مشہور ناول گاڈ فادر کا ایک مکالمہ


”ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے“۔ اس عظیم قول کے پاکستانی تاریخ کا حصہ بنتے ہی ماریو پوزو کا ناول ”دی گاڈ فادر“ پاکستانیوں کے لئے تقریباً ویسی ہی اہمیت اختیار کر گیا ہے جیسی اہمیت کیلبری فونٹ کو نصیب ہوئی ہے۔ ناول تو خیر جیسا بھی تھا، اس سے بڑھ کر غضب اس پر مبنی فلم نے نے ڈھایا ہے۔ کیا کمال کی اداکاری کی ہے مارلن برانڈو اور الپچینو نے۔ لیکن اصل کمال تو اس کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا کا تھا۔ مارلن برانڈو اور الپچینو کے مکالمے تو متاثر کن ہیں، لیکن خاموشی کا ایسا عمدہ استعمال ہم نے کم ہی دیکھا ہے جیسا انہوں نے اس فلم میں کیا ہے۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ سب ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔ نیویارک پر مافیا کے ڈان ویٹو کارلیونی کی حکومت میں سب شیر بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ علاقے کی پولیس اور عدالت کرپٹ تھے اور پیسے کے زور پر ان کو خریدا جا سکتا تھا۔ ایسے میں مظلوموں کے لئے آخری آسرا ڈان ویٹو کارلیونی ہی تھے جو قانون پر نہیں بلکہ انصاف پر مبنی فیصلے کیا کرتے تھے۔ ان کی دانش کی ہر جگہ دھوم تھی۔ وہ ہر ایک کو ایک ایسی ڈیل آفر کر دیتے تھے جس سے وہ انکار نہیں کر سکتا تھا۔

ایسے میں ورجل سلوزو نامی ایک لالچی شخص نے ان کو آفر کی کہ منشیات کی تجارت میں بہت پیسہ ہے اور ڈان ویٹو کارلیونی اس کی اجازت دیں۔ ڈان نے انکار کر دیا مگر بدقسمتی سے اس کے بیٹے سانتینو نے منشیات کی تجارت کی حمایت کر دی۔ سلوزو کی حمایت مافیا کی تتالیا اور پس پردہ رہ کر بارزینی فیملی کر رہی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ ڈان ویٹو کارلیونی کو راستے سے ہٹا دیا جائے تو سانتینو کالیونی ڈان بن جائے گا اور وہ منشیات کی تجارت کی اجازت دے دے گا۔ اس لئے چند دن بعد ڈان ویٹو کارلیونی پر قاتلانہ حملہ کر دیا گیا لیکن بے شمار گولیاں کھانے کے باوجود وہ زندہ بچ گئے۔ یوں مافیا کی ایک جنگ چھڑ گئی جس میں دشمن بھی مارے گئے اور ڈان ویٹو کارلیونی کا بیٹا سانتینو بھی اور تتالیا کا بیٹا برونو بھی۔ ڈان کا چھوٹا بیٹا مائیکل کارلیونی فوج میں میجر تھا اور خاندانی کاروبار سے لاتعلق تھا۔ اسے بھی جنگ میں شامل ہونا پڑ گیا اور اس نے ورجل سلوزو اور پولیس کے کرپٹ سربراہ کو قتل کر دیا اور ملک سے فرار ہو گیا۔ ڈان ویٹو کارلیونی صحت یاد ہوا تو اس نے ملک بھر کے پانچوں مافیا سربراہوں کا جرگہ بلایا تاکہ صلح ہو سکے۔

یہ منتخب ڈائیلاگ اس ناول پر مبنی فلم کے سکرپٹ سے لئے گئے ہیں اور اس جرگے کے ہیں جس کے فیصلے سے مافیا خاندانوں کے درمیان جنگ میں ایک طویل وقفہ آیا۔ یہ مکالمے وجہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ گاڈ فادر کی طاقت کا سبب کیا تھا اور کس وجہ سے اس کے دوست بھی اس کے دشمن ہو گئے تھے۔ آئیے  ان مکالموں کا لطف اٹھائیں۔


ڈان ویٹو کارلیونی: حالات اتنے برے کیسے ہوئے؟ میں نہیں جانتا۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے، کتنا غیر ضروری تھا یہ۔ تتالیا نے ایک بیٹا کھویا اور میں نے بھی۔ ہم خاتمہ چاہتے ہیں۔ اور اگر تتالیا اتفاق کرے تو میں چاہتا ہوں کہ چیزیں ویسے ہی ہو جائیں جیسے پہلے تھیں۔

ڈان بارزینی: ہم ڈان کارلیونی کے یہ جرگہ بلانے پر شکرگزار ہیں۔ ہم سب انہیں ایک قول کے پکے شخص کے طور پر جانتے ہیں۔ ایک معقول شخص کے طور پر جو عقل کی بات سنتا ہے۔

ڈان تتالیا: ہاں ہاں بارزینی، وہ نہایت معقول ہے۔ اس کی جیب میں تمام جج اور سیاستدان پڑے تھے لیکن اس نے ان کو شیئر کرنے سے انکار کیا۔

ڈان کارلیونی: کب؟ میں نے سہولت دینے سے کب انکار کیا؟ آپ سب مجھے جانتے ہیں۔ میں نے کب انکار کیا سوائے ایک واقعے کے؟ اور کیوں؟ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ منشیات کا کاروبار ہمیں آنے والے برسوں میں تباہ کر دے گا۔ میرا مطلب ہے کہ یہ جوئے یا شراب، حتی کہ عورتوں کے کاروبار کی طرح نہیں ہے جن کے بیشتر افراد خواہشمند ہیں لیکن یہ سب ان کے لئے چرچ کے بڑوں کی جانب سے ممنوع قرار دیے گئے ہیں۔ حتی کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بھی قمار بازی وغیرہ کے معاملے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔ منشیات کے معاملے پر وہ ہماری مدد کرنے سے انکار کر دیں گے۔ مجھے اس بات کا پہلے بھی یقین تھا اور اب بھی ہے۔

ڈان بارزینی: وقت بدل گیا ہے۔ یہ پرانے دنوں کی طرح نہیں ہے جب ہم اپنی مرضی کا سب کچھ کر سکتے تھے۔ انکار کرنا کسی دوست کا کام نہیں ہے۔ ڈان کارلیونی کی جیب میں نیویارک کے تمام جج اور سیاستدان ہیں اور اسے ان کو شیئر کرنا ہو گا۔ اسے ہمیں بھی کنویں سے ڈول بھرنے کی اجازت دینا ہو گی۔ یقیناً وہ ہمیں اس طرح کی خدمات کا بل پیش کر سکتے ہیں۔ آخر ہم کمیونسٹ تو نہیں ہیں ناں۔

ڈان کارلیونی: مجھے یہی امید تھی کہ ہم یہاں اکٹھے ہوں گے اور معقول بات کریں گے۔ ایک معقول شخص کے طور پر میں وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوں جو ان مسائل کا ایک پرامن حل دے۔

ڈان بارزینی: پھر ہم سب متفق ہیں۔ منشیات کی تجارت کی اجازت ہو گی مگر کنٹرول کے ساتھ، اور ڈان کارلیونی ہمیں مشرق میں تحفظ دیں گے۔

ڈان تتالیا: لیکن مجھے کارلیونی کی جانب سے سخت یقین دہانی چاہیے۔ جب وقت گزرتا ہے اور اس کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے، تو کیا وہ میرے خلاف کوئی انتقامی کارروائی تو نہیں کرے گا؟

ڈان بارزینی: دیکھو، یہاں ہم سب معقول آدمی ہیں۔ ہمیں وکیلوں کی طرح یقین دہانیاں کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ڈان کارلیونی: تم انتقام کی بات کرتے ہو۔ کیا انتقام تمہیں تمہارا بیٹا لوٹا دے گی یا مجھے میرا؟ میں اپنے بیٹے کے انتقام کو معاف کرتا ہوں۔ لیکن میرے پاس اس کی ایک خودغرضانہ وجہ ہے۔ میرے سب سے چھوٹے بیٹے کو اس سلوزو والے معاملے کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ ٹھیک ہے کہ اب مجھے اس کی یہاں محفوظ واپسی کے لئے انتظامات کرنے ہیں۔ لیکن میں ایک وہمی آدمی ہوں اور اگر وہ بدقسمتی سے کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے، یا کوئی پولیس افسر اس کے سر میں گولی اتار دیتا ہے، یا وہ جیل کی کوٹھڑی میں خود کو پھانسی دے دیتا ہے، یا اس پر آسمانی بجلی گر پڑتی ہے، تو اس صورت میں میں اس کمرے میں موجود چند افراد کو مورد الزام ٹھہراؤں گا۔ اور یہ میں کسی صورت معاف نہیں کروں گا۔ لیکن اس کے علاوہ میں اپنے پوتے پوتیوں کی قسم کھاتا ہوں، کہ میں آج یہاں حاصل کیے گئے امن کو برباد کرنے میں پہل کرنے والا نہیں ہوں گا۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar