خطرناک وقت


وزیراعظم نواز شریف کے لئے فیصلہ کن وقت آن پہنچا ہے ۔ سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ تمام دلائل سن کر فیصلہ محفوظ کر چکا کہ وزیر اعظم نے اپنے دولت کے ذرائع کے بارے میں سچ بولا تھا یا غلط بیانی سے کام لیا تھا۔اگر بنچ کو یقین ہوا کہ وہ جھوٹ بولتے رہے ہیں تو وہ پارلیمنٹ کی رکنیت اور وزیراعظم کے عہدے سے نااہل ہو جائیں گے۔اس کے علاوہ بنچ اس بات کا بھی فیصلہ کرے گا کہ کیا کیس کو مزید تحقیق اور نواز شریف سمیت شریف خاندان کے ایک یا ایک سے زیادہ افراد پر قانونی کارروائی کے لئے احتساب کورٹ بھیجا جائے گا یا نہیں۔

شریف خاندان کے وکلا ء نے جے آئی ٹی کے نتائج اور صداقت کو چیلنج کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن بنچ نے ان کے الزامات کو یہ کہہ کر جھٹک دیا کہ یہ کیس کسی بھی صورت میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کا پابند نہیں۔اس کی بجائے فاضل جج صاحبان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان لندن فلیٹس خریدنے کے لئے ادا کی گئی رقم کے ذرائع اور اس سے متعلقہ سوالات کا جواب دینے میں ناکام رہے۔اس پر شریف خاندان کے وکلاء نے کہا کہ نواز شریف ایسی جائیداد کے ذرائع کیسے بتا سکتے ہیں جس کی ملکیت ہی وہ نہیں رکھتے۔

مگر اپوزیشن کے مطابق اگر ایسا ہے تو نواز شریف نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر یہ کیوں کہا کہ وہ شریف خاندان کی جائیداد سے متعلق تمام سوالوں سے جوابات اور دستاویزات مہیا کریں گے؟عدالت نے یہ بھی کہا کہ سب باتیں چھوڑ کر صرف یہ بتا دیں کہ فلیٹس قانونی طور پر کیسے خریدے گئے، ہم کیس کو یہیں نمٹا دیں گے۔ اس پر شریف فیملی کے وکلا ء نے موقف اختیارکیا کہ اگر جے آئی ٹی نے قطری شہزادے سے فلیٹس کے لئے رقم کے بنیادی ذریعے کے بارے میںپوچھا ہوتا تو اس سوال کا تسلی بخش جواب مل گیا ہوتا۔جے آئی ٹی نے شہزادے سے سوال کیوں نہ پوچھاجس نے اس پر آمادگی بھی ظاہر کی تھی ،یہ ابھی تک ایک ایسا اسرا ر ہے جو شریف خاندان کے خلاف کیس کو کمزور کرتا ہے۔

یہ مقدمہ سادہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔اس میں سادگی یہ ہے کہ اگر تین میں سے دو ججزوزیر اعظم کو مجرم قرار دیتے ہیں تو ان کے لئے قصہ ختم ہے۔مگر پیچیدگی تب پیدا ہو گی اگر دو ججز انہیں بے قصور اور ایک جج مجرم قرار دیتے ہیں ۔فیصلے کا اسٹیٹس کیا ہو گا جبکہ اصل بنچ کے پانچ میںسے دو ججزانہیں پہلے بھی قصور وار قرار دے چکے ہیں؟بد قسمتی سے فاضل عدالت کی طرف سے یہ اعلان نہیں کیاگیا کہ وزیر اعظم کی قسمت کا فیصلہ تین رکنی بنچ کی اکثریت پر منحصر ہو گا یا پانچ رکنی بنچ پر۔اس کے علاوہ دوسرے ایشوز بھی قابل توجہ ہیں۔اگر سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے ،جیسا کہ قانون میں لکھا ہے، تو وہ نواز شریف یا شریف خاندان کاکرپشن کے جرم میں ٹرائل کس طرح کر سکتی ہے۔

اس دلیل کے تحت اگر سپریم کورٹ سمجھتی ہے ،جیسا کہ نظر آرہا ہے ، کہ شریف خاندان کے ایک یا ایک سے زیادہ افراد کے خلاف کیس بنتا ہے تو اسے ٹرائل کا یہ معاملہ احتساب عدالت کے حوالے کرنا چاہیے۔لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ اصل بنچ کے پانچ میں سے دو جج صاحبان پہلے ہی وزیر اعظم کے ’’صادق اور امین ‘‘ہونے کوآئین کے آرٹیکل 62/63کی بنیاد پر رد کر چکے اور انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے ناہل قرار دے چکے ہیں۔اس میں ایک الگ پیچیدگی پیدا ہوئی ہے جس میں دو باتیں ہیں۔ ان میں ایک تو نااہلی ہے ،جیسا کہ ایم این ایز کو بی اے کی ڈگریوں کے جعلی ہونے پر سپریم کورٹ نے براہ راست ناہل قرار دیا تھا۔ججز کے کچھ زبانی اور تحریری ریمارکس سے مزید الجھائو اور تضاد پیدا ہوا جو مسٹر شریف کے خلاف پہلے سے موجود تعصب کے تاثر کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

سپریم کورٹ میں ہونے والے نواز شریف کے ٹرائل کے متوازی عمران خان پر بھی ایک کیس موجود ہے جس میں تقریبا ایسے ہی ایشوز موجود ہیں۔

سپریم کورٹ عمران خان سے ان کے لندن فلیٹ،بنی گالہ کی جائیداد اور ان کی پارٹی فنڈز کے غیر ملکی ذرائع کے بارے میں پوچھ رہی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ مسٹر خان کو بھی ججز کوقائل کرنے میں اتنی ہی مشکل پیش آرہی ہے جتنی کہ نواز شریف کو۔اگر ججوںکے یہ دو گروپ مختلف قانونی پہلوئوں اور مثالوں کی بنیاد پر فیصلے دیں تو صورت حال خراب ترین ہو جائے گی۔ لیکن اگر وہ متفقہ طور پر ایک جیسے قانونی پہلوئوںکو ملحوظ خاطر رکھیں تو امکان ہے کہ عمران خان اور نواز شریف دونوں ایک جیسی قسمت کا سامنا کریں گے۔ملک کے لئے بہتر فیصلہ وہ ہوگا جوموجودہ سیاسی بحران کو مزید گہرانہ کرے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے پرانی سوچ کو تقویت ملے گی کہ جج قانون ،عدالتی نظام اور خود اپنی بالادستی کے لئے سیاسی میدان میں سوچے سمجھے بغیر قدم رکھ دیتے ہیں۔

بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).