فیصلہ جو بھی ہو، کیا اعتبار بحال ہو سکے گا


پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد اگرچہ فیصلہ محفوظ کرلیا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اندازے لگانے والے اور ’اندر‘ کی خبر لانے والے اطمینان اور صبر سے اس دن کا انتظار کررہے ہیں کہ عدالت کے تین فاضل جج فیصلہ سنائیں اور اس معاملہ کو انجام تک پہنچائیں۔ اس وقت اندازوں، قیاس آرائیوں اور پیش گوئیوں کی جو صورت حال ملک میں موجود ہے ، اس کی بنیاد پر یہ اندازہ قائم کرنا آسان ترین ہو سکتا ہے کہ فیصلہ جوبھی ہو، متنازعہ ہوگا۔

یعنی اس معاملہ میں ملوث سب فریق یوں تو یہی کہیں گے کہ وہ اس فیصلہ کا احترام کرتے ہیں۔ تاہم اس ایک فقرے کے بعد ایک لیکن کے ساتھ طویل وضاحتیں سامنے آئیں گی جن میں یہ بتایا جائے گا کہ یہ فیصلہ کیوں کر قانون ، جمہوری روایت یا عدالتی وقار کے منافی ہے۔ اور اس کی اصلاح کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں تو صرف یہ سوال ہی کیا جا سکتا ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ جوبھی ہو، کیا یہ قابل اعتبار بھی ہو گا۔

فیصلہ کیسا ہو، کے حوالے سے ماہرین اور تجزیہ نگار متعدد مشورے فاضل ججوں کی ’رہنمائی ‘ کے لئے پیش کرچکے بلکہ مسلسل کر رہے ہیں ۔ تاہم ایک یا دوسرے فریق سے ہمدردی رکھنے کے باوجود دونوں سے ’اختلاف‘ کا حوصلہ کرنے والے لوگوں کو یہ توقع ضرور ہے کہ سپریم کورٹ کوئی ایسا راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جائے جو کم از کم اس کے دامن کو داغدار ہونے سے بچا سکے۔

پاناما کیس پر کئے جانے والے تبصروں ، اندازوں اور امیدوں کے جھرمٹ میں بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ کٹہرے میں نواز شریف یا ان کے صاحبزادے اور صاحبزادی نہیں ، خود عدالت عظمی کا وقار اور شہرت کھڑی ہے۔ اور اب خود عدالت کے ہی تین ججوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی شہرت اور مستقبل میں عام لوگوں کا اپنے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر اعتبار بحال رکھنے کا کوئی راستہ نکال پاتے ہیں یا نہیں۔ ماضی ایک بھیانک سائے کی مانند ان ججوں اور عدالت عظمیٰ کی شہرت پر سایہ فگن ہے۔ اس میں ایسے فیصلے کئے گئے جنہوں نے وقتی طور پر داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کئے لیکن جوں جوں وقت آگے بڑھتا گیا، ان فیصلوں کے نقائص کی نشاندہی بھی ہوئی اور ججوں کے تعصب اور جاہ پسندی کا بھانڈا بھی پھوڑا گیا۔

صاف ظاہر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آنے والی نکتہ چینی ، ان ہی معاملات میں سامنے آئی ہے جو ایک خاص وقت میں سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دیئے گئے تھے۔ اس طرح عدالت نے حاکم وقت کی مصلحت کے مطابق سیاسی تقاضوں کو تو پورا کردیا تھا لیکن اپنے دامن پر ایسا داغ نمایاں کیا تھا جسے صاف کرنے کے لئے کئی دہائیوں کی تپسیا درکار ہوگی۔

نواز شریف کے خلاف سامنے آنے والے پاناما کیس نے بھی ایسا رخ اختیار کرلیا ہے کہ یہ بد عنوانی، اختیار کے غلط استعمال یا منی لانڈرنگ کا سادہ معاملہ نہیں رہا بلکہ اب ایک ایسا پیچیدہ مقدمہ بن چکا ہے جس میں ایک فردیا خاندان ہی ملوث نہیں ہے بلکہ یہ طے ہونا ہے کیا اس ملک میں انصاف اور قانون کی بالا دستی قائم ہو سکتی ہے۔ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے سہ رکنی بنچ کو یہ واضح کرنا ہے کہ ملک کی عدالت بدستور محروم لوگوں کی امیدوں کا محور رہنے کے لائق ہے ۔ اور وہ نہ تو کسی سے ڈکٹیشن لیتی ہے اور نہ ہی وہ مقدمہ کے حقائق اور قانون کی ضرورتوں کے علاوہ کسی بنیاد کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوگی۔

ایسا فیصلہ کرنا تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اسلام آباد کو تحریک انصاف کے دھاوے سے بچانے کے لئے اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سوچا بھی نہ ہوگا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو کیسی بند گلی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ سیاسی فیصلے عدالتوں میں نہیں عوام کے ووٹ سے طے پانے چاہئیں ۔ جب بھی اس اصول کو توڑا جائے گا، اس کے ملک کی سیاست پر ہی نہیں بلکہ عدالتوں کی شہرت اور قانون پر عام آدمی کے اعتبار پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاناما کیس سے جتنی توقعات وابستہ ہیں، اس کے بارے میں اتنے ہی اندیشے بھی جنم لے رہے ہیں۔

عدالت نے تو فیصلہ محفوظ کرلیا ہے لیکن ملک کا آزاد سے زیادہ بے لگام میڈیا یہ بتانے میں بخل سے کام نہیں لیتا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا اور کہاں ہونے والا ہے۔ اگر عام لوگوں میں یہ تاثر تقویت پکڑے گا کہ فیصلہ ججوں نے نہیں وردی والوں نے کرنا ہے۔ اور وردی والے عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات اور ان کے نتیجے میں دوسرے ملکوں سے ظاہر کئے جانے والے تحفظات کی وجہ سے وزیر اعظم کو ہٹانے یا قبول کرنے پر مجبور ہوں گے ، تو یہ اندازے خواہ کتنے ہی سطحی اور بے بنیاد ہوں ، سپریم کورٹ کے سامنے آنے والے فیصلہ کو پرکھنے کے لئے میزان بنانے کا کام بہر صورت انجام دے رہے ہیں۔

اس صورت حال کو بدلنے کے لئے صرف عدالت کے جج ہی حتمی اقدام نہیں کرسکتے بلکہ اس ملک کے سیاست دانوں کو بھی یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ اقتدار میں رہنے یا آنے کے لئے ان ہتھکنڈوں اور سہاروں پر تکیہ کرنا چھوڑ دیں جو ملک میں جمہوری روایت کو مجروح کرنے کا سبب بنتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali