سارا ٹبر چور ہے


جمہوریت اور آمریت میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ جمہوریت میں آپ اس نظام کو، اپنے حکمران کو، وزراء، ایم این اے ایز کو، کونسلرز کو دل کھول کر برا بھلا کہہ سکتے ہیں۔ آمریت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ دور جبر میں کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ زبان کھول سکے۔ جو اس گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں وہ بدنام زمانہ، کوڑوں کی سزا پاتے ہیں، وہ کال کوٹھڑیوں میں جیلیں کاٹتے ہیں، پھانسی لگتے ہیں، سولی چڑھتے ہیں خاک ہو جاتے ہیں، لڑتے لڑتے راکھ ہو جاتے ہیں۔

پاناما کیس میں عدالتی فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ نہ جانے نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ فیصلہ اب عدالت کی اپنی صوابدید ہے۔ ایک سال سے زیادہ گزرنے والے عذاب میں اب کچھ توقف آیا۔ کچھ سانس لینے کی مہلت ملی ہے۔ اس سارے مرحلے پر ایک طائرانہ نگاہ، اس عدالتی وقفے میں بہت ضروری ہے۔ پاناما کے الزامات کی جب بوچھاڑ شروع ہوئی تو یوں لگا جیسے نواز شریف اور ان کا خاندان اس سارے ملک کو لوٹ چکا ہے۔ اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ اسحاق ڈار نے ملکی خزانہ خالی کر دیا ہے۔ مریم نواز کو اس ملک کی ساری دولت جہیز میں دے دی گئی ہے۔ حسین نواز کے اثاثے بل گیٹس سے بڑھ گئے ہیں وزیروں، مشیروں نے پائی پائی لوٹ لی ہے۔ کچھ رقم خود ہڑپ کر لی ہے اور باقی کی رشتہ داروں میں بانٹ دی گئی ہے۔ اب ایک ہی رستہ ہے۔ ان کرپٹ حکمرانوں کو سزا دی جائے۔ سرعام پھانسیاں لگائی جائیں۔ ان کی تذلیل کی جائے۔ ان کے اثاثے ضبط کئے جائیں۔ ان کی جائیدادیں قرقی کی جائیں۔ ان پر مقدمے چلائے جائیں ان مجرموں کو عدالتوں میں گھسیٹا جائے۔ ان کی توہین برسرعام کی جائے اس لئے کہ یہ قوم کے مجرم ہیں، انہوں نے قومی خزانے کو لوٹا ہے۔ اس کیس کے سامنے آتے ہی عوام کے جذبات مشتعل ہو گئے۔ لوگ بڑے شوق سے تحقیقات کے بارے میں سنتے رہے۔ مجرموں کے کیفر کردارکو پہنچنے کا انتظار کرتے رہے۔ باسٹھ، تریسٹھ کے مطابق صادق اور امین نہ ہونے کی بات کرتے رہے۔ اخلاقی بنیادوں پر ہی استعفے کے متقاضی رہے۔ حکومت کی بساط لپٹنے کی خبر کے متلاشی رہے۔

آج ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ کرپشن کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ اربوں ڈالرز کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ خزانہ خالی کرنے والوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ بیٹی کو جہیز میں دی گئی قومی دولت کا کوئی نشان نہیں ملا۔ جے آئی ٹی ہو یا عدالت عظمی سب اس بات پر متفق ہیں کہ وزیر اعظم کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ عوامی عہدے سے فائدہ اٹھانے کا الزام سچ ثابت نہیں ہوا ہے۔ پھر اس بات کی وضاحت بھی بارہا ہوئی کہ پاناما کیس کوئی سرکاری خزانے میں فراڈ کا کیس نہیں ہے۔ یہ ایک خاندان کے کاروباری معاملات کی چھان بین ہے۔ ایک سال گزرگیا اس پہاڑ سے چوہا تک برآمد نہیں ہوا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ سلسلہ ایک سال سے نہیں چل رہا۔ مشرف دور میں بھی یہ تحقیقات جاری تھیں۔ اس زمانے میں بھی اربوں کی کرپشن اور ملکی خزانے کو لوٹنے کا الزام لگا تھا۔ برسوں تفتیش ہوئی تھی۔ تفتیشی افسران دن رات کی محنت شاقہ کے بعد کچھ نہیں برآمد کر سکے تھے۔ بد ترین آمریت میں بھی نیب کے افسران، بادشاہ کو خوش نہ کر سکے تھے۔

یہ موقع اس بات پر بحث کا نہیں کہ نواز شریف کے خاندان کے ساتھ کیا کھلواڑ کھیلا جا رہا ہے؟عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کی ان کو کیا سزا دی جا رہی ہے؟ جمہوریت کا نام لینے پر کیوں ان سے انتقام لیا جا رہا ہے؟ عوامی لیڈر کہلانے کی سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ تیسری کوشش تھی حکومت کو گرانے کی۔ اس نظام کو لپیٹنے کی۔ اس کی ابتدا دھرنے سے ہوئی تھی۔ اس وقت دھاندلی کے نام پر سارے ملک کو یقین دلا دیا گیا تھا کہ اب چور پکڑے گئے ہیں۔ اب مجرم رنگے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ہیں۔ دھاندلی کرنے والے بے نقاب ہوگئے ہیں۔ ایک سو چھبیس دن دھرنا دیا گیا۔ کیا کیا الزام نہیں لگا۔ کون کون سی گالی نہیں دی گئی۔ کیسی کیسی جھوٹی گواہی پیش نہیں کی گئی۔ یوں لگتا تھا حکومت اب گئی کہ اب گئی۔ اب انہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ اب راج کرے گی خلق خدا۔ اس سارے ہنگامے کے بعد معاملہ جوڈیشل کمیشن میں گیا۔ الزام لگانے والوں سے جب ثبوت مانگے گئے تو ان کے ہاتھ خالی تھے۔ بات کچھ بھی نہ نکلی۔ دھاندلی کے الزام کی ہر طرح سے تفتیش کروائی گئی۔ ہر ذریعہ استعمال کیا گیا۔ الزام لگانے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ دھرنا ٹو اسلام آباد لاک ڈائون کا مرحلہ بھی خیریت سے گزرگیا۔ بہادر اور نڈر اپوزیشن لیڈر اپنی پناہ گاہ سے ہی نہ نکلا۔ ان سے بہت بہترتو شیخ رشید رہے جنہوں نے پانچ سے سات افراد کے مجمع کا سامنا کیا۔ کسی نے ان کا تعاقب نہیں کیا۔ لیکن وہ گرفتاری سے بچنے کیلئے تن تنہا ہی بھابڑہ بازار کی گلیوں میں کئی فرلانگ تک فرار ہوتے رہے۔ پاناما کیس تیسری یلغار تھی۔ مسئلہ یہ نہیں کہ پاناما کیس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے مسئلہ ہے کہ بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اگر وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ پاناما سے سرخرو ہو بھی جاتے ہیں تو دو ہزار اٹھارہ تک ابھی بہت مرحلے باقی ہیں۔ ابھی بہت سے پتے کھیلنے باقی ہیں۔ ابھی بہت سے کرتب مداری کی پٹولی میں دھرے ہیں۔ اب بھی اچانک کہیں فساد ہو سکتا ہے۔ گولی بھی چل سکتی ہے۔ درجنوں بے گناہ مارے جا سکتے ہیں۔ کوئی پہیہ جام ہڑتال بھی ہو سکتی ہے۔ نفاذ شریعت کے مطالبے پر لانگ مارچ بھی ہو سکتا ہے۔ اچانک مارکیٹ سے اشیائے ضروریہ غائب بھی ہو سکتی ہے۔ ا سٹاک مارکیٹ میں بحران بھی آ سکتا ہے۔ اس ملک میں جمہوریت کی تذلیل کے لئے کچھ بھی، کبھی بھی ہوسکتا ہے۔

کرپشن کا نعرہ اس ملک میں بڑے زور سے لگتا ہے۔ لیکن اس کے مخاطب صرف سیاستدان ہوتے ہیں۔ کیا اس ملک میں یہی کرپٹ عناصر ہیں۔ کیا کرپٹ جرنیل اس ملک میں نہیں گزرے؟ کیا ججوں پر کرپشن کے الزامات نہیں لگے؟ کیا زمینوں کے قبضے والے کرپشن میں ملوث نہیں ہیں؟ کیا تھانے بیچنے والے کرپٹ نہیں ہیں؟ کیا بھتے لینے والے مجرم نہیں ہیں؟ لیکن دشواری یہ ہے کہ ہم ان سب کا نام نہیں لے سکتے اس لئے کہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ صرف اور صرف سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں۔ صرف اور صرف جمہوریت میں کرپشن ہوتی ہے۔ صرف اور صرف عوامی ووٹ سے منتخب لوگ قومی خزانے کو لوٹتے ہیں۔ صرف یہی سیاسی بد بخت صادق اور امین کی شرط پر پورا نہیں اترتے۔

یہ ملک ایسا ملک ہے جہاں صادق اور امین رہ کر آپ گھر سے دفتر نہیں جا سکتے۔ بجلی کا بل نہیں جمع کروا سکتے۔ بچے کا داخلہ نہیں کروا سکتے۔ خالص دودھ نہیں منگوا سکتے۔ جاوید ہاشمی نے اپنی پریس کانفرنس میں درست بات کی کہ صادق اور امین صرف پیغمبر آخری الزماںﷺ کے نام کے ساتھ سجتا ہے۔ وہی اس معراج کے مستحق ہیں۔ ہم سب گناہ گار ہیں۔ ہم میں سے اس مقام پر کوئی بھی، کبھی بھی، نہیں پہنچ سکتا۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں باسٹھ تریسٹھ اور صادق اور امین ایک سیاسی ہتھیار ہے، ایک ہتھکنڈا ہے، ایک ہتھکڑی ہے۔ جس کی گرفت میں صرف سارے سیاستدان آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آئین میں اس اصطلاح کے موجد اب اس ملک کو دہشت گردوں کے حوالے کر کےفیصل مسجد کے احاطے میں مزے سے سو رہے ہیں۔

یاد رکھنے کی بات اتنی ہے۔ اس ملک میں صادق اور امین کوئی نہیں ہے۔ نہ سیاستدان، نہ جرنیل نہ جج، نہ بیوروکریٹس۔ نہ دھرنے کے خالق نہ اس دھرتی کے اصل مالک۔ یہاں سچا کوئی نہیں۔ صادق اور امین کی شرط پر کوئی پورا نہیں اترتا۔ ہم سب اپنی اپنی بساط اور اوقات کے مطابق کرپٹ ہیں اور سیاستدانوں کے علاوہ بھی ہر شعبے میں کرپشن کا زور ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو مجھے کہنے دیں، یہاں سارا ٹبر چور ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar