سیاسی تاریخ میں غلط جانب کھڑے دانشور


کیا یہ محض اتفاق ہے کہ رائٹ اور سنٹر رائٹ ہونے کا دعویدار ایک مخصوص دانشور طبقہ نواز شریف کیخلاف صف آراء اور غیر جمہوری اقدامات کی حمایت میں کھڑا ہے؟
انگریزی میں کہاوت ہے

Coincidence is the word we use when we can‘t see the levers and pulleys

یہ طبقہ تاریخی طور پر ہمیشہ آمریت کو صدا دیتا، آمریت کے جواز گھڑتا اور تاریخ کی غلط سمت دکھائی دیتا ہے۔ دوسرا کیا وجہ ہے کہ دائیں اور بائیں بازو کا دانشور طبقہ کُھلم کُھلا نواز شریف کا ساتھ دے رہا ہے اور اس میں وہ دانشور بھی شامل ہیں جن کا ماضی بطور نواز شریف اور ن لیگ کے ممدوح نہیں بلکہ نقاد کی حیثیت سے مسلّم ہے۔
آج ہمیشہ گزرے کل کے پس منظر اور آنے والے کل کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

کسی کیفیت کے تحت ایک دفعہ کہا تھا

آمریت جواز ڈھونڈے گی
اور جمہوریت نیا رستہ

یہ وہی ذہن ہے جس نے ایوب خان کی آمریت کا استقبال پھولوں سے کیا اور فاطمہ جناح کی کردار کشی کی۔ یہ وہی ذہن ہے جس نے ضیاء الحق کی سیاہی کو نور سے تشبیہ دی اور بھٹو کے عدالتی و عسکری قتل کو آغازِ صُبحِ نُو قرار دیا۔ یہ وہی ذہن ہے جِس نے مشرف کی آمریت کو مشرف بہ ایمان کیا۔

کچھ لوگوں کے عزائم ِدکھنے میں بڑے معصوم مگر مضمرات بہت گھناونے ہوتے ہیں۔ جیسے یہاں کچھ روایتی فقرے انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ مثلاً ” وسیع تر ملکی مفاد“، ”جمہوریت کی بقاء“، “ ملک انتہائی نازک صورتحال سے دو چار ہے، ” گُستاخ“ اور ”آئین اور ریاست سے غداری“ وقت کی ضرورت وغیرہ وغیرہ

میرے ممدوحین جو چند مخصوص میڈیا ہاوسز اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر بہت فعال ہیں ایک بیانیہ واضح طور پر گھڑتے نظر آتے ہیں۔ ان کا اصل مسئلہ حُبِ علی نہیں بغضِ معاویہ ہے۔ کچھ لوگ ایجنڈے اور کچھ ذہنی پسماندگی کے باعث ایک زبردستی معروف کیئے گئے بیانیے کے پرچار کا حصہ بنتے ہیں۔

بظاہر یہ مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں مگر یہ ضیاء کے اسلامائزیشن اور مشرف کی Enlightened moderation کے بیک وقت پرچارک اور حامی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ عوام کے حقِ حکمرانی کی بجائے سلیکشن بورڈوں کے منتخب امیدواروں کے حامی ہوتے ہیں۔ ِاس سے ان کی ذہنی پسماندگی اور احساس کمتری کا احساس جھلکتا ہے۔ نسیم حجازی سے متاثر، غزوہِ ہند کی امید لگائے، فاتح عالم کی امید جگائے‘ دنیا میں خود کو مرکز متصور کرنے والے کم فہموں کا ایک ٹولہ ہے۔

یہ خود کو مختلف اداروں کا خود ساختہ ترجمان سمجھتے پر پھولے نہیں سماتے ہیں۔ ایک ہلکی سی تھپکی ان کی زندگی کی معراج ہے اور یہ اس کے بعد ایک لمبے یُدھ کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
یہ ہمیشہ اپ کو بھٹو کی کردار کُشی کرتے، بے نظیر پر کیچڑ اچھالتے اور نواز شریف کو چور کہتے نظر آئیں گے لیکن آمرانہ دور کو سنہری دور سے تشبیہ دیں گے۔ ان کے نزدیک احتساب صرف منتخب لوگوں کا ہونا چاہئیے نامزد اور مسلط شدہ لوگ اللّٰہ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں اور احتساب اور تنقید سے بالاتر ہیں۔

یہ صرف مالی بے ضابطگیوں کو کرپشن گردانتے ہیں اور اخلاقی گراوٹ اور غیر آئینی اقدامات، اختیارات کا غیر آئینی اور متجاوز استعمال کو کرپشن نہیں مانتے۔ ان کی علمی بد دیانتی کا یہ عالم ہے کہ یہ کبھی آمریت اور عدلیہ کے شرمناک ماضی کا حوالہ نہیں دیں گے مگر جمہوری حکومتوں کی چھوٹی سی لغزش کو ہر وقت دہرائیں گے اور لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کریں گے کہ تمام مسائل کی جڑ جز وقتی لُولی لنگڑی جمہوریت ہے جبکہ دائمی مسلط شدہ آمریت ہی وہ واحد انار ہے جس کے کھانے سے شفا ملتی ہے۔

ان کے نزدیک غیر فطری اور بغیر جدوجہد کے وجود میں آنے والی جماعتیں اور لیڈر تنقید سے بالاتر ہوتے ہیں۔ یہ جز وقتی درآمد شدہ لیڈرز پہ بھی بات نہیں کرتے۔ یہ تاریخ میں ہمیشہ غلط سمت میں کھڑے ملیں گے۔ وہ چند جو راندہِ درگاہ سہی جن کے حصے آج حرفِ دشنام سہی، جو بظاہر گھاٹے کا سودا کرنے والے ہیں، وہی تاریخ میں درست سمت کھڑے ہیں۔

آخر میں نواز شریف سے استعفی مانگنے والوں اور استعفی کا مشورہ دینے والوں کے نام ایک شعر

ہارنے والوں نے اس رخ سے بھی سوچا ہوگا
سر کٹانا ہے تو ہتھیار نہ ڈالے جائیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).