بہت بری بات!


اگلا سال الیکشن کا ہے۔ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو ابتدا سے اپوزیشن نے تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ حکومت کاخیال تھا کہ میثاقِ جمہوریت کا بھرم رکھنے کو ہی سہی کچھ ‘ ہتھ ہولا ‘ رکھا جائے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ کسی خوفناک سسرال کی طرح روزِ اول سے دھاندلی کا ایسا پھریرا لہرایا گیا کہ کالی شیروانی پہننے کا سارا مزا غارت ہو گیا۔

میثاقِ جمہوریت والے چپ چاپ ایک کونے میں کھڑے دیکھتے رہے اور دھرنوں، احتجاجوں، پہیہ جاموں، رنگ برنگے الزامات اور کیسوں نے حکومت کو حکومت کا مزا نہ لینے دیا۔ اپوزیشن کے پاس جوانوں کی طاقت اور جیالا کلچر تھا۔ سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا کی طاقت ان کے ہاتھ میں تھی۔

کہیں دھاندلی کا غوغا مچا، کہیں ماڈل ٹاؤن کیس سامنے آیا۔ گلو بٹ برآمد ہوا، اورنج میٹرو کا غلغلہ اٹھا اور آخرش پاناما لیکس۔ حکومتی پارٹی اب بری طرح پھنس چکی ہے۔ آدھا ملک خوشیاں منا رہا ہے آدھا جمہوریت کے ڈی ریل ہونے سے گھبرا رہا ہے۔ ان گھبرانے والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو ایک بار نہیں کئی بار منتخب وزیرِاعظم کو نشست سے ہٹانے کا مزا خوب چکھ چکے ہیں۔

وزیرِاعظم اور ان کے خاندان پہ لگنے والے الزامات اور ان کی تحقیقات نے ایک بات تو ثابت کر دی کہ ہم خاصے جمہوری بلکہ ‘بچہ جمہوری’ ہو چکے ہیں۔ اس کیس سے ہمیں اور کچھ فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اتنا ضرور معلوم ہو گیا کہ جب کوئی جائیداد خریدی جاتی ہے تو اس کی کوئی ’منی ٹریل‘ بھی ہوتی ہے۔ ‘ہٰذا من فضل ربی‘ لکھ دینے سے اب کوئی یقین نہیں کرتا کہ یہ واقعی ‘فضل ربی’ ہے۔

ہمارے بچپن میں اکثر سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے چند ہزار تنخواہ پانے کے باجود لاکھوں خرچ کرتے تھے۔ آفرین ہے ان کے محلے داروں اور رشتے داروں پہ کہ کبھی کسی نے ان سے سوال نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان ہی افسروں سے سفارش کرا کے اپنے الو سیدھے کیے جاتے تھے۔

ان افسران کے اپنے نام تو ایک موٹر سائیکل بھی نہ ہوتی تھی مگر ان کی بیگمات کے مکان، کاریں پلاٹ اور جانے کیا کیا جائیداد بن چکی ہوتی تھی۔ ان تمام چیزوں کی ’منی ٹریل‘ کسی مائی کے لعل نے پوچھنے کی کبھی جرأت ہی نہ کی۔ اگر کبھی دریافت کیا جاتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ بیگم صاحبہ کے بھائی نے ‘بعوضِ مہر وفا’ تحفتاً تفویض کی ہے۔ مذکورہ بھائی صاحب اکثر ‘ فضلِ ربی’ سے پہلے کے دور میں دامن سے ناک پونچھتے، مکھیاں مارتے پھرتے تھے ۔

بھائی صاحب کے ذرائع آمدن پوچھے جاتے تو معلوم ہوتا کہ موصوف کی ‘زمینیں’ ہیں، چونکہ اس زمانے میں زمیندار ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے اس لئے ان کی آمدن کے بارے میں کوئی نہ پوچھتا تھا اور نہ کوئی بتاتا تھا۔ ’منی ٹریل’ یہاں آ کے ختم ہو جاتی تھی اور ‘کھرا’ نکالنے والے مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے تھے۔

یہ ایک ‘معمولی صاحب’ کی بیگم صاحبہ اور سالے صاحب کی کہانی ہے۔ ‘بڑے صاحبوں’ کی کہانیاں مزید گنجل دار اور دلچسپ ہوتی ہیں۔ اسی کی دہائی میں اس گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں سمگلروں کے ساتھ وہ ظالم لوگ بھی شریک ہو گئے جو اپنے کسی پیارے کو گلف کی ریاستوں میں سخت محنت مزدوری میں جھونک کے معاشرے میں اکڑ اکڑ کے پھرتے تھے۔

قناعت، محنت اور سفید پوشی کی اخلاقیات، پہاڑوں کے پار چلی گئیں۔ محنتی آدمی کو بے وقوف سمجھا جانے لگا، جھوٹ سچ کے ناؤ چلانے والے کامیاب سمجھے جانے لگے اور ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اولاد ایماندار باپوں سے سوال کرنے لگی کہ اپنی آخرت کے لیے ہماری دنیا برباد کر کے آپ کو کیا ملا؟

معاشرے میں عزت کا معیار پیسہ اور صرف پیسہ رہ گیا۔ اسی دوران تحریکِ انصاف نے لوگوں میں یہ آگہی لانے کی کوشش کی کہ ملکی پیسہ لوٹنا ’بہت بری بات ہے‘۔ اتنی بات تو سب کو سمجھ آ گئی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اگلے الیکشن میں تحریکِ انصاف صرف ان لوگوں کو ٹکٹ دے گی جن کا دامن صاف ہے؟

مشکل یہ ہے کہ ایسے لوگ سیاست کے کوچے میں تو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے ۔مزید یہ کہ اس وقت بھی جو لوگ اپوزیشن میں بیٹھے ہیں وہ صرف اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

عوام نامی بھولے لوگوں سے التماس ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت سے انقلاب کی امید رکھنے کی بجائے اپنی جیبوں سے خود ہوشیار رہیں، کل کو ہمیں نہ کہیے گا کہ خبر نہ کی اور ہم گائے بیچ کر گدھا خرید لائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).