جمہوریت ہمیشہ خطرے میں کیوں رہتی ہے؟


یہ پاکستان میں جمہوریت اتنی کمزور کیوں ہے کہ ہر وقت خطرے میں ہی رہتی ہے؟ کہیں ہمارے جیسے ملکوں میں حکمران خاندان کا نام تو جمہوریت نہیں ہوتا ہے؟ کیا کوئی بھی شخص سسٹم کے لئے اس حد تک ناگزیر ہو تا ہے کہ اس کے منظر نامے سے کسی بھی وجہ سے ہٹ جانے پر جمہوریت پر بین شروع کردیا جاتا ہے؟

ان جملوں کی رٹ لگا کر اس نام نہاد جمہوریت کے بینیفشری دراصل اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ایسا کوئی نظام سرے سے ملک میں قائم ہی نہیں ہوسکا۔ یہ سب رونا پیٹنا اس لئے کہ وطن عزیز میں جمہوریت نامی کوئی چیز سرے موجود نہیں ہے۔ جس چیز کو جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے وہ کچھ بھی اور ہو سکتا ہے لیکن جمہوریت نہیں۔ جن ممالک میں جمہوری ہے وہاں کسی شخص کی وفات کی وجہ سے، اس کے استعفے سے، اس کے منظر سے ہٹ جانے سے، اس کے الیکشن ہارنے پر سیاست سے کنارہ کشی کرلینے سے، اس کے عدالت سے نا اہل ہوجانے سے، اس کی کرپشن پکڑے جانے سے، گدی آگے اولاد کو منتقل نہ ہونے سے، ایوان اقتدار کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے سے اور وزارت کا جھنڈا گاڑی پر نہ لگنے سے جمہوریت کو کوئی بھی، کسی قسم کا خطرہ کبھی لاحق نہیں ہوتا۔

جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں سیاستدان، خاندان، پارٹیاں نہیں بلکہ ملک چلانے والے ادارے مضبوط ہوں اور پوری تندہی کے ساتھ اپنے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہوں۔ یقین کیجئے امریکہ میں ہیلری صدر بنے یا ٹرمپ، بھارت میں من موہن آئے یا مودی۔ سعودیہ محمد بن سلمان کو ولی عہد بنائے یا بندر بن سلطان کو۔ چیف آف آرمی سٹاف راحیل شریف ہویا محمد شریف، عمران خان ایک دن کا دھرنا دے یا 365 دن دھرنے میں بیٹھا رہے۔ نوازشریف لاہور سے لانگ مارچ لے کر چلے یا طاہرالقادری کینیڈا سے انقلاب لائے۔ عدالت گیلانی کو ناہل قرار دے، ملک میں سیلاب آئیں، طوفان آئیں، کوئی میڈیا گروپ جس مرضی پارٹی کے حق میں بولنا شروع کر دے، کوئی سارا سال نتھیا گلی چھوڑ، کے ٹو بیس کیمپ میں بیٹھا رہے، کوئی جیے یا مرے اگرادارے مضبوط اور اپنی جگہ پہ قائم ہوں، اپنے اپنے فرائض اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انجام دے رہے ہوں تو جمہوریت کو کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

لیکن بدقسمتی سے جمہوریت کے چمپیئن انہی اداروں کے سربراہوں کو تنخواہوں اور ترقیوں، مدت ملازمت میں توسیع، چاپلوسیوں، اپنے ساتھ دوروں، دعوتوں اور تصویروں میں ایسا الجھاتے ہیں کہ نہ یہ ادارے مضبوط ہوتے ہیں اور نہ ان بنیادوں پر قائم جمہوریت کی عمارت۔

حکمران ایک طرف جمہوریت کو مضبوط میں اور آپ بھی نہیں ہونے دیتے۔ اس لئے کہ ہم سب کسی ایک شخص، کسی ایک خاندان یا اپنی پسند ناپسند کو جمہوریت سمجھ لیتے ہیں۔ ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے گھرکے سامنے نالی پکی ہونی ہے، ہمارے بھائی کو ملازمت ملنی ہے، ہم نے ایف آئی آر درج کرانی ہے، ہم نے کوئی سرکاری ٹھیکہ لینا ہے، ہم نے لائن میں نہیں لگنا ہے، ہم نے قانون توڑ کے بچنا ہے، ہم نے دنگا فساد پھیلا کرمعصوم ثابت ہونا ہے، ہم نے برادری میں ناک اونچی کرنی ہے تو کسی ایم پی، ایم این اے، وزیر وغیرہ سے ہمارا مضبوط تعلق ثابت ہونا چاہیے۔ اس وقت ہم سارے اداروں کو حسب توفیق و جثہ روندتے چلے جاتے ہیں اور یہیں سے جمہوریت کی بنیادیں کھوکھلی ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

ہم نے ایم پی اے، ایم این اے اور وزیروں مشیروں کو جن امراض کا مداوا سمجھ رکھا ہے اور جن کا مداوا وہ اپنے آپ کو سمجھنے لگ گئے ہیں جمہوریت میں یہ ان کا کام نہ تھا، نہ ہے۔ ادارے مضبوط ہوں ایک ہی بنک میں چوہدری نثار اور رشید حجام لائن میں لگ کر بل جمع کروا رہے ہوں۔ عمران خان کے پاس بھی ڈرائیونگ لائسنس نہ ہو تو اسے اتنا ہی جرمانہ کیا جائے جتنا رب نواز ٹیکسی والے کو کیا جاتا ہے۔ بیمار ہونے پر آصفہ زرداری کی بھی ہسپتال میں اسی طرح پرچی بنے جس طرح شمیم ماسی کی بنتی ہے۔ ڈاکٹرعاصم بھی اسی طرح قانون کا سامنا کریں جس طرح نعیما قینچی کرتا ہے۔
حسب مراتب و دولت بعض چیزیں یقیناً نعمت اوراستحقاق ہوتی ہیں لیکن جس دن یہ استحقاق کسی ریڑھی بان، کسی قلفی والے، کسی پھل فروش، کسی ویٹر، کسی ویگن ڈرائیور کے خون سے کشید ہ نہ ہو گی۔ جس دن میں اورآپ نے لفافہ صحافی، سازشی جنرل، چاپلوس جج، فرض ناشناس بابو، کرپٹ سیاستدان، ملاوٹی تاجراوربے صلاحیت اولادحکمران کو پروٹوکول دینا بند کردیں گے جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونا شروع ہوجائیں گی اور کوئی اس کے خلاف سازش نہیں کر سکے گا۔ عمران خان، آصف زرداری اور نواز شریف یا جنرل باجوہ ہوں نہ ہوں ملک میں جمہوریت ضرور ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).