جگنو کوئی پاس ہی سے بولا…


’’آپ نے کبھی جگنو دیکھا ہے؟‘‘

وہ میرے پاس بیٹھا ہوا تھا، باتیں کرتے کرتےایک دم مجھ سے پوچھنے لگا۔ یہ کیا پوچھنے کی بات ہے، میں اس کی بات پر حیران نہیں ہوا۔

بہت زمانہ ہوگیا اب میں کسی بات پر حیران نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود باتوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور میں بہت دور ایک گُھپ اندھیری شام میں پہنچ گیا جہاں بادل گرج رہا تھا اور بوندیں برسنا شروع نہیں ہوئی تھیں۔ اس اندھیرے میں درختوں کے درمیان روشنی کے دھبّے تیر رہے تھے۔ جگنو__ میں ان کو ہاتھ بڑھا کر پکڑ سکتا تھا مگر ہاتھ آتے ہی ان کی روشنی جانے کہاں گُم ہو جاتی۔ بند مٹّھی میں رسمساتے رہتے، انگلیوں کے درمیان ذرا سی جھری سے جھانکو تو دھیمی سی روشنی بکھرنے لگتی۔

یہ جگنو اچانک کہاں سے آن دھمکے؟ اسی برسات کی ایک شام کی بات ہے کہ کاشف قمر اور اسد اللہ بہت دنوں کے بعد مجھ سے ملنے آئے۔ گئے دنوں کے کراچی میں ہماری ملاقات ہو جایا کرتی تھی اور میں جانتا تھا کہ یہ جواں سال صحافی ہیں۔ برسات کی اسی رات میں ان کو جواں سال تو نہیں کہہ سکا مگر یہ سمجھا کہ یہ ضرور کسی نہ کسی ’’اسٹوری‘‘ کے تعاقب میں آئے ہوں گے۔ بے تکلّف اور آزادانہ گفتگو ہونے لگی تو کاشف قمر نے جگنوئوں کا تذکرہ چھیڑ دیا۔

وہ یاد کرنے لگا کہ اس کا بچپن ملیر میں گزرا۔ وہاں ندی کے پاس کُھلا علاقہ تھا۔ وہاں جگنو بہت نظر آتے تھے۔ اب اس جگہ پُختہ تعمیرات ہیں، سڑکیں اور مکان بن گئے، جگنو دیکھنے میں نہیں آتے۔ ’’میرے بچوں نے جگنو کا نام بھی نہیں سُنا‘‘ وہ مجھے بتا رہا تھا ’’اور میری بیگم نے کبھی جگنو نہیں دیکھے۔‘‘

مجھے نہیں یاد کہ جگنو دیکھنے کےلیے ایسا کوئی اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ وہ تو ویسے ہی ہر طرف اُڑتے پھرتے نظر آتے تھے۔ میں نے یاد کیا کہ میرا لڑکپن کراچی یونیورسٹی کے سرسبز کیمپس میں گزرا۔ شہر سے کئی میل پرے، کُھلے میدانوں میں اور اسٹاف ٹائون کے مکانوں کے ساتھ باغوں میں کسی نہ کسی جھاڑی میں دور سے چمکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ بارش کے بعد مٹّی کی سوندھی سوندھی خوش بو پھیلتی تو گھر کے سامنے کھلے میدان میں بیربہوٹیاں نکل آتیں۔ جیسے مخمل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سبزے پر بکھر گئے ہوں۔ ذرا ہاتھ لگائو تو بیربہوٹی پنجے سمیٹ کر بالکل سکڑ جاتی۔ ہتھیلی سے اٹھا کر واپس زمین پر رکھ دو تو ذرا دیر بعد پھر چلنے لگتی۔ بارش کے بعد زمین کی تہوں میں جانے کہاں غائب ہو جاتی۔ ہرے نیلے رنگ پروں سے جھلکاتی بھنبھیری بھی مجھے یاد ہے اور تتّیا بھی جس سے ڈر لتا ہے کہ کاٹ نہ لے۔

بچپن کے ساتھ وہ علاقہ بھی بچھڑ گیا۔ بیربہوٹیاں بھی ایسی زمین میں اتریں کہ ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتیں۔ جگنوئوں کے پاس چلی گئیں۔ بچے ہاتھ ملتے رہ گئے۔

لیکن اس سے پہلے جگنوئوں سے اپنی وہ ملاقات خوب یاد ہے جو اردو ادب کے حوالے سے ہوئی تھی۔ کتنے بہت سے جگمگاتے جگنو مجھے اچانک یادآگئے۔ سب سے پہلے تو ان کا سراغ اقبال کی شاعری میں ملا تھا۔ شمشیر و سناں اوّل اور عظمتِ رفتہ سے پہلے مجھے ان کی شاعری میں جگنو نظر آگیا تھا جس کو خبر تھی کہ ’’کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا‘‘ مگر یہ بھی معلوم تھا کہ:

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

اور اس سے بھی آگے چل کر وہ خوبصورت نظم جس کا نام ہی جگنو ہے۔

جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں

یا شمع جل رہی ہے پھولوں کے انجمن میں

آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ

یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں

یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا

غربت میں آکے چمکا گم نام تھا وطن میں۔۔۔

اتنے دن کے بعد حافظے میں جیسے جگنو چمک اٹھے۔ بانگ درا کی یہ ابتدائی نظمیں بھول سکتا ہوں اور نہ بچپن کے اُڑتے ہوئے جگنو۔

ان جگنوئوں کی روشنی ماند نہیں پڑی تھی کہ ایک شعر دھیان آیا جیسے دور سے اڑتا ہوا جگنو۔ یہ شعر پروین شاکر کا تھا جن کو طالب علمی کے دور سے پھر ملک گیر شہرت کی بلندیاں حاصل کرتے ہوئے میں نے دیکھا۔ ان کو کسی مشاعرے میں یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ لوگ بے تحاشا داد دیتے ہوئے اسے دُہرا رہے ہیں۔

جگنو کو دن کی روشنی میں پرکھنے کی ضد کریں

بچّے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے

مجھے یاد آیا کہ جب پہلی بار سنا تھا تو اس شعر سے مایوسی کا سا اظہار ہوا تھا، بچوں کی چالاکی پر نہیں بلکہ جگنو کی بے وقعتی پر۔ جیسے اس کی روشنی بُجھ گئی ہو اور اندر سے ایک بھورا، ملگجا سا کیڑا نکل آیا، معمولی اور حقیر۔ اس عہد کے بچے ضرور چالاک ہوگئے مگر وہ جگنو کی روشنی سے محروم ہوگئے۔

جگنو کی چمک دمک ایک اور شاعر نےدکھائی۔ احمد فراز نے مشاعرے میں میرے سامنے وہ غزل سنائی تھی جس میں اپنے محبوب نظر کا سراپا کھینچ کر رکھ دیا تھا۔

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

سُنا ہے رات کو جگنو ٹہر کے دیکھتے ہیں

یہ ستانے والی تتلیاں ضرور مارکیز کے کسی ناول کے صفحے سے اُڑ کر آئی ہیں۔ مگر جگنو سو فی صد اپنے ہیں۔ ایک مرتبہ فراز صاحب نے ہنستے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ کوئی پندرہ سولہ خواتین ان سے تصدیق کرچکی ہیں کہ یہ غزل ان ہی پر لکھی گئی ہے۔ اور شاعر کے جواب سے پہلے ان کو اس بات کا یقینِ واثق بھی ہے۔

پروین شاکر اور احمد فراز کی باتیں جیسے شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں۔ بند مٹھی میں جگنو__ پھر مجھے محمد منشا یاد کا افسانہ یاد آیا جس پر انھوں نے کتاب کا نام رکھا تھا۔ انتظار صاحب جگنو کو پٹ بیجنا کہا کرتے تھے۔ بیربہوٹی ان کے لیے زمین کے بھید بھائو کی محرم راز تھی۔ پیغمبری کا درجہ وہ انجن ہاری کو دینے کے لیے تیار ہوگئے تھے جو مٹی کے لیپ سے گھر بناتی ہے اور اس گھر میں سے ایک بار پھر زندہ ہو کر نکلتی ہے۔ لیکن یہ سب ایک ایک کرکے رُخصت ہو گئے۔ یہ ننھے منّے کیڑے مکوڑے بے بضاعت تھے، بُجھ کر رہ گئے۔

اس عہد کے چالاک بچے اسمارٹ فون پر نئے سے نئے ایپ ڈائون لوڈ کرسکتے ہیں، سوشل میڈیا پر فاصلوں کو پلک جھپکتے مٹا سکتے ہیں، مگر وہ اپنے والدین سے یہی پوچھیں گے، جگنو کیا ہوتا ہے؟

اسی طرح شہد کی مکھی بھی دنیا سے ختم ہورہی ہے۔ اب کوئی ان کا ماتم بھی کرے تو کیا؟ اور کس سے؟ ان کا مٹ جانا ایک طویل خاتمے کا حصہ ہے جس کا ہدف انسان ہے۔ مٹ جانے کے درپے انسان۔ وہ مخلوق جس نے کرّہ ارض کو غارت گری کے مسلسل منظر__ Anthropocene میں قید کرکے رکھ دیا اور خود بھی Sixth extinction کا سامنا کررہا ہے۔ کوئی دن کی بات ہے کہ جگنو کا ماتم کرنے والا انسان بھی نہ ہوگا کہ کوئی اس کا غم منائے۔

اب جگنو کی دُم چمکے گی نہ بچّے تالیاں بجائیں گے۔ جگنو اگرچہ کیڑا تو ذرا سا ہے مگر مٹ کر بڑے پتے کی بات سمجھا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).