جنرل نیازی کا آرام دہ بستر (مکمل کالم)


کیا 16 دسمبر 1971 کو جنرل امیر عبداللہ نیازی کا ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ درست تھا؟ کیا جنرل نیازی کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی تھا؟ کیا جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا براہ راست حکم دیا گیا تھا اور اگر ایسا کوئی حکم دیا گیا تھا تو اس کی قانونی حیثیت کیا تھی؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہر سال 16 دسمبر کو زندہ ہو جاتے ہیں اور ہمارے دل و دماغ پر چابک بن کر برستے ہیں۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے ان سوالات کا جواب دیا ہے۔ اس رپورٹ کے کچھ حصے مختلف مواقع پر شائع ہوتے رہے ہیں جیسے کہ بھارتی پریس میں کچھ ٹکڑے چھپے تھے، ہمارے ہاں بھی کسی نے یہ رپورٹ کتابی شکل میں ترجمہ کر کے شائع کی تھی مگر اس کا کوئی سر پیر نہیں تھا، پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کون سا حصہ رپورٹ پر مشتمل ہے اور کون سا مترجم کا تبصرہ، متن کی تصدیق بھی نہیں کی گئی تھی۔

بالآخر اب لاہور کے ایک اشاعتی ادارے نے مکمل اور مستند متن کے ساتھ یہ رپورٹ شائع کی ہے۔ 545 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو مطالعہ پاکستان کے کنویں سے باہر نکل کر پاکستان کی درست تاریخ جاننا چاہتا ہے! یہ رپورٹ صرف سقوط پاکستان کے واقعات کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ سن 47 ء سے لے کر ملک ٹوٹنے تک کی پوری تاریخ بیان کرتی ہے۔ 26 دسمبر 1971 کو چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں بنائے گئے اس کمیشن نے قریباً چھ ماہ میں یہ رپورٹ تیار کی جو بذات خود ایسا کارنامہ ہے جس پر معزز جج صاحبان علیحدہ سے ایک تمغے کے حقدار ہیں۔ اس ضمن میں کمیشن نے گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے لیے 57 اجلاس بلائے، 213 لوگوں سے پوچھ گچھ کی، ان کے بیانات پر مشتمل 4000 صفحات ٹائپ کروائے اور لاتعداد سرکاری دستاویزات کا مطالعہ کرنے کے بعد عرق ریزی سے یہ رپورٹ لکھی جس میں ہر اس سوال کا جواب موجود ہے جو ممکنہ طور پر کسی بھی پاکستانی کے دماغ میں آ سکتا ہے۔

رپورٹ پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اس دستاویز کا ہر لفظ پوری چھان پھٹک اور دیانتداری سے لکھا گیا ہے۔ جتنی رپورٹ میں نے پڑھی ہے اس سے میں تو اسی نتیجے پر پہنچا ہوں۔ اس تجویز کا فائدہ تو کوئی نہیں مگر پھر بھی دینے میں کوئی حرج نہیں کہ اس رپورٹ کو کم از کم بی اے کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ جس تیزی سے ہم جہالت کی طرف گامزن ہیں اس میں کوئی بعید نہیں کہ آئندہ دس پندرہ برسوں میں وہ وقت بھی آ جائے جب بی اے پاس نوجوان کو یہ علم ہی نہ ہو کہ کبھی بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ ہوا کرتا تھا!

جنرل نیازی نے کمیشن کے سامنے یہ بیان دیا کہ وہ ہتھیار ڈالنے کے حکم پر عمل کرنے کا قانونی طور پر پابند تھا۔ جنرل نیازی کے اس بیان کی کمیشن نے پڑتال کی اور پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعہ 34 اور 24 کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ عمداً کسی قانونی حکم کو نا ماننے کی صورت میں ایک افسر کو کیا سزا دی جا سکتی ہے۔ کمیشن لکھتا ہے کہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایسے حالات تھے جن میں ہتھیار ڈالنے کا حکم (اگر ایسا کوئی حکم دیا گیا تھا ) قانونی طور پر درست تھا؟ یہاں کمیشن نے مینوئل آف پاکستان ملٹری لاء کا حوالہ دیا جو کہتا ہے کہ قانونی حکم سے مراد ایسا حکم ہے جو بالکل واضح انداز میں کسی فرد کو دیا جائے اور جس شخص کو وہ حکم دیا جائے وہ اسے بجا لانے کا اہل ہو۔ کمانڈر ان چیف جنرل یحیی خان محاذ جنگ سے ہزاروں میل دور بیٹھا تھا، اسے جنگ کی جو بھی تفصیل ملی وہ جنرل نیازی کے ذریعے ملی، اکیلے جنرل نیازی کو ہی مکمل فوجی حالات کا علم تھا جو اس وقت مشرقی پاکستان میں موجود تھا۔

کمیشن نے کہا کہ اگر سپریم کمانڈر جو جنگ کے اصل معرکے سے دور بیٹھ کر ہتھیار ڈالنے کا حکم دے بھی ڈالے اور موقع پر موجود کمانڈر کی رائے میں وہ حکم حالات کے مطابق درست نہ ہو تو ایسا حکم قانونی حکم نہیں ہوگا اور وہ اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔ کمیشن نے صرف قانونی بحث ہی نہیں کی بلکہ دیگر اعلیٰ فوجی افسران کے بیانات کی روشنی میں بھی یہی طے کیا کہ ’قانونی حکم‘ ماننے کی آڑ میں ہتھیار ڈالنے کا جنرل نیازی کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ میجر جنرل رحیم خان نے نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے اقدام کی حمایت کی جبکہ میجر جنرل جمشید نے کہا کہ ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ ایک ذلت آمیز اقدام تھا اور یہ دشمنی سے ہاتھ ملانے اور اس کا مشن مکمل کرنے کے مترادف تھا لہذا یہ عمل قطعاً قانونی حکم کی پاسداری میں نہیں آتا۔ میجر جنرل قاضی عبدالمجید نے کہا کہ ”اگر مجھے ایسا کوئی حکم دیا جاتا تو میں وہ حکم نہ مانتا، میں بلا خوف تردید یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ جنرل نیازی ہتھیار ڈالنا چاہتا تھا“ ۔

میجر نذر حسین شاہ کا بیان سب سے دلچسپ ہے، انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی رو سے ہتھیار ڈالنے کا حکم دینا کہیں سے بھی قانونی حکم نہیں کیونکہ کوئی بھی قانون کسی فوجی کو دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میجر شاہ نے کہا کہ جس لمحے کوئی کمانڈر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرتا ہے اسی لمحے وہ اپنی فوج کی کمانڈ سے دستبردار ہو کر دشمن سے ملی بھگت کرنے کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جنرل یحییٰ نے ہتھیار ڈالنے کو کوئی حکم دیا تھا تو وہ اسی لمحے وہ کمانڈر نہیں رہا تھا جس کا حکم قانونی سمجھ کر مانا جاتا۔ کمیشن لکھتا ہے کہ اگر جنرل نیازی ہتھیار نہ ڈالتا اور بالآخر ایک باعزت تصفیہ ہو جاتا تو آج کوئی بھی جنرل نیازی کو اس بات پر مورد الزام نہ ٹھہراتا کہ اس نے ہتھیار ڈالنے کا ’قانونی حکم‘ کیوں نہیں مانا! کمیشن نے نتیجہ نکالا کہ ہتھیار ڈالنے کا کوئی بھی حکم ہر حال میں ایسا نہیں ہوتا کہ کمانڈر اسے قانونی مان کر عمل کرنے پر مجبور ہو اور مشرقی پاکستان کے اصل حالات کے تناظر میں دیا گیا حکم قانونی نہیں تھا۔

کمیشن نے ایک اور اہم بات کی نشاندہی بھی کی کہ اس وقت مشرقی پاکستان میں جو صورتحال تھی اس کے تناظر میں ہتھیار پھینکنے کی کوئی حقیقی وجہ کم ازکم اس لمحے تک نہیں تھی جس وقت یہ فیصلہ ہوا۔ کمیشن کے بقول یہ بات جنرل نیازی نے بھی تسلیم کی۔ گو کہ جو پیغامات اس وقت موصول ہو رہے تھے ان سے یہی لگتا تھا جیسے بھارتی فوج ڈھاکہ کے مضافات میں پہنچ چکی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا، بھارتی فوج کو ڈھاکہ پر مکمل قبضے کرنے کے لیے مزید دو ہفتے درکار تھے۔

کمیشن نے لکھا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل نیازی نے ڈھاکہ پر بمباری کی بھارتی دھمکی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا حالانکہ بھارت ایسی کوشش کبھی نہ کرتا کیونکہ بھارت تو بنگالیوں کے لیے ’نجات دہندہ‘ بن کر آیا تھا وہ ڈھاکہ پر بمباری کا رسک کیسے لے سکتا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں شہریوں کی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ تھا۔ ان تمام حالات کے تناظر نے کمیشن نے رائے قائم کی کہ جنرل نیازی کا یہ کہنا درست نہیں کہ اس کے پاس سوائے ہتھیار ڈالنے کے کوئی راستہ نہیں تھا۔

کمیشن نے جو فیصلہ کیا سو کیا، تاریخ نے بھی یہی فیصلہ دیا۔ آج کوئی شخص بھی جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے جرم کا دفاع نہیں کرتا، سچی بات یہ ہے کہ وطن کی مٹی کی حفاظت کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے کا اختیار کسی کے بھی پاس نہیں ہوتا، سپاہی کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، وطن کے دفاع میں شہید ہو جائے یا آخری لمحے تک لڑتے ہوئے گرفتار ہو جائے۔ بہادری کی کئی داستانیں ہمارے فوجیوں نے سن 71 ء میں رقم کیں مگر یہ داستانیں جنرل نیازی کی بزدلی تلے دفن ہو گئیں۔

ڈھاکہ کا دفاع کرنا شاید ممکن نہیں تھا مگر ڈھاکہ کے دفاع میں جان قربان کرنا ممکن تھا۔ Braveheart کا ایک مکالمہ یاد آ گیا ”ہاں، لڑنے کی صورت میں شاید موت تمہارا مقدر بن جائے اور بھاگنے کی صورت میں شاید تم کچھ دن اور زندہ رہ سکو۔ مگر آج سے کئی سال بعد اپنے آرام دہ بستر پر مرنے کی بجائے اور ان تمام دنوں کے عوض کیا تم یہ سودا کرنا پسند نہیں کرو گے کہ تمہیں ایک موقع ملے، صرف ایک موقع، اور تم ایک جوان رعنا کی طرح واپس آؤ اور اپنے دشمنوں کو بتاؤ کہ تم ہماری جان تو لے سکتے ہو مگر ہماری آزادی کبھی نہیں چھین سکتے!“ جنرل نیازی نے لڑنے کی بجائے اپنے آرام دہ بستر میں مرنے کا فیصلہ کیا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada