قصہ مرزا صاحبان کے مطابق ”گلیاں ہو جان سُنیاں، وچ مرزا یار پھرے‘‘ کا چلن شروع ہو گیا۔ 2008 کے بعد دوبارہ موقع ملا تو سیاست دان پھر اُسی کھیل میں مشغول ہوئے۔ سوئس حکام کو خط ہو یا میمو گیٹ کا شوشہ، ایک دوسرے کو ڈھیلی نیکر پہنائی گئی جسے سنبھالتے ہوئے ایک پرائم منسٹر کی قربانی ہو گئی۔ الیکشن کے بعد موجودہ حکومت آئی۔ عوامی تائید کے نشے میں اِس نے پر پرُزے نکالے تو الیکشن میںدھاندلی اور پھر پاناما لیکس آڑے آ گئی۔ ان دونوں ڈھیلی نیکروں کو سنبھالتے ہوئے اسے بھی چار سال گزر چکے ہیں۔
انکل سام! یہ آپ کا تجزیہ تھا۔ مجھے اس سے اختلاف نہیں، مگر میرا سوال تھا ”کیا سیاست دان ڈھیلی نیکر کے پہناوے سے جان چھڑا پائیں گے۔‘‘ جواب ملا ”ہاں کیوں نہیں۔ برادر ملک ترکی کی مثال سامنے ہے وہاں نگران بہت مضبوط تھے۔ جب انہیں سویلین حکومت سے بغاوت کی بو آتی، اُسے سیدھا کر دیتے۔ مگر پھر حالات بدل گئے۔ اربکان کی مذہبی پارٹی سے نئی قیادت نکلی۔ ترکی کو معاشی ترقی ملی۔ اس سلسلے میں ترکی اور مصر کا موازنہ کرتے ہوئے سیاحت کا شعبہ دیکھ لیں کیونکہ وہ دونوں ملکوں کے لئے اہم ہے۔ ترکی میں پارٹی نے اپنی اخلاقیات کو سیاحت کی انڈسٹری پر نہیں تھوپا۔ لوگ خوش حال ہوئے تو ڈھیلی نیکر سے جان چھوٹ گئی۔ دوسری طرف مصر میں معاشی ترقی نہ ہو سکی۔ تفریح کے لئے آئے ہوئے سیاح آزاد ماحول کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اُن کے لئے ماحول ناسازگار ہوا تو سیاحت میں کمی آئی۔ عوام کے روزگار اور خوش حالی پر منفی اثر پڑا۔ مذہبی پارٹی کی عوامی حمایت متاثر ہوئی تو پرانے نگران پھرآن وارد ہوئے۔‘‘ انکل سام! آپ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی معاشی ترقی سیاست میں تبدیلی لاسکتی ہے۔ مگر اُس کے لئے حکمرانی کے انداز بدلنے ہوں گے جس کے لئے ابھی حکمران تیار نہیں۔ انکل سام! آپ کا لیکچر سننے کے بعد میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ”نئی قیادت لانے سے کوئی فرق پڑے گا‘‘ جواب میں آپ مسکرائے اور کہا ”نئی قیادت بھی قابل اعتبار نہیں ہو گی۔ جو نجی محفلوں میں گستاخیاں کرتا تھا وہ حکمرانی کے تخت پر بیٹھا تو کیا کچھ نہیں کرے گا۔ اس کے لئے ابھی سے انتظام کر لیا گیا ہو گا۔‘‘ کیسا انتظام؟ میں نے پوچھا۔ آپ نے مسکرا کر کہا ”ممکن ہے کل کلاں کوئی لڑکی پاکستان کے ٹی وی پر اپنی داستان غم سناتی نظر آئے۔‘‘
انکل سام! آپ کی بات سن کر میں ڈر گیا۔ آپ ہماری سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں بے لاگ تبصرے کر سکتے ہیں مگر میں خاموش ہی رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اِس موقع پر میں نے آپ سے اجازت چاہی تھی مگر آپ نے اصرار کرکے مجھے روک لیا۔ مجھے خوف زدہ دیکھ کر آپ کو مزہ آرہا تھا۔ آپ نے مجھ سے سوال کرنے شروع کر دیئے ”جسٹس منیر کا فیصلہ یاد ہے؟‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا ”وہ عدل میں نظریہ ضرورت کا بانی تھا۔ کیا اُسے علم تھا کہ تاریخ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ آپ نے خود ہی وضاحت کر دی ”آپ کی عدلیہ کے ہال آف شیم میں سب سے پہلے نمبر پر اسی کی تصویر ہے۔ اُسی کے فیصلے نے آپ کے ملک کی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔‘‘
انکل سام! میں نے آپ سے اختلاف نہیں کیا۔ اثبات میں سر ہلا دیا۔ آپ نے پھر سوال پوچھا ”جس ہال میں پہلی تصویر جسٹس منیر کی ہے اُس کے آخر میں کس کی تصویر لگے گی۔‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ آپ نے تبسم فرمایا اور پھر گویا ہوئے ”اُسی کی تصویر لگے گی جو 58-2B سے زیادہ مہلک ہتھیار ایجاد کرے گا‘‘۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ ”وہ کیا۔ کون سا ہتھیار؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ اب آپ نے کھل کر قہقہہ لگایا ”سیاست دانوں کے لئے ایک نیا لباس جو ملکی سیاست کے لئے زہرِ قاتل بن جائے گا‘‘۔
انکل سام! میں آپ کی عادت سمجھ چکا تھا۔ خاموش رہا۔ پتا تھا کہ آپ خود ہی وضاحت کر دیں گے۔ وہی ہوا۔ آپ نے کہا ”وہ نیا ہتھیار 62، 63 انچ کے گھیر کی نیکر ہو گی جسے ہر سیاست دان کے لئے لازم قرار دیا جائے گا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اُسے تھامے اپنی آبرو بچانے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اگر اُس نے کچھ اور کرنے کی کوشش کی تو اگلے لمحے نیکر نیچے اور عزت خاک میں۔ اہل سیاست کا ڈنگ ہمیشہ کے لئے نکل جائے تو پھر وہ ضیاالحق کی بنائی ہوئی مجلس شوریٰ کے معیار پر پورا اتریں گے۔‘‘
اس موقع پر میری آنکھ کھل گئی۔ انکل سام! آپ کی باتیں میں نے پوری ایمانداری کے ساتھ رقم کر دی ہیں۔ یہ آپ کے خیالات تھے، میرے نہیں۔ امید ہے آپ اِس خط کے مندرجات کی تصدیق کر دیں گے تاکہ میں بری الذمہ ٹھہروں۔ آئندہ کے لئے خدا حافط۔ انکل سام! اگر آپ کی مدد سے آبی وسائل کا یہ معاہدہ طے پا سکتا ہے تو صدر ٹرمپ کی تھوڑی سی ہمت اس ”کوچۂ بے عقلاں‘‘ میں امن کا پیغام بھی لا سکتی ہے۔ دُنیا کی نظر آپ پر ہے۔

بشکریہ: روز نامہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood